سوال یہ ہے کہ ہماری غیرت ایمانی ہمیشہ گھر سے باہر ہی کیوں جاگتی ہے؟ آئیے
آج آئینہ دیکھتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ ہم جن باتوں پر گھر سے باہر
پرتشدد روایتیں ڈال رہے ہیں، خود ان اقدار کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ہم
گھروں میں اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ کوئی ایسا صفحہ یا کتاب جس میں اللہ،
رسول، صحابہ کا نام لکھا ہو، ہم سے نیچی ہے، ممکن ہے اس پر کوئی آیت، حدیث
بھی لکھی ہو، لیکن ہم اس کی طرف پاؤں کرنے کے معاملے میں احتیاط کرتے ہیں
اور نہ ہی اس سے اونچا بیٹھنے کے معاملے میں خیال رکھتے ہیں۔ کتنے ہی
اخبارات یا کاغذ ہم ردی اور کوڑے میں ڈال دیتے ہیں، یہ جانے، دیکھے بغیر کہ
اس پر کوئی مقدس نام بھی درج ہوگا۔ راہ چلتے مختلف کاغذ پیروں میں آتے ہیں۔
کبھی اس نیت سے انہیں اٹھایا کہ اس پر کوئی ایسی تحریر یا نام درج ہو سکتا
ہے جس کی بے حرمتی ہو رہی ہو؟۔ ہماری گلیوں چوراہوں میں مقدس ناموں، نعروں
اور تحریروں والے بینرز اور پوسٹرز لگے ہوتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے وہ پھٹ کر
گرتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ کہاں گرتے ہیں اور ہم انہیں گرنے سے بچانے کا کیا
اہتمام کرتے ہیں؟ کبھی اپنے بچوں کو ہم نے اس حوالے سے گائیڈ کیا؟۔ ایسی
کتنی ہی مثالیں روزمرہ بنیادوں پر سامنے آتی ہیں۔ مگر ہم اپنے رویوں پر غور
کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ نماز، قرآن اور دیگر معاملات پر بھی ہمارے شب و روز
ہماری کوتاہیوں کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں لیکن چونکہ تعلق ہماری اپنی ذات
سے ہوتا ہے لہذا ہم توہین کا قرعہ ہمیشہ دوسروں کے نام ہی نکالتے ہیں۔ یہی
ہماری انفردای اور معاشرتی بدنصیبی ہے کہ اشتعال ہمیں خود پر نہیں آتا۔
گریبان میں جھانکیں تو ہم "ملزموں" سے زیادہ مجرم اور قصور وار ٹھہریں گے۔
لیکن چونکہ برداشت کے معاملے میں ہم بے حد کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ سو، کبھی
فرصت نکال کر خود ہی اپنی اداؤں پر غور کیجئے گا اور سوچئے گا کہ ایک فرد ایک
اجنبی ملک میں اپنوں سے دور اپنے بچوں کا رزق کمانے آیا ہو اور ہم اس کے
ساتھ یہ سلوک کریں؟۔ اس کا بچہ تمام عمر ہم مسلمانوں کو کوستا رہے۔ آخر کس
منہ سے ہم لوگ غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں آنے کی دعوت دیتے ہیں؟۔ یقینی
طور پر ہم یہ واقعہ بھی کچھ عرصہ بعد بھول جائیں گے مگر دنیا اور مقتول کی
فیملی نہیں بھولے گی۔ ان کی آہیں ہماری فضا میں بد دعا بن کر گھومتی رہیں
گی۔
|