جب بات چلتی تھی تب چپ تھے

اس وقت بھارت کے مختلف مقامات پر گائوکشی ،توہین رسالت اوراوقافی اداروں پر قبضوں کے معاملات چوٹی پر پہنچ چکے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے مسلمانوں کے پاس منظم قانون نہ ہونے کے سبب وہ پریشان ہوچکے ہیں۔بھارت میں گائے کا گوشت کھانے یا پھر بڑے کے گوشت کے استعمال کے تعلق سے آزادی کے بعد تو کوئی روک ٹوک نہیں تھی،لیکن اُس وقت بھی کچھ شرپسنداور سنگھ پریوارسے جڑے ہوئے لیڈران گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی لگانے کی آواز اٹھاتے رہے ہیں،مگر مسلمانوں نے اس آواز کو کمزور سمجھا اور اکثر یہ کہاکہ ہمیں بیل کھانے سے کون روکے گا،کس میں دم ہے کہ ہمارے سامنے آکر ہمیں بیل کے گوشت کو کھانےسے روکے،اگر کوئی روکے گا تو ہم اُسے بیل کی طرح چیر ڈالیں گے۔بعض لوگ تو یہ کہتے تھے کہ کون قانون بنائیگا،کانگریس ہماری جیب میں ہے،بی جے پی تو وجودمیں نہیں ہے،سماج وادی ہماری تائیدمیں ہے،مایاوتی خود بھی گوشت کھانے والی ذات سے ہیں،دیوے گوڈاتو گوشت کھانے والی قوم سے ہیں تو ایسے میں کون قانون بنائیگا۔اس طرح کی حد سے زیادہ چالاکی مسلمانوں کو میدان چھوڑنے پر مجبور کرچکی ہے۔اب نہ دیوے گوڈا گائوکشی کے قانون کی مخالفت میں ہیں نہ مایاوتی کو گوشت کھانا یاد آرہاہے،نہ ہی ملائم سنگھ تائیدمیں اترے ہیں نہ ہی کانگریس کے لیڈران ا س معاملے پر بات کرنے کیلئے تیارہیں۔جس وقت ریاست میں انسداد گائوکشی قانون2021 کو نافذکیاگیاتھا اُس دوران قصائیوں کا ایک وفد سابق ریاستی وزیر اور موجودہ رکن اسمبلی جو مسلمان ہیں،اُن سے ملاقات کرتے ہوئے معاملے کو حل کرنے کی گذارش کی۔اس پر اُس کانگریسی لیڈرنے کہاکہ جائو میاں بیل کا گوشت کھانے سے ہی قوم زندہ نہیں رہنے والی ہے،دوسرے کام دھندے کی تلاش کرو۔جب ایسا بولنے والے لیڈران ہمارے سامنے موجودہیں تو کیسے قوم کابھلا ہوگا۔ایک دورتھا ملک کے 99 فیصد حصے پر نام نہاد سیکولر پارٹیاں حکومت کررہی تھیں،25 فیصد منتخب نمائندے مسلمانوں میں سے ہوا کرتے تھے،ایم ایل اے اور ایم پی کی بڑی تعدادمسلمانوں میں سے رہتی تھی،اُس وقت اگر مسلمانوں کی طرف سے ان معاملات پر قانون بنانے کی پیش رفت کی جاتی تو آج مسلمانوں کوگائے کے نام پر خودقربان ہونا نہ پڑتا۔درحقیقت مسلمانوں نے دور اندیشی سے کام لینے کو اپنی شان کے خلاف سمجھا۔کل تک جو قوم ایوانوں میں راج کرتی تھی ،آج سیاستدانوں کے آنگن میں کچڑااٹھارہی ہے یا پھر اُن کے دئیے ہوئے کچھ سکوں کے بل بوتے پر زندگ گذاررہی ہے۔آج بھی جائزہ لیں تو مسلمانوں نے اپنے حق کیلئے آواز کم اٹھائی ہے،سماجی،ملی،تعلیمی اور روزگارکے مسائل ان کے نزدیک نہیں ہیں بلکہ وہ تو ووٹ کے بدلے نوٹ یا ووٹ کےبدلے بریانی کھاکر اپنی ذمہ داری کو پورا سمجھ رہے ہیں۔نوٹ بھی اتنے کہ دو وقت کا کھانابھی اس میں پورانہ ہوسکے اور بریانی بھی اتنی کہ ایک وقت خودکھاکر بیوی بچوں کیلئے اپنے پیسوں سے کھانا خریدا جائے۔اس وقت ملک بھر میں گائوکشی کے قانون کو سختی سے نافذ کرنے کیلئے احکامات دئیے گئے ہیں۔ایسے میں مسلمان آنے والے اسمبلی یا پارلیمانی انتخابات کے مدِنظرمحتاط ہوکرمنصوبہ بندی کریں کہ کس طرح سے سیاسی حلقوں کو گائوکشی جیسے مدعوں پر بات کرنے کیلئے تیارکیاجائے۔وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ انسداد گائوکشی قانون آنے سے قصائیوں کو کم کسانوں کو زیادہ نقصان ہوگا وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کے مطابق کچھ دن گائوکشی یا دوسرے بڑے جانوروں کوکاٹنے سے گریز کیاجائے،جب جانوروں کی آبادی بڑھنے لگے گی تو خودبخود جانوروں کو کاٹنے کی آزادی ملے گی۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.