پاکستان میں اس وقت صرف 4 ہاتھی زندہ بچے ہیں... کیا پاکستان میں چڑیا گھر ہونے بھی چاہئیں؟

image
 
ہم جیسے ہی شیلٹر ہاؤس میں داخل ہوئے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں اور گاڑی سے اترتے ہی کئی کتے ہمارے اردگرد جمع ہو گئے۔ ہمارے ذہن میں بار بار یہ خوف آیا کہ کہیں یہ ہمیں کاٹ نہ لیں، ویکسین بھی دستیاب ہوگی یا نہیں؟
 
اسی دوران عائشہ چندریگر نمودار ہوئیں جن کے آس پاس بھی کئی کتے تھے جن میں سے ایک معذور تھا جو دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر ان سے کھیلتا رہا۔
 
عائشہ نے اپنے کتوں کا تعارف کراتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’یہ ایلفی ہے، یہ مکی، یہ لزی اور یہ ایلزبتھ ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بھاگ رہے ہیں۔ انھیں مزا آ رہا ہے ان کے رویے سے اندازا ہو جاتا ہے کہ یہ کتنے خوش ہیں۔‘
 
عائشہ چندریگر نے لاوراث جانوروں کے لیے کراچی میں ملیر کینٹ کے قریب ایک پناہ گاہ بنائی ہے جس میں 650 کے قریب جانور ہیں جو انھیں لاورث حالت میں ملے تھے۔ ان میں زیادہ تر کتے اور بلیاں ہیں جو معذور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا اور آنکھوں سے محروم ہیں۔
 
عائشہ چندریگر ان لوگوں میں شامل ہیں جو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں چڑیا گھر بند ہونے چاہیے۔
 
چڑیا گھر مقامی تفریح کا ذریعہ
کراچی سمیت پاکستان میں لاہور، پشاور، ملتان، حیدرآباد سمیت ایک درجن کے قریب شہروں میں چڑیا گھر موجود ہیں جہاں بندروں، لومڑیوں، ہرن، ریچھوں، نیل گائے کے ساتھ افریقہ اور دیگر ممالک کے شیر، چیتے، بن مانس اور زرافے رکھے جاتے ہیں۔
 
بڑے شہروں کے مقامی لوگوں اور چھوٹے شہروں سے آنے والے سیاح بچوں سمیت یہاں سیاحت کے لیے آتے ہیں جبکہ سکولوں کے طلب علموں کو بھی یہاں لایا جاتا ہے۔
 
image
 
کراچی چڑیا گھر میں محمد احسن اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ امتحانات میں بچوں کا رزلٹ اچھا آیا تھا تو انھوں نے سوچا کہ انھیں چڑیا گھر میں گھمایا جائے تاکہ ان کی سیر و تفریح ہو بھی جائے اور حوصلہ افزائی بھی۔
 
صفیہ ناز اپنی ساس کے ساتھ یہاں آئیں تھیں جو ان سے رحیم یار خان سے ملنے کراچی آئی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چھوٹے بچے یہاں شیر، ہاتھی و دیگر بڑے جانور دیکھ کر خو ش ہو جاتے ہیں۔
 
چڑیا گھروں میں جانوروں کی ہلاکتیں
پاکستان کے چڑیا گھروں میں جانوروں سے ناروا سلوک، بیماری میں ہلاکت اور خوراک کی قلت کی مسلسل خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب یہ خبریں اور ان پر رد عمل تیزی سے پھیلتا ہے۔
 
مئی 2017 میں لاہور چڑیا گھر کی باعث کشش ہتھنی ’سوزی‘ ہلاک ہوئی، چند سال قبل اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں کاون ہاتھی کے زنجیروں سے جکڑی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں چڑیا گھروں میں جانوروں کی صورتحال نے بحث چھیڑی۔ جس کے بعد مقامی اور بین الاقومی تنظیموں نے مہم چلائی اور کاون کو کمبوڈیا منتقل کر دیا گیا اور اسلام آباد کے چڑیا گھر کو بند کر دیا گیا۔
 
سنہ 2020 میں پشاور کے چڑیا گھر میں چار زرافے ہلاک ہوئے، اسی سال بہاولپور کے چڑیا گھر میں سات ہرن مردہ پائے گئے۔
 
رواں سال جنوری میں لاہور کے چڑیا گھر میں سفید شیر کے دو بچے مر گئے، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کووڈ میں مبتلا تھے جبکہ جون میں کینگروؤں کے ایک جوڑے اور ایک شیر کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی۔
 
پچھلے دنوں کراچی کے چڑیا گھر میں ایک سفید شیر کی ہلاکت کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوئی کہ چڑیا گھر کو اگر سنبھالا نہیں جا سکتا تو انھیں بند کردیا جائے۔
 
سوشل میڈیا پر اس بارے میں لوگوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار بھی کیا۔ جس کے بعد کراچی میونسپل کی جانب سے پہلے یہ بتایا گیا کہ اس شیر کی موت ٹی بی کی وجہ سے ہوئی جبکہ اس کے بعد ڈائریکٹر کو ہٹا کر تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا۔
 
image
 
صرف کراچی میں ہاتھی
پاکستان میں اس وقت صرف کراچی کے دو چڑیا گھروں میں چار ہاتھی موجود ہیں، جن کا حال ہی میں فور پاؤز نامی تنظیم کے ماہرین نے معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ چاروں ہاتھیوں کی جسمانی صورتحال اچھی ہے جبکہ ان کا وزن تھوڑا سا زیادہ ہے۔
 
ڈاکٹر فرینک کی رپورٹ کے مطابق سفاری پارک کے ہاتھیوں کے پیروں میں شدید مسائل ہیں، ان کے ناخن ٹوٹے ہوئے ہیں اور پنچے بڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھیوں کے پیروں کی دیکھ بھال اور ٹوٹے ہوئے دانتوں کے سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پیروں اور دانتوں کی بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
 
کراچی کے چڑیا گھروں کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد منصور کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کو آرگنک فوڈ کے علاوہ درختوں کی شاخیں اور پتے بھی دییے جاتے ہیں جن میں وٹامن اے اور ڈی وافر مقدار میں ہوتا ہے۔
 
ڈاکٹر محمد منصور کے مطابق ’جو بھی گھاس خور جانور ہوتے ہیں، ان میں یہ کیویٹی پائی جاتی ہے، یہ خورک اس لیے بھی دی جاتی ہے کہ اگر ان جانوروں کو کبھی قدرتی ماحول میں رکھا جائے تو وہ اس خوراک سے بھی روشناس ہوں۔ یہاں پر ہم قدرتی ماحول کے قریب ماحول اور قدرتی خوراک کے قریب خوراک بھی فراہم کرتے ہیں۔‘
 
image
 
فنڈز کی کمی
کراچی چڑیا گھر، سفاری اور لانڈھی کورنگی میں 1400 کے قریب چھوٹے بڑے جانور، پرندے اور ریپٹائل موجود ہیں لیکن صرف ایک ہاتھی کی خوراک پر 27 لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔
 
ڈاکٹر محمد منصور کا کہنا ہے کہ کووڈ کی وجہ سے سیاح آنے بند ہو گئے جبکہ الدین پارک کا امیوزیمنٹ پارک عدالت کے حکم پر مسمار ہو گیا۔ ڈالر کا ریٹ بڑھ جانے سے اشیا اور جانوروں کی ادویات میں بھی اضافہ ہوا، اس کے علاوہ ہر سال جانوروں کی افزائش بھی ہو رہی ہے۔
 
غیر تربیت یافہ سٹاف
کراچی کے چڑیا گھر میں 140 افراد پر مشتمل سٹاف ہے جن میں اکثریت سکیورٹی سٹاف ہے۔
 
ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد منصور کا کہنا ہے کہ جانوروں کا ایک ڈاکٹر موجود ہے اور بوقت ضرورت نجی شعبے کے ماہرین کی مدد لی جاتی ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ جانوروں، پرندوں اور ریپٹائلز کے لیے الگ الگ ماہرین ہوں۔
 
’سٹاف کی تربیت اور صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر ناخواندہ ہے۔ اگر ہم انڈیا اور نیپال سے ماہرین کو بلائیں تو زبان کا مسئلہ نہیں ہو گا اور ہم ان کے تجربے سے بھی سیکھ سکیں گے۔‘
 
صحافی اور جانوروں کے فلاح و بہبود کی تنظیم ’سی ڈی آر بینجی‘ کی سربراہ قطرینہ حسین کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر سرکاری ہوں یا نجی، اس کا ڈائریکٹر کم از کم ایک تربیت یافتہ ماہر ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو کہ آپ کسی میونسپل کارپوریشن کے اٹھارہ گریڈ کے بندے کو خانہ پوری کے لیے لگا دیا۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ چڑیا گھر رکھنے ہیں تو ایک خصوصی ونگ بنایا جائے اور چڑیا گھروں میں جنگلی حیات سے وابستہ افسران تعینات کیے جائیں۔
 
image
 
’نو زو‘ کلچر کیوں؟
سنہ 2020 میں ایک خبر سامنے آئی کہ سنگار پور نے دنیا بھر کے ممالک کو ’زو کلچر‘ معطل کرنے کی اپیل کی ہے جس کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔
 
قطرینہ حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جس طرح جانوروں کو چڑیا گھر میں رکھا جا رہا ہے وہ بالکل بھی ناقابل برداشت نہیں۔
 
’جانوروں کو لا کر پنجروں میں بند کر دیا ہے، انھیں صرف تماشے کے لیے رکھا گیا ہے۔ کوئی خیال نہیں کیا جا رہا کہ ان کی بھی ضروریات ہیں۔‘
 
’بات صرف کھانے پینے کی نہیں۔ ان کی جو فطری آماجگاہ ہے، جیسے بندر کو درخت کی ضرورت ہے، شیر کو گھانس پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم سو دو سو سال پرانی حرکتیں کریں گے تو یہ قابل قبول نہیں۔‘
 
عائشہ چندریگر کے مطابق زو کلچر میں کوئی تعلیم نہیں۔
 
’ایک جیل میں ایک بے زبان جانور کو قید کیا جاتا ہے۔ وہ ذہنی دباؤ میں اور اداس ہوتے ہیں۔ وہ ان کا قدرتی ماحول نہیں۔ میں جب نو زو کی بات کرتی ہوں تو میں جنگلی حیات کی پناہ گاہوں کی بات کرتی ہوں۔‘
 
’ہمارا ملک بہت خوبصورت ہے۔ ہمارے یہاں پر کئی ایسے علاقے ہیں، ہمیں جانوروں کی پناہ گاہیں بنانا چاہیے جو قدرتی ماحول کے قریب ہوں۔‘
 
فور پاؤز کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر امیر خلیل کا کہنا ہے کہ دنیا میں کئی مالک ہیں جہاں چڑیا گھر موجود ہیں لیکن ان کا بنیادی مقصد شعور اور آگاہی دینا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ جانور اپنے علاقوں کے سفیر ہیں۔ ہمیں ان کی اچھی دیکھ بال کرنی چاہیے۔ انہیں ضروریات کی اشیا اور ماحول فراہم کرنا چاہیے لہذا ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ چڑیا گھر بند کیے جائیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اچھی سہولیات فراہم کی جائیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: