ابھی حال ہی میں ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت کی 20ویں سالگرہ کے حوالے
سے عالمی میڈیا میں متعدد مضامین دیکھنے کو ملے۔ گیارہ دسمبر 2001 کو چین
باضابطہ طور پر ڈبلیو ٹی او کا 143واں رکن بنا تھا۔ یہ کثیرالجہتی تجارتی
نظام کی تاریخ میں ایک کلیدی واقعہ ہے۔ چین کی شمولیت سےدنیا کی آبادی کا
پانچواں حصہ مکمل طور پر کثیر الجہتی تجارتی نظام میں داخل ہو چکا ہے۔
ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت سے نہ صرف چین کو نمایاں اقتصادی اور سماجی
کامیابیاں ملی ہیں بلکہ عالمی معیشت اور دنیا کے لوگوں کو بھی بہت فائدہ
پہنچا ہے۔ اقتصادی عالمگیریت کے رجحان کے بعد چین کا ڈبلیو ٹی او میں
شمولیت ایک درست انتخاب تھا، جس سے عالمی معیشت میں نئی تحریک پیدا ہوئی
اور گلوبل ترقی کی ایک نئی لہر سامنے آئی۔ گزشتہ 20 سالوں میں چین میں
اصلاحات کی گہرائی اور ہمہ جہت کھلا پن دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈبلیو ٹی او میں
شمولیت کے بعد سے، چین نے بتدریج عالمی اقتصادی اور تجارتی قواعد کے مطابق
ایک ہمہ گیر معاشی ڈھانچہ تشکیل دیا ، جس سے ملکی سطح پر نظام کی مضبوطی سے
نمایاں ثمرات حاصل ہوئے اور چین نے تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے دنیا کی
دسری بڑی معیشت کا درجہ حاصل کیا ہے۔اس عرصے میں چین نے عالمی تجارتی تنظیم
سے کیے گئے اپنے وعدوں کا پاس رکھا اور اپنی ترقی کو ڈبلیو ٹی او قوانین کے
ساتھ ہم آہنگ کیا۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین کی مرکزی حکومت نے قوانین اور
ضوابط کی 2300 سے زیادہ شقوں اور مقامی حکومتوں نے 190000 سے زائد شقوں کا
جائزہ لیا اور ان پر نظر ثانی کی ہے، جس نے مارکیٹ اور سماجی زندگی کی
بحالی میں مدد فراہم کی۔یوں چین نے قوانین کی احسن طور پر پاسداری کرتے
ہوئے دیگر بڑے صنعتی ممالک کے لیے بھی عمدہ مثال قائم کی وہ عالمی تجارتی
تنظیم کے قوانین، ضوابط اور پالیسیوں کے تحت ترقیاتی سفر جاری رکھ سکتے
ہیں۔
چین نے اپنی وسیع منڈی بھی ساری دنیا کے لیے کھولی جس سے ملٹی نیشنل
کمپنیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔سرمایہ کاری کے حوالے سے سازگار پالیسیوں
اور سرمایہ کار دوست ماحول کی بدولت آج چین بیرونی سرمایہ کاری کے لیے
پرکشش ترین منزل بن چکی ہے۔چین نے ٹیرف کی مجموعی شرح کو بھی 15.3 فیصد سے
کم کر کے 7.4 فیصد کر دیا ہے جبکہ سروس انڈسٹری کے تقریباً 120 شعبہ جات
کھولے گئے ہیں۔یہ وہ تمام اقدامات ہیں جن کا چین نے ڈبلیو ٹی او میں شمولیت
کے موقع پر وعدہ کیا تھا لیکن عملاً چین نے ان وعدوں سے کہیں زیادہ کرکے
دکھایا ہے۔حالیہ برسوں میں، چین نے دنیا کے لیے اپنے دروازے مزید وسیع کیے
ہیں، پائلٹ فری ٹریڈ زونز اور آزاد تجارتی بندرگاہوں کو فروغ دیا ہے، غیر
ملکی سرمایہ کاری کے لیے منفی فہرست کی ترتیب نو جاری رکھی گئی ہے، ادارہ
جاتی کھلے پن کو فروغ دیا ہے جس میں قواعد، ضوابط، انتظام اور معیارات کا
احاطہ کیا گیا ہے۔
چین 120 سے زائد ممالک اور خطوں کے لیے اہم تجارتی شراکت دار بن چکا ہے
جبکہ کئی سالوں سے عالمی اقتصادی ترقی میں چین کی اوسطاً شراکت کی شرح 30
فیصد رہی ہے، جس سے عالمی معیشت کی پائیدار ترقی میں مثبت کردار ادا کیا
گیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) آج کی دنیا میں بین الاقوامی
تعاون کی ایک مقبول ترین عالمی عوامی پروڈکٹ اور مضبوط پلیٹ فارم بن چکا
ہے۔ 2020 تک، چین اور بی آر آئی شراکت داروں کے درمیان تجارتی حجم 9.2
ٹریلین ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک میں چینی
کمپنیوں کی براہ راست سرمایہ کاری 140 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی
ہے۔ 2020 سے، چین نے وبائی اثرات پر موئثر قابو پاتے ہوئے عالمی صنعتی اور
سپلائی چین کو مستحکم رکھنے اور عالمی اقتصادی بحالی کو فروغ دینے میں اہم
کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ 20 سالوں میں چین نے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے درپیش چیلنجوں کا
بھی ڈٹ کر سامنا کیا ہے۔ چین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ چیلنجوں کو مواقع میں
تبدیل کیا جائے ، یہی وجہ ہے کہ 2001 سے 2020 کے دوران، چین کا معاشی حجم
عالمی سطح پر چھٹے درجے سے بڑھ کر دوسرے درجے تک آ چکا ہے، مصنوعات کی
تجارت کے اعتبار سے چین چھٹے سے پہلے نمبر پر موجود ہے، اور خدمات کی تجارت
11 ویں سے دوسرے درجے تک پہنچ چکی ہے۔یوں چین نے اپنی مضبوط قیادت اور
انتہائی موئثر پالیسیوں کی بدولت وقت سے ہم آہنگ بڑی پیش رفت سے دنیا کو
حیرت زدہ کر دیا ہے۔ چین نے ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد سے ہمیشہ بین
الاقوامی تنظیموں اور کثیر الجہتی پلیٹ فارمز پر قوانین کے مطالعے، ان سے
واقفیت اور قوانین کے اطلاق پر زور دیا ہے۔ چین نے خاموش بیٹھنے کے بجائے
بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی قوانین کی تشکیل میں ہمیشہ فعال شمولیت
اختیار کی ہے اور نہ صرف خود ان قوانین پر عمل کیا ہے بلکہ انھیں آگے بھی
بڑھایا ہے۔یہ چین کی عالمی معاشی شراکت کے ثمرات ہی ہیں کہ آج تمام عالمی
و علاقائی کثیر جہتی پلیٹ فارمز پر چین کا اثرو رسوخ بڑھا ہے اور چین کی
پیش کردہ تجاویز کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے انتہائی سنجیدگی سے لیا
جاتا ہے ،یوں چین نے دنیا کو ترقی پزیر آوازوں سے روشناس کروایا ہے۔گزشتہ
بیس سالوں کے دوران چین ایک ایسی مثال بن چکا ہے جو بتاتی ہے کہ کیسے عالمی
تجارتی انضمام ملک کی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔ چین کی ترقی سے بے شمار
افراد غربت سے نکل چکے ہیں۔ ان میں نہ صرف چینی عوام شامل ہیں بلکہ ایسے
ترقی پذیرممالک کے عوام بھی شامل ہیں جو چین کے ساتھ تجارتی تعاون کر رہے
ہیں۔
اس وقت ڈبلیو ٹی او کو کچھ مشکلات کا بھی سامنا ہے۔اس صورت حال میں چین
کثیر الجہتی تجارتی نظام کی مضبوطی سے حمایت جاری رکھے ہوئے ہے ، ڈبلیو ٹی
او کے دیگر رکن ممالک کے لیے چین کی شرکت کا مطلب ہے کہ وہ ایک تیزی سے
ترقی کرتی ہوئی معاشی قوت کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تجارتی تعلقات
قائم کرسکتے ہیں ، یوں چین عالمی اقتصادی گورننس کے نظام میں اصلاحات کو
فروغ دینے والا اہم محرک اور شراکت دار بن چکا ہے۔
|