|
|
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اپنی جان بچا کر ملک
سے نکلنے والے ہزاروں افراد میں خواتین رکن پارلیمان بھی شامل تھیں۔ بی بی
سی کو پتا چلا ہے کہ ان 69 خواتین میں سے 60 دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود
ہیں اور افغان خواتین کے حقوق کے لیے اپنی جنگ جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ |
|
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد مشید (اصل نام
ظاہر نہیں کیا جا رہا) روپوش ہو گئیں۔ وہ کابل ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کو
لے کر جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھیں کیونکہ وہاں رش، افراتفری اور
دھماکہ بھی ہو چکا تھا۔ تو ان کے لیے ملک سے باہر نکلنے کا کوئی آسان راستہ
نہیں تھا۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان کے دروازے بند ہو گئے‘ لیکن
تین ماہ چھپے رہنے کے بعد کوئی دو ہفتے قبل مشید نے برقعہ پہنا، اپنے چہرے
کو مکمل طور پر ڈھانپا اور اپنے بچوں کے ساتھ ایک بس میں سوار ہو گئیں۔ وہ
پہلے ہیرات اور پھر وہاں سے ایران کی سرحد پر پہنچیں۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’طالبان خواتین پر زور نہیں ڈالتے کہ وہ اپنے چہرے بے نقاب
کریں۔‘ |
|
مشید کہتی ہیں کہ اگر طالبان کی کسی چیک پوسٹ پر ان کی شناخت کر لی جاتی تو
انھیں یقینی طور پر حراست میں لے لیا جاتا۔ وہ کہتی ہیں کہ لیکن ’حکام یہ
امید نہیں کرتے کہ ایک رکن پارلیمان برقعہ پہن سکتی ہے اور ان کا خیال ہے
کہ اب تک تمام افغان سیاست دانوں اور خواتین سماجی کارکنوں کو افغانستان سے
نکال لیا گیا ہے۔‘ |
|
ایران کے راستے دس دن تک سفر کرنے کے بعد مشید اب ترکی پہنچ چکی ہیں لیکن
وہ وہاں نہیں رہنا چاہتیں کیونکہ انھیں اس بارے میں تشویش ہے کہ ترکی میں
حکام انھیں سیاسی طور پر متحرک رہنے کی اجازت شاید نہ دیں گے۔ |
|
وہ تبدیلی کے لیے اپنی مہم اور دنیا کو یہ بتانے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی
ہیں کہ افغانستان میں اب خواتین اور لڑکیوں کو کس ’خوف‘ کا سامنا ہے۔ وہ
ابھی اپنی شناخت چھپا رہی ہیں تاکہ وہ افغانستان میں رہ جانے والے اپنے
رشتہ داروں کو محفوظ رکھ سکیں۔ |
|
مشید کے برعکس دیگر بہت سی خواتین انخلا کی پروازوں میں سوار ہونے میں
کامیاب بھی ہوئیں۔ ان میں سے زیادہ تر یونان اور البانیہ میں جبکہ کچھ
آسٹریلیا سے قطر تک ایک درجن مختلف ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ |
|
سرینا (اصل نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) کو اپنے شوہر اور تین ماہ کے بچے کے
ساتھ انخلا کے بعد جرمنی منتقل کیا گیا۔ ملک چھوڑنے سے پہلے انھیں ٹی بی ہو
گئی اور اب پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں ان کا علاج جاری ہے۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انھیں اپنا ملک چھوڑنا پڑے
گا۔ وہ ایک ایسے براعظم میں خود کو کھویا ہوا محسوس کرتی ہیں جہاں وہ پہلے
کبھی نہیں آئیں اور نہ ہی ان کو یہاں کی زبان سمجھ آتی ہے۔ |
|
’میں نے بہت برے دن گزارے ہیں اور میں ابھی بھی بہت بری حالت میں ہوں لیکن
جب بھی مجھے افغان لوگوں کی مشکلات کا خیال آتا ہے تو میں اپنا درد بھول
جاتی ہوں۔‘ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان واپس جانے کا کوئی سوال ہی نہیں۔‘ اب وہ صرف
انتظار کر رہی ہیں کہ انھیں ان کے شوہر اور بچے سمیت جرمنی کے شہر میں ایک
نئے گھر میں منتقل کیا جائے جہاں وہ اپنی نئی زندگی کی شروعات کر سکیں اور
اپنے پیچھے رہ جانے والے گھر سے تعلق کو برقرار رکھنے کے لیے، جو ممکن ہو
کر سکیں۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’میری پرورش جنگ اور مصیبت میں ہوئی لیکن میں اپنے بچے کو
اپنے ملک کی ثقافت اور روایات میں پالنا چاہتی ہوں۔‘ |
|
|
|
بہت سے ارکان پارلیمان کینیڈا جانا چاہتے ہیں، جس نے کہا
ہے کہ وہ پانچ ہزار افغان مہاجرین کو پناہ دے گا لیکن یہ خواتین جہاں بھی
جائیں یہ خواتین کے حقوق کے لیے اپنی جنگ جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ |
|
ایک خیال یہ ہے کہ خواتین کی ’جلاوطنی میں پارلیمنٹ‘
تشکیل دی جائے، افغانستان میں خواتین کے حقوق کی پامالی کی طرف توجہ مبذول
کرائی جائے اور طالبان پر دباؤ برقرار رکھا جائے۔ |
|
یہ خیال ایک این جی او کی طرف سے پیش کیا گیا، جس نے
افغانستان سے خواتین ممبران پارلیمان کے انخلا کو منظم کرنے میں مدد کی تھی
اور اس وقت یورپ میں موجود 36 ممبران پارلیمان نے اس خیال کا خیر مقدم کیا
ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایسا کچھ ہو گا۔ |
|
افغان شنکئی کروخیل بھی اس خیال کی حامی ہیں۔ پارلیمان
میں منتخب ہونے سے پہلے وہ کینیڈا میں افغانستان کی سفیر تھیں۔ اب وہ
ٹورنٹو سے باہر ایک قصبے میں رہ رہی ہیں اور ملک میں سیاسی پناہ کی تلاش
میں ہیں۔ |
|
وہ 15 اگست کے روز تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کو
بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’صبح کے وقت میں نے اپنا صوبہ اور دوپہر میں
اپنے صدر کو کھو دیا۔‘ |
|
افغانستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے
ایکٹ کے پیچھے محرک قوت، شنکئی کروخیل نے خبردار کیا ہے کہ خواتین ارکان
پارلیمان کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انھیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھنا
ہو گا۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر کسی نے افغانستان کے مختلف
حصے کی نمائندگی کی جس میں ترجیحات اور سیاسی دلچسپی مختلف تھی لیکن اب ہم
سب کچھ کھو چکے ہیں۔‘ |
|
’ہمارے تمام اختلافات بھی کھو چکے ہیں۔ میرے
خیال میں اب جو چیزیں معنی رکھتی ہیں وہ صرف یہ ہیں کہ ملک کو بچایا جائے،
لوگوں کا ساتھ دیا جائے اور خواتین کو آواز دی جائے۔‘ |
|
ایمسٹرڈیم سے باہر ایک چھوٹے سے گھر میں ایلے
ارشاد روایتی افغان کھانا بنا رہی ہیں۔ مقامی سپر مارکیٹ میں اس کھانے کے
تمام بنیادی اجزا ڈھونڈنے میں انھیں خاصی دشواری ہوتی ہے لیکن وہ اس کھانے
کو بہترین انداز میں بنانا چاہتی ہیں۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے مجھے اپنے لوگ یاد آتے
ہیں جن کے پاس کھانے کو نہیں۔‘ |
|
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے وقت ایلے ارشاد
افغان پارلیمان کی رکن نہیں تھیں لیکن اس سے قبل ایک دہائی سے زائد عرصے تک
وہ رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہیں، جس کے بعد انھوں نے صدر اشرف غنی کے ترجمان کے
طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ |
|
طالبان نے افغانستان پر قبضے کے بعد ان کا بینک
اکاؤنٹ منجمد کر دیا لیکن انھیں چھپنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور وہ
ستمبر میں ایک کمرشل فلائٹ کے ذریعے وہاں سے نکل آئیں۔ |
|
|
|
طالبان ذرائع سے تحفظ کی امید ملنے کے بعد وہ
اب واپسی کی تیاری کر رہی ہیں۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’دوسرے ممالک سے کام کرنا ممکن
نہیں۔ ہمیں افغانستان کے اندر ہونا چاہیے۔ اس کا حل افغانستان میں موجود ہے
اور ہمیں افغانستان میں ہی اس کی تلاش کرنی چاہیے۔‘ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ان کا منصوبہ بین الاقوامی این
جی اوز کے ساتھ مل کر لڑکیوں کے لیے سکول بنانا اور خواتین کے حق تعلیم کی
وکالت کرنا ہے ’چاہے وہ طالبان حکومت کے تحت ہی کیوں نہ ہو۔‘ |
|
’اگر آپ ایک مسئلے سے بھاگ جاتے ہیں تو وہ
مسئلہ وہاں ہمیشہ کے لیے رہ جاتا ہے۔‘ |
|
Partner Content: BBC Urdu |