11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی قانون بل
منظور کیا گیا تھا ۔اس کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے
اندر 5 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ اس دن کی مناسبت سے نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس
آرگنائزیشن نےامسال اس قانون کے دو سال کی تکمیل کے دن کو یوم سیاہ کے طور
پر منایااور قانون کے خلاف اہم مقامات پر بینرس لگاکر سیاہ پرچم لہرایا ۔
طلباتنظیم نے ایک بیان میں حکومت کو یہ بھی پیغام دیا کہ شمال مشرقی خطہ کے
عوام اس قانون کے خلاف ہیں ۔حال ہی میں آسام کی کئی تنظیموں نے کہا تھا کہ
کسانوں کی ایک سال سے زیادہ لمبی تحریک نے سی اے اےمخالف تحریک کو پھر سے
شروع کرنے کے لیے نیا حوصلہ عطا کیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ملک کے
مسلمانوں نے جس مسئلہ کی جانب قوم کی توجہ مبذول کرائی ا ب وہ بات دیگر
طبقات کی جانب سے بھی پیش کی جارہی ہے۔
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے بلائی جانے میٹنگ میں این ڈی اے کی
اتحادی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی(این پی پی)کی رہنما اگاتھا سنگما نے سی اے
اے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرکے سب کو چونکا دیاتھا۔میگھالیہ کے تورا لوک
سبھا حلقہ سےرکن پارلیمان سنگما نے سرکار سے اپیل کی کہ جس طرح اس نے عوامی
جذبات کے مدنظرزرعی قانون پر خط تنسیخ پھیر دی ہے، اسی طرح سی اے اے کوبھی
منسوخ کیا جانا چاہیے۔یہ مطالبہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ، پرہلاد جوشی اور
پیوش گوئل کی موجودگی میں یہ کیا گیا۔اس میں شمال مشرقی ہندوستان میں رہنے
والے باشندوں کے جذبات کا خیال کرکے سی اے اے کو رد کرنے کی گزارش کی گئی
۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا این ڈی اے سےوابستہ نارتھ ایسٹ کی دیگر پارٹیوں
کا بھی یہ مطالبہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مانگ ان کی اپنی پارٹی اور
شمال مشرق کے لوگوں کی طرف سے کی گئی ہے۔ وہ ایسی دیگر پارٹیوں کو بھی
جانتی ہیں، جن کا یہی نظریہ ہے۔
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ امیت شاہ کی کرونولوجی میں شہریت ترمیمی
قانون یعنی سی اے اے بھی آتا ہے۔ اس کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور
بنگلہ دیش کے غیر دستاویزی غیر مسلم تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت کے لیے
درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ شہریت کے قانون میں ترمیم کوسمجھنے سے
قبل پرانے شہریت کے قانون ( 1955 )کو دیکھ لینا چاہیے ۔ اس قانون کے مطابق
شہریت اختیار کرلینے، آباء و اجداد کےہندوستانی ہونے، بذریعہ رجسٹریشن،
بھارت میں پیدائش ہونے یا اگر ہندوستان کے کسی علاقے کو اپنی حدود میں شامل
کرلینے پر ( اس خطے کے باشندے) ہندوستانی شہریت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں پر
کسی ملک یا مذہب کی تفریق نہیں ہے لیکن بعد والی ترمیم میں اسے پڑوسی ممالک
پاکستان ، بنگلا دیش اور افغانستان کا نام لے کر وہاں کی ستائی جانے والی
مذہبی اقلیتوں کے بہانے مسلمانوں کو الگ کردیا گیا ۔ پڑوسی ممالک کی فہرست
سے نیپال، چین، سری لنکا اور میانمار کوہٹانے سے وہاں رہنے والے غیر مسلموں
کی بھی حق تلفی کی گئی۔ ویسے افغانستان سرحدی اشتراک کے بغیر ہی پڑوسی بن
گیا۔
ان ترامیم سے گویا پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے داخل ہونے والے
ایسے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی تارکین وطن کو جو 31؍دسمبر
2014 سے قبل بھارت میں داخل ہوئے ہوں شہریت کیلئے رجسٹریشن کی اجازت مل گئی
نیز درخواست کنندہ کے لیے ہندوستان میں رہائش کی مدت کو 11 برس سے کم کرکے
5سال کردیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قانون کے موجد امیت شاہ نہیں ہیں ۔
7 ستمبر 2015 کو اس سے ملتی جلتی ترامیم “پاسپورٹ اینڈ فارنرز ایکٹ“ میں کی
گئیں تھیں جن میں انہی تین ممالک سے تعلق رکھنے والی مذہبی اقلیتوں کو
باقاعدہ دستاویزات کے بغیر بھارت میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس شہریت
ترمیمی بل 2016 کے اندرلوک سبھا میں پیش کیا گیاتو آسام میں مظاہرے شروع ہو
گئے اور کانگریس نے بھی مخالفت کی اس لیے اسے رکن پارلیمان ستیاپال سنگھ کی
سربراہی والی مشترکہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ ان کی مرتب کردہ رپورٹ جنوری
2019میں پیش کی گئی لیکن جب امیت شاہ نے کرونولوجی میں این آر سی اور
ڈیٹینشن سینٹر کے ساتھ اسے پیش کیا تو ہنگامہ ہوگیا۔
بی جے پی دراصل یہی چاہتی تھی، اسے اس کے سہارے دہلی اور مغربی بنگال کا
انتخاب جیتنا تھا اس لیےجنوری 2020 میں اپنی غالب اکثریت کی مدد سے یہ
قانون منظور کروالیا گیا مگر بعد میں ایسی زبردست مخالفت ہوئی کہ زعفرانیوں
کے ہوش اڑ گئے۔ ملک بھر میں قائم ہونے والے شاہین باغ حکمراں جماعت کے لیے
عذابِ جان بن گئے نیز دہلی ومغربی بنگال دونوں مقامات پر بی جے پی چاروں
کانے چت ہوگئی۔ کسان قانون کی واپسی کے بعد کئی مسلم تنظیموں نے سی اے اے
اور این آر سی جیسے متنازع قوانین کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مسلمان
چونکہ بی جے پی کوووٹ نہیں دیتے اس لیے اس نے اس مطالبے کو حسبِ توقع خارج
کردیا ۔
یہ تو خیر سکے کا سیاسی پہلو ہے لیکن اس کا جو حقیقی روپ نتیانند رائے نے
ایوان ِ پارلیمان میں پیش کیا وہ کم چونکانے والا نہیں ہے ۔ حالیہ
پارلیمانی اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ پچھلے پانچ سالوں کی مدت میں جملہ
10,645 لوگوں نے ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی۔ ان میں سے صرف 4,177
افراد ہندوستانی شہریت حاصل کر سکے یعنی 60 فیصد محروم رہے۔ کیا وزیر داخلہ
کو اس کی وضاحت نہیں کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اب اگر سالامہ اعداد و
شمار پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2016 میں 1,106، 2017 میں 817،
2018 میں 628، 2019 میں 987 اور 2020 میں 639 لوگوں کو شہریت سے نوازہ
گیا۔یعنی 2016 کے مقابلے اس تعداد میں اچھی خاصی کمی آئی ۔ اس کی ایک وجہ
یہ بھی ہے کہ آئندہ ماہ اس متنازع قانون کو منظور ہوئے دوسال ہوجائیں گے
لیکن ابھی تک اس کے نفاذ کی خاطر اصول و ضوابط مرتب نہیں ہوئے ۔ اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ سرکار یا تو اس بابت سنجیدہ نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کی
اہلیت نہیں رکھتی ۔ ایسے میں قانون بناکر شور شرابہ کرنا اور اس کو نافذ
کرنے کی اہلیت نہ رکھنا اس شعر کی یاد دلاتا ہے؎
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
ایوانِ پارلیمان کے مانسون اجلاس میں وزیر موصوف نے ان ضوابط کو مرتب کرنے
کی خاطر جنوری 2022 تک کی توسیع طلب کی تھی اور یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ
پانچویں بار ہوا تھا ۔ پارلیمانی روایت کے مطابق 6 ماہ کے اندر اصول و
ضوابط مرتب ہوجانے چاہییں لیکن اس پپو سے یہ ہو نہیں پارہا ہے کیونکہ تقریر
کرنا کام کرنے سے خاصہ مشکل ہوتا ہے ۔اس لیے بار بار صدر مملکت سے توسیع
کرانے کی گہار لگانی پڑتی ہے۔ مذکورہ قانون میں ترمیم کے بعد شہریت حاصل
کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے بجائے کمی اس بات کا ثبوت ہےکہ قانون میں
ترمیم کا مقصد کسی مظلوم کوتحفظ یا شہریت دینا نہیں بلکہ سیاسی فائدہ
اٹھانا تھا۔ مزے کی بات یہ جس بنگلہ دیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں
کے مفلوک الحال مظلوم ہندووں کو شہریت دینا مقصود ہے تو درخواست کنندگان
میں ان کی تعداد سب سے کم ہے۔ اگر یقین نہیں ہوتا ہو تو یہ سرکاری اعدادو
شمار دیکھ لیں۔ ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دینے والوں میں امریکہ کے
227، پاکستان کے 7782، افغانستان کے 795 اور بنگلہ دیش کے صرف 184 شہری
ہیں۔
سرکاری مگر مچھ کے آنسو کورونا کی وباء کے دوران بھی نظر آئے۔ ملک میں
لاک ڈاون لگنے کے بعد راجستھان میں رہنے والے پاکستانی تارکین وطن ہندووں
کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ مادھو شرما کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق
پاکستانی ہندوؤں کی شہریت کے مدعے پر کام کرنے والی تنظیم سیمانت لوک
سنگٹھن کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں سی اے اے پر سیاست تو بہت ہوئی مگر
لاک ڈاون جیسے مشکل حالات میں اس سیاست کا تھوڑا بہت کام بھی ان کے فلاح و
بہبود کی خاطر کیا جاتاتا تو ہزاروں پاک پنا ہ گزینوں کا بھلا ہوجاتا۔
شہریت نہیں ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی سماجی تحفظ کے منصوبوں سے مستفید
نہیں ہوپاتے ہیں۔ مذکورہ تنظیم کے مطابق راجستھان میں پاکستان سے آنے
والےتقریباً 6 ہزار خاندان ہیں اور ان کی آبادی 30-35 ہزار کے درمیان ہے۔
تنظیم کے مطالبہ پر وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے پناہ گزینوں کو راشن فراہم
کرانے کا حکم تو دیامگر بہت کم لوگ تک وہ پہنچ سکا مثلاً جیسلمیرکے 2300
میں صرف 450 خاندانوں تک امداد پہنچی۔ باہر سے آنے والوں کی تصاویر
اخبارات میں شائع کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے اور پھر انہیں بھول جانے
کا رویہ اگر حکومت اختیار کرے گی تو سی اے اے کا قانون تو کتابوں میں رہ
جائے گا مگر یہ لوگ لوٹ جائیں گے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|