میں ٹوکیو کے علاقے کوشی گایا میں اپنے ہوٹل کے سامنے فٹ
پاتھ پر کھڑا ارد گرد کے مناظر دیکھ رہا تھا کہ ایک کار میرے سامنے آکر رک
گئی ۔ ڈرائیور نے میری طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ میں سڑک کراس کر لوں ۔
میں نے ا شارے سے اُسے بتایا کہ میں کہیں نہیں جارہا ۔ اس نے میری طرف ہاتھ
لہرایا اور آگے بڑھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد دوسری کار بھی میرے سامنے رُکی تو
اس کا شکریہ اد ا کرنے کے بعد میں نے وہاں سے ہٹنا ہی مناسب سمجھا ۔ وہاں
پر زیبرا کراسنگ بھی نہیں تھا لیکن ڈرائیور پیدل چلنے والے کو دیکھ خود
بخود رُک جاتے تھے ۔ میرے انکار پر انہوں نے برا نہیں منایا بلکہ مسکرا کر
اور ہاتھ لہرا کر خیر سگالی کااظہار کر کے چلے گئے ۔
ٹوکیو، لندن ، پیرس ، سڈنی، بنکاک ، ایمسٹرڈم ، ملبورن سب مصروف شہر ہیں
لیکن میں نے ان شہروں کی ٹریفک میں وہ نظم و ضبط دیکھا ہے کہ یہاں بارہ
گھنٹے گاڑی چلا کر بھی انسان تھکتا نہیں ، نہ ہی اسے کسی ذہنی دباؤ کا
سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ ہشاش بشاش رہتا ہے ۔ کیونکہ یہاں ہر شخص ایک
نظام، اصول اور قانون کے دائرے میں رہ کر ڈرائیونگ کرتا ہے ۔ آپ اپنی لائن
میں بے فکر ہو کر مقررہ رفتار سے گاڑی چلاتے رہیں کسی پریشانی کا سامنا
نہیں کرنا پڑتا ۔ اسی طرح لائن تبدیل کرتے ہوئے آپ قاعدے پر عمل کریں تو
کوئی دقت پیش نہیں آتی ۔ کوئی اچانک آپ کے سامنے نہیں آتا ، کوئی اشارہ اور
فاصلہ برقرار رکھے بغیر لائن تبدیل نہیں کرتا ، کوئی انڈیکیٹر دیئے بغیر
نہیں مڑتا اور نہ ہی اچانک بریک لگا کر آپ کی گاڑی کی بریکوں اور آپ کے
اعصاب کو آزماتاہے ۔ اس نظم و ضبط کی وجہ سے نہ صرف حادثات اور انسانی
جانوں کے زیاں کا امکان بہت کم ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ڈرائیور ذہنی
اور جسمانی طور پر تھکتا بھی نہیں اورسڑکوں پر ماحول خوشگوار رہتا ہے ۔
دوسری طرف بحیثیت قوم آپ کا امیج بہتر اور قومی وقار میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ویسے بھی جو قوم قانونی اور اخلاقی اصولوں پر عمل درآمد نہیں کرتی وہ کبھی
ترقی نہیں کر سکتی ۔ ان شہروں میں ٹریفک پولیس نہیں ہوتی نہ عام پولیس
عموماَ سڑکوں پر نظر آتی ہے لیکن قانون کا خوف پھر بھی دامن گیر رہتا ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ گشتی پولیس یا سڑکوں پر نصب
کیمرے اگر کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی دیکھ لیں تو پھر مقررہ سزا سے بچنا
ناممکن ہے ۔ جب قانون ایک نظام متعین کر دیتا ہے اور اس پر عمل درآمد یقینی
بناتا ہے تو لوگ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں ۔
مہذب قوموں میں قانون پر عمل کرنے کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ وہاں کے
قانون پسند شہریوں نے جان دے دی لیکن قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا ۔ کچھ
عرصہ پہلے ناروے میں ایک خاتون کو اچانک دل کا دورہ پڑا۔ اس وقت وہ
ڈرائیونگ کر رہی تھی۔ اس نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور گاڑی کا رُخ
اسپتال کی طرف موڑ دیا ۔ اسپتال سے کچھ فاصلے پر ٹریفک کی سرخ بتی روشن تھی
اس نے اس حالت میں بھی سگنل نہیں توڑا اور سبز بتی کا نتظار کرتی رہی ۔ اس
انتظار میں ہی وہ چل بسی ۔ بعد میں ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر وہ سرخ بتی پر نہ
رُکتی تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی ۔ گویا اس نے جان دے دی مگر ٹریفک کا
قانون نہیں توڑا ۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک میں قانون کی پاسداری اور نظم و ضبط دیکھنا ہو تواس کی
سڑکوں پر چلتی ٹریفک دیکھ لو ۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ملک میں
قانون پرکس حد تک عمل ہوتا ہے اور اس ملک کے باسیوں میں نظم و ضبط ، تحمل ،
صبر، رواداری اور برداشت کس حد تک ہے ۔ بد قسمتی سے وطنِ عزیز پاکستان کے
شہروں کی سڑکوں پر ٹریفک کی حالت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں قانون نام کی
کوئی چیز نہیں ہے ۔ نہ ڈارئیوروں کو قانون کاعلم ہے نہ کوئی اس پر عمل کرتا
ہے اور نہ کوئی کسی کا لحاظ کرتا ہے ۔ ہماری سڑکوں پر جس کی لاٹھی اس کی
بھینس کے اصول پر عمل ہوتا ہے ۔ کوئی کسی کو رستہ دیتا ہے نہ اچانک آگے آنے
سے ہچکچاتا ہے ۔ کہیں پر بھی کوئی گاڑی اچانک آپ کے آگے آسکتی ہے ۔ کہیں پر
کوئی بریک لگا کر آپ کا راستہ بلاک کر سکتا ہے ۔ اچانک رانگ سائیڈ سے کوئی
گاڑی نمودار ہو کر آپ کا خون خشک کر سکتی ہے ۔ کہیں پر کوئی سڑک کے درمیان
، چلتی ٹریفک میں رُک کر ساری ٹریفک روک سکتا ہے ۔ جہاں سے ایک گاڑی بمشکل
گزر سکتی ہے وہاں کوئی اوورٹیک کرنے کی خطرناک کوشش کر سکتا ہے ۔ جس کا
جہاں دل چاہتا ہے پارک کرکے چلا جاتا ہے بھلے وہ غیر قانونی اور دوسروں کا
راستہ روکنے کا سبب کیوں نہ ہو ۔ اکثر ڈرائیور ڈرائیونگ کے دوران موبائل
فون کانوں سے لگائے مصروفِ گفتگو نظر آتے ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا
کیونکہ یہ کسی کی جان لینے کا سبب بن سکتا ہے ۔ بغیر رجسٹرڈ اور بغیر نمبر
پلیٹ کے گاڑیاں دندناتی پھرتی ہیں ۔ اکثر دُھواں اگل رہی ہوتی ہیں اور بہت
سوں کی ہیڈ لائٹ بند ہوتی ہیں ۔ اسی طرح سیکڑوں گاڑیاں شہروں میں بھی ہائی
بیم لائٹ آن کرکے سامنے سے آنے والوں کی آنکھیں چندھیا رہی ہوتی ہیں ۔
ہماری سڑکوں پر گاڑیاں چلانے والے اکثر ڈرائیوروں کے پاس لائسنس نہیں ہوتا
جب کہ ٹریفک کے قانون کا علم لائسنس یافتہ ڈرائیوروں کو بھی نہیں ہے ۔
ان حالات میں ہماری سڑکیں انتہائی غیر محفوظ ، ڈرائیونگ انتہائی مشکل ،
ٹریفک بلائے بے اماں اور شہریوں کے لئے وبالِ جاں ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ
ہے کہ حکومت ، پولیس اور قانون کہیں نظر نہیں آتا ۔ یوں لگتا ہے کہ یہ
قانون اور اصول و ضوابط سے مبرا ، سزا و جزا سے بے نیازاوراخلاقی اصولوں سے
آزاد معاشرہ ہے ۔ ایسا تو جنگل میں بھی نہیں ہوتا ۔ وہاں بھی کوئی اُصول
کوئی ضابطہ ہوگا ۔ جب کہ ہمارے ہاں صرف دھن اور دھونس کا قانون چلتا ہے ۔
بڑی گاڑی والا موٹر سائیکل والے کو اور طاقت ور کم زور کو دبا لیتا ہے ۔
پولیس اپنا کام کرتی نظرنہیں کرتی۔ اگر کہیں ایک دو پولیس والے نظر آ بھی
آجائیں تو وہ اپنے ارد گرد ہونے والے غیر قانونی عمل سے صرفِ نظر کر کے کچھ
غریب ڈرائیوروں سے دیہاڑی وصول کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ریڑھی اور ٹھیلہ
برداروں سے بھتہ وصول کر رہے ہوتے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے پچیس
برسوں سے ٹریفک اور دوسرے قانون پر عمل درآمد کی صورتِ حال بد سے بد ترین
کی طرف گئی ہے۔ آج سے تیس چالیس برس پہلے کسی حد تک قانون پر عمل درآمد
ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ یادِ ماضی بن گیا ہے ۔ کسی دور میں لوگ سائیکل
خریدتے تھے تو اس پر لائٹ نصب کراتے تھے کیونکہ قانونی تقاضا تھا ۔ آج کوئی
ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لئے تیار نہیں ۔ لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارا
پورا خاندان گاڑی چلاتا ہے لیکن لائسنس کسی کے پاس نہیں ۔ ان حالات میں
ہماری سڑکیں میدانِ کارزار اور بے گناہوں کی مقتل گاہ بنی ہوئی ہیں ۔ ان پر
سفر کرنے والے اور ڈرائیونگ کرنے والے اعصابی کشیدگی ، دُھوئیں، گردو غبار
اور شورو غل سے جسمانی اور ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو کر پریشان، برہم اور
ہر ایک سے نالاں نظر آتے ہیں ۔
بحثیت مجموعی پورا معاشرہ عدم برداشت ، عدم توازن اور خلفشار کا شکار ہوتا
جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ڈیپریشن سے بڑا زہرِ قاتل کوئی نہیں ہے ۔ ان
سڑکوں پر اور ان حالات میں سفر کرنے والوں سے زیادہ ڈیپریشن کا شکار کون
ہوتا ہوگا ۔ یوں یہ سڑکیں براہِ راست اور بالواسطہ ہزاروں زندگیوں کا چراغ
گل کرنے کا باعث بن رہی ہیں ۔ آخر کب تک ایسا چلے گا اور کب بہتری آئے گی۔
پورے معاشرے خصوصاَ قانون نافذ کرنے والے اداروں ، حکومتی اداروں ،
حکمرانوں اور ان حکمرانوں کو لانے والوں کے لئے لمحہِ فکریہ ہے۔
|