ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
زوال تو ہر ایک شعبے میں ہی نظر آرہا ہے لیکن تعلیم کا معاملہ شاید نہایت
ہی افسوسناک شکل اختیار کرنے کو ہے۔ کچھ دن پہلے ایک خبر میری نظر سے گزری
جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اعلیٰ معیار کی عالمی یونیورسٹیوں میں
پاکستانی طلبہ و طالبات کے داخلوں کی شرح بتدریج کم ہو رہی ہے کیونکہ وہ ان
جامعات کے مطلوبہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ پاکستانی اور بھارتی
طلبہ کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں تعلیم
کا شعبہ اسی طرح کسمپرسی کا شکار رہا اور معیار تعلیم یونہی زوال پذیر رہا
تو اعلیٰ تعلیم کے عالمی اداروں کے دروازے ہمارے لئے بند ہو جائیں گے۔ اس
خبر میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ سات بھارتی نوجوان دنیا کی سات نامور
کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو ہیں جن میں گوگل، مائیکرو سافٹ، اڈاب (adobe) ،
آئی۔بی۔ایم، اور ٹوئٹر بھی شامل ہیں۔ ہمارے کسی نوجوان کو یہ اعزاز حاصل
نہیں۔ کیا ہمارے نوجوانوں کی ذہانت میں کوئی کمی ہے؟ کیا وہ فطری طور پر اس
اہلیت سے محروم ہیں کہ پاکستان کی نمائندگی کریں؟ ایسا ہر گز نہیں۔ اﷲ کے
فضل و کرم سے پاکستانی ذہانت، قابلیت ، اہلیت اور محنت میں کسی سے پیچھے
نہیں بلکہ دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جب کہیں اور جہاں کہیں بھی
انہیں موقع ملا، انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں
تعلیم تیزی سے زوال کی طرف جا رہی ہے۔ اس زوال کے بیسیوں اسباب ہیں۔ سب سے
بڑا تو یہی کہ پاکستان شدید قسم کے مالی بحران کا شکار ہے۔ ہماری جامعات
انتہائی مشکل حالات میں ہیں۔ ان کے لئے اساتذہ ، عملے کی تنخواہوں اور
پنشنوں کی ادائیگی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ معیاری تعلیم، ریسرچ، اعلیٰ درجے
کی تدریسی ٹیم، جدید تریں لائبریری اور دیگر تقاضے پورے کرنا تو بہت دور کی
بات ہے۔
ان حالات میں ایک اور نہایت افسوسناک خبر اخبارات کی زینت بنی ہے جس میں
بتایا گیا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کے ریسرچ جرنلز میں شائع ہونے والے
آرٹیکلز بھی جعل سازی، نقل اور دو نمبری کا شکار ہیں اور اس افسوس ناک مشق
میں یونیورسٹی اساتذہ بھی ملوث ہیں۔ اس خبر پر کئی کالم بھی لکھے جا رہے
ہیں۔ اس وقت میرے سامنے ایک ویب سائٹ پرو پاکستان کی سٹوری ہے جو 18 نومبر
کو شائع ہوئی اور جسے ہارون حیدر نے فائل کیا ہے۔ اس خبر کے مطابق نامور
قومی جامعات میں تدریسی فرائض سرانجام دینے والے سینکڑوں اساتذہ کے ریسرچ
آرٹیکلز جعل سازی اور نقالی پر مبنی پائے گئے ہیں۔ نیویارک میں قائم ادارے
سینٹر فار سائنٹیفک انٹیگرٹی (centre for scientific integrity) نے پاکستان
کے نقالوں اور چربہ کاروں کی تفصیل بتائی ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں شائع
ہونے والے ریسرچ جرنلز اور آن لائن چھپنے والے مقالات کا جائزہ لیتا اور
نقالی یا چربہ سازی کا تعین کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی
جامعات کے 900 سے زیادہ اساتذہ کی طرف سے لکھے گئے 239 آرٹیکلز چربہ سازی
کے ذمرے میں شامل پائے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں نیشنل یونیورسٹی آف سائینس
اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) ، کامسیٹس (COMSATS) یونیورسٹی، آغا خان یونیورسٹی،
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(IBA) ، شہید ذولفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ
آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی، قائد اعظم یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، پشاور
یونیورسٹی، سندھ یونیوسٹی اور متعدد وسرے ادارے شامل ہیں۔ روزنامہ دنیا کی
خبر کے مطابق پاکستان کے 900 محققین چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان کے
لکھے گئے 250 سے زائد مقالوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس خبر کے مطابق
لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور پنجاب یونیورسٹی کے
محققین بھی مشکوک کاروائی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ علمی چوری کرنے والے سب
سے زیادہ اساتذہ کا تعلق قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بتایاگیا
ہے۔واضح رہے کہ یہ ریسرچ یونیورسٹی کہلاتی ہے۔ یہ تمام محققین اب کسی بین
الاقوامی جرنل میں اپنے آرٹیکلز شائع نہیں کرا سکیں گے۔
تصور کیجئے کہ جب ہماری جامعات میں نئی نسل کو تعلیم دینے واے معزز و محترم
اساتذہ کا یہ حال ہو گا تو ہم اپنے طلبہ سے کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں۔
لمحہ بھر کو یہ بھی سوچیے کہ دنیا بھر میں ہمارا کیا تاثر ابھرا ہو گا۔
زندگی کے بہت سے شعبوں میں دنیا ہمارے بارے میں نہایت منفی سوچ رکھتی ہے۔
آزادی اظہار رائے، صحافت، جمہوریت، قانون کی عملداری، عدالتوں کی کارکردگی،
انصاف کی فراہمی، بنیادی حقوق، امن و امان، خواتین کے معاملات، جرائم کی
شرح، دہشت گردی، غرض ان گنت خرابیاں اور برائیاں ہمارے نام سے جڑی ہیں۔
تعلیم کے حوالے سے اب ہمارا یہ چہرہ سامنے آیا ہے کہ ہماری بڑی بڑی نامور
جامعات کے اساتذہ کرام بھی ادبی و علمی چوری، بد دیانتی، جعل سازی، نقالی
اور چربہ کاری میں ملوث ہیں۔ یہی اساتذہ اپنے طلبہ کے تحقیقی کام کی نگرانی
کرتے اور ان کی گریڈنگ کرتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ ان کے ہاتھوں فیض یاب ہونے
والے طلبہ کی علمی اہلیت کیا ہو گی۔
اس خبر کے آنے کے بعد ملک میں ایک تلاطم بپا ہو جانا چاہیے تھا۔ جن اساتذہ
کے نام چربہ کاری میں آئے ہیں ان کا محاسبہ ہونا چاہیے تھا۔ جن یونیورسٹیوں
کے نام آئے ہیں ان کے وائس چانسلر صاحبان کو فوری تفتیش کا انتظام کرنا
چاہیے تھا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو متحرک ہو جاناچاہیے تھا۔ حکومت کو
ہنگامی اقدامات کرنے چاہہے تھے۔ لیکن کئی دن گزر جانے کے بعد بھی ایسی کوئی
خبر سامنے نہیں آئی جس سے اندازہ ہو کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہے۔
احساس زیاں سے محروم ہو جانے والی قوموں کا یہی حال ہوتا ہے۔
صرف اسلام آباد سے آنے والی ایک خبر کسی قدر اطمنان بخش ہے۔ لیکن یہ خبر
بھی اس وقت آئی تھی جب عالمی ادارے کی طرف سے یہ رپورٹ میڈیا کی زینت نہیں
بنی تھی۔ اطلاع کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و پیشہ وارانہ
تربیت کے چیئر مین سینیٹر عرفان صدیقی نے پانچ نمائندہ ملکی جامعات کے
ریسرچ جرنلز کا آڈٹ کرنے عندیہ دیا ہے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا ان
جرنلز میں چھپنے والے آرٹیکلز کے حوالے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ
اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کی گئی ہے یا نہیں۔ اس مقصد کے لئے بلوچستان
یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی اور قائد
اعظم یونیورسٹی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے تین سینیٹرز
پر مشتمل ایک سب کمیٹی بھی قائم کر دی ہے جو دو ماہ میں اپنی رپورٹ دے گی۔
دیکھیے اور کیسے کیسے انکشافات ہوتے ہیں۔
|