انقلاب برپا کرنے والی مہم

1970 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک ہسپانوی Spanish بولنے والی بچی کا سکول داخلہ کے وقت انگریزی زبان میں ذہانت کا ٹیسٹ لیا گیا ۔اس ٹیسٹ میں خراب نتیجے کی بدولت بچی کو ذہنی معذور بچوں کی کلاس میں داخل کر دیا گیا ۔والدین نے مدد کے لیے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے فیصلے کوکالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ بچی کا ٹیسٹ اس کی اپنی ہسپانوی زبان میں لیا جائے ۔دوبارہ ٹیسٹ میں یہ بات واضح ہوگئی کہ مذکورہ بچی دیگر بچوں سے زیادہ ذہین و فطین تھی جوکہ والدین کے بروقت ایکشن کیوجہ سے ماہرین کے تعصب کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ یکے بعد دیگر اسی قسم کے واقعات رپورٹ ہونے کے بعد تعلیمی ماہرین نے ذہانت معلوم کرنے کے طریقہ کار کا تجزیہ کیااور یہ نتیجہ اخذکیا کہ محض آئی کیو ٹیسٹ پر انحصار کافی نہیں اسلیے بچے کی ذہانت کا تعین کرنے کے لیے آئی کیو لیول کے ساتھ ساتھ بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لینابھی لازمی قرار دیا گیا ۔ماہرین کے مطابق بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو معاشرتی اقدار میں ذہانت ظاہر کرتے ہیں لیکن ذہانت کے ٹیسٹ میں ان کی اس ذہانت کو نہیں جانچا جا سکتا ۔ایسے ہی بعض بچے نصابی علوم میں وہ کار کردگی نہیں دکھاتے جو غیر نصابی سرگرمیوں میں سامنے آتی ہے اور بعض پوزیشن ہولڈر اپنے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں لہذا ذہانت جانچنے کے لیے جو پیمانے تیار کئے گئے ہیں وہ سب بچوں کے لیے درست نہیں ہو سکتے بلکہ ماحول اور معاشرتی اقدار و حالات کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے مزید ایسے ماہرین کو سلیکشن کی ذمہ داری دینی چاہیے جو کسی بھی قسم کے تعصب کا شکار نہ ہوں تاکہ بچے کا مستقبل داؤ پر نہ لگے کیونکہ حکومتیں نوکریوں کے اہداف پورے کرنے کی اہلیتیں نہیں رکھتیں بایں وجہ خود سوزیوں کا رحجان بڑھ تا ہے ۔

مندرجہ بالا تمہید اس لیے باندھی ہے کہ چند روز قبل پنجاب پی پی ایس سی (ایجوکیشن ،اسلامیات) کے انٹرویو لئے گئے تو چند طالبات نے بتایا کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی انٹرویو لینے والے ماہرین کے پینل نے ہمیں سختی سے تنبیہ کی تھی کہ آپ صرف انگلش بولیں گی اور جوابات بھی انگلش میں دیں گی مزید سوالات بھی ایسے کئے گئے جو Subject Oriented نہیں تھے ۔ پہلے بھی سائینس سبجیکٹس کے جو انٹرویو لئے گئے تھے ان میں بچوں کے ساتھ جوسلوک ہوا وہ میڈیا میں بھی زیر بحث رہا ہے کہ بچوں سے غیر تعلیمی اور غیر نصابی سوالات کئے گئے ،پوزیشن ہولڈر ہونے اور ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود انٹرویو میں فیل کر کے بچوں کے حوصلوں کو ایسا توڑا گیا کہ وہ دوبارہ کبھی کوشش نہ کریں ۔مجھے کہنے دیجیے کہ’’ ذاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن ‘‘ میرٹ بس سیاسی نعرہ ہے سییٹیں تقریباً طے ہوتی ہیں جن کا حصول رشوت و سفارش کے بغیر نا ممکن ہے !متاثرہ بچہ خود سوزی نہیں کرے گا توکیا کرے گا ؟یہ انکشافات بھی اسی برس ہوئے ہیں کہ پی پی ایس سی کے پیپرز دس سال سے فروخت ہو رہے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پیپر لیک اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے ۔اب خود اندازہ کر لیں کہ جہاں پیپرز لیک ہوجائیں وہاں انٹرویو لینے والے کیسے مخلص ہو سکتے ہیں تبھی تو انٹرویو لینے والے ماہرین کی ذاتی زندگیوں کا جائزہ لیں تو اکثریت کے چالیس فیصد خاندانی افراد سرکاری سیٹوں پر مزے لوٹتے نظر آتے ہیں جبکہ گولڈ میڈلسٹ بچی جوانٹرویو بھی کلئیر کر لے اسے ایک نمبر کم ہونے کیوجہ سے Sorryکہہ دیا جاتا ہے ۔اگر ایسے ہی کرنا ہوتا ہے تو جیسے وزارتوں ،عہدوں اور منصبوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے ویسے ہی یہ سیٹیں بھی بانٹ دیا کریں کیونکہ یہاں کہنا والا کوئی نہیں کہ ’’ساڈا حق ایتھے رکھ


‘‘بلکہ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اور جو دیکھنے یا سوچنے کی کوشش کرتا ہے اسے غدار وطن کے نشتر مار مارکر اندھا کر دیا جاتا ہے۔
المختصر آج سبھی مانتے ہیں کہ کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں ہے جہاں مافیاز کا راج نہ ہو لیکن کم از کم شعبۂ تعلیم کو تو بخش دیتے ۔کتنی بوڑھی آنکھوں کے خواب ان سیٹوں سے جڑے ہوتے ہیں لیکن آپ نے ذہانت جانچنے کا ایسا پیمانہ بنا لیا ہے جو ذہین بچے کو نفسیاتی مریض بنا کر قبر میں پہنچا دیتاہے ۔کسی حکومت نے آج تک کیوں نہیں سوچا کہ کہ ایک یا دو نمبرز سے رہ جانے والے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا جبکہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ چند مضبوط حوصلہ مند ہی یہاں ٹھہرتے ہیں کہ مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبنے کی بجائے کوئی اور راہ چنتے ہیں ۔پی پی ایس سی کے تحریری امتحان دینے والے جتنے بچوں سے بات ہوئی وہ موجودہ نظام تعلیم اور نوکریوں کے حصول سے جڑی شرائط سے پریشان اور انا امید تھے بلکہ انھیں یقین تھا کہ یہ نوکریاں رشوت اور سفارش کے بغیر کسی کو نہیں ملتیں ۔’’کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں ۔۔بندے بھی ہوگئے ہیں، خدا تیرے شہر میں ‘‘۔آپ جو کر رہے ہیں وہ امریکی و یورپی ریاستوں میں سیاہ فام بچوں کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ ان کے ٹیسٹ کو گھر اورمعاشرے کے ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے غیر مناسب آئی کیو لیول کی بنیاد پر داخلہ نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ وہ لوگ تعصب کا شکار تھے اگر آپ نہیں ہیں توطے کر لیں کہ وطن عزیز میں ذہانت کا معیار کونسی زبان اور ٹیسٹ کا پیمانہ کیا ہوگاورنہ یاد رہے کہ اب وہ وقت قریب آچکا ہے جب جوڈیشری کی طرح سلیکشن اور انٹرویو کے نام پر حقداروں اور اہل داروں کا احتساب کرنے والے سینئرز پروفیسرز اور ذمہ داران کے خلاف بھی ایک انتہا درجہ کی نفرت کا انقلاب لائے گا ۔حاکم پاکستان تحریری امتحان کے بعد انٹرویو کرنے والوں کو بھی کسی جائز اور ہلال طریقہ کار کا پابند بنانے کا قانون بنانے پر مجبور ہوگا تاکہ محنتی ،اہل بچوں اور امیدوران سے نا انصافی اور بد دیانتی پر مبنی حرام کاری کا طریقہ کار بند ہو سکے ۔یہ دکھ کی بات ہے کہ یہ سینئر اساتذہ بد نیت اور بد دیانت بن کر طے شدہ فہرستوں کو منظور کرتے ہیں او ر اپنے فرائض کو کماحقہ سرانجام نہیں دیتے کہ امیدوران سے انٹرویو سلیکشن صرف دھوکا اور فراڈ بن کر رہ گیاہے جسکی صفیں درست کروانے کے لیے سب کو سوچنا ہوگا ۔میڈیا اور تمام عوامی حلقوں کے عوامی نمائندگان کا مذہبی ،اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے کہ کارخیر جان کر اس مہم کا حصہ بنیں اور اس پیغام کو پیغام حق جان کر اپنے حصے کا دیا جلائیں ۔
 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.