معاشرے میں علما کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ علما کے لیے کمانا مناسب ہے؟

اب وقت آگیا ہے کہ مدارس، کالجز اور یونیورسٹیز اپنا پیراڈائم شفٹ کریں

پہلے کچھ بیسک کنسیپٹ اور تصورات کو کلئیر اور واضح کرنا ضروری ہے
1 علم کسے کہتے ہیں؟
2 تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
علم کہتے ہیں اس تجزیاتی قوت اور اینالیٹکل پاور کو جس کے ذریعے انسان اولاً معلومات حاصل کرتا رہتا ہے پھر ان معلومات کو مرتب کرتے ہوئے مجہولات کو حاصل کرتا رہتا ہے۔
اس تعریف پر غور کیجئے کہ اس کے چار اجزاء ہیں، تجزیاتی قوت، معلومات، ترتیب دینے کا عمل اور مجہولات تک رسائی، اور چاروں مسلسل ارتقاء پذیر اور بڑھ رہے ہوتے ہیں، اب اس آیت کو پڑھئے "و فوق کل ذی علم علیم"
تعلیم کا مقصد ہے پروبلم دور کرنا (problem solving)
اب یہاں ایک بات سمجھئے کہ علم دین دو الفاظ سے مرکب ہے علم اور دین، جب تک انسان پر مطلق علم کی تعریف صادق نہیں آئے گی تب تک علم دین پڑھ کر بھی وہ عالم نہیں کہلایا جاسکتا کیوں کہ وہ قرآن و حدیث کے ہزاروں صفحات پڑھ تو جائے گا مگر ترقی یافتہ تجزیاتی قوت کے نہ ہونے کی بناپر وہ قرآن و حدیث میں پڑھی ہوئی معلومات کو مرتب کرکے مجہولات تک رسائی حاصل نہیں کر پائے گا اور تعلیم کے مقصد پرابلم سالونگ کو کبھی پورا نہیں کر پائے گا چہ جائے کہ علم دین و شریعت کے مقاصد دینی و دنیوی مصالح کا حصول اور دینی و دنیوی مسائل و مفاسد کو دور کرسکے۔
مغرب نے تعلیم کے اس مقصد کو سمجھ کر اس کا رخ کیپیٹلزم اور پیسے کمانے کی جانب موڑ دیا تو دیکھئے آج اگر سب سے زیادہ منظم کوئی چیز ہے دنیا میں تو وہ ہے کمپنی کیوں کہ اپنی پوری تعلیم کو انہوں نے اپنے کارپوریٹ اور کمپنیوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا ہے، محترم شاہد اعوان صاحب نے فیسبک پر Frithjof Schuon (فِرِٹ جاف شو آن) کے ایک مقولے کا اشتراک کیا ہے: "زوال دنیا کی ہر تہذیب پر آیا ہے۔ مشرق کا زوال تب ہوا جب اس نے سوچنا چھوڑ دیا مگر مغرب کا زوال یہ ہے کہ اس نے زیادہ سوچا اور غلط سوچا، مشرق حقائق پر سو رہا ہے اور مغرب گمراہیوں میں بیدار ہے۔"
علماء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پیراڈائم شفٹنگ (سوچنے کے طریقے کی تبدیلی)
علما کی ذمہ داریوں پر ہم تین پیراڈائم کے لحاظ سے غور کرسکتے ہیں:
نبوی پیراڈائم: نبوت کو دی گئی ذمہ داریوں میں سے چند یہ تھیں: شریعت کے احکام کی تعلیم، امت میں ذہنی اور عملی تبدیلی کے لیے زبانی تبلیغ، ان کے معاشی، دینی، سیاسی، سماجی، تہذیبی، روحانی، اور معاشرتی مسائل کی تعیین کرکے ان کو حل کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کرنا، اور پھر اس کو پریکٹیکل کرکے دکھانا اور لوگوں میں اس کو نافذ کرنا، تو آٹومیٹکلی ایک عالم کی بھی یہ ساری ذمہ داریاں بنتی ہیں بطور وارث نبی ہونے کے۔
شاہی پیراڈائم: پھر پیراڈائم شفٹ ہوتا گیا، حکمرانی عموماً غیر عالم بادشاہوں کے ہاتھوں میں چلی گئی، علماء کو قضاء و تبلیغ و نصیحت سپرد کردی گئی۔
ایمرجنسی پیراڈائم: پھر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ایمرجنسی پیراڈائم کا ظہور ہوا جس میں آدمی ڈیولپمنٹ اور ترقی کے بارے میں نہیں بل کہ سروائول اور بقا کے بارے میں سوچتا ہے، یعنی مسلم قوم کو صرف زندہ رہنے کے لیے اگر کوئی ایک چیز درکار ہے تو وہ کیا ہوگی؟ مولانا قاسم نانوتوی نے علمِ دین و شریعت کو چنا، وہاں سے عالم کا ڈومین (میدان فکر و عمل) تعلیم و تعلم اور امت کے دین کی حفاظت قرار پایا
اب یہ تین پیراڈائم ہوئے، چشمے کے تین لینس ہوئے جن میں سے دیکھ کر ہم ایک عالم کی ذمہ داریوں کی تعیین کرسکتے ہیں
میں بہرحال "لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها" کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے پیراڈائم پر ہی شفٹ ہونا چاہوں گا
مدرسے کا پیراڈائم
ہمارے مدارس نے مولانا قاسم نانوتوی کے اس ایمرجنسی پیراڈائم میں علماء کے لیے متعین کئے گئے محدود ڈومین کو اپنا اول و آخر سمجھ رکھا ہے اور قرآن و حدیث و فقہ کی درس و تدریس کو اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے زیادہ سے زیادہ زبانی تبلیغ، وعظ اور تقریر کرلیتے ہیں اور بس ہم نے علما ہونے کا حق ادا کردیا، حالاں کہ خود مولانا قاسم نانوتوی نے ایمرجنسی حالات کی بنا پر بقول شیخ الہند درس و تدریس کا صرف پردہ ڈالا ہوا تھا، اور ان کی اصل فکر ہمیں شیخ الہند میں عملی طور پر نظر آتی ہے جس کا صاف عندیہ نبوی پیراڈائم کی طرف رجوع ہے۔
کیا علماء کے لیے کمانا مناسب ہے؟
دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے معاشرے کے دماغ کے طور پر کام کیا کرتے تھے اس لیے علما بھی قوم کا دماغ ہیں اور دماغ کا کام طاقت اور وسائل کا حصول نہیں ہوتا بل کہ لوگوں کے پاس موجود طاقت و وسائل میں اضافہ اور ان کو صحیح استعمال کروانا ہوتا ہے، دماغ کا دیا ہوا آئیڈیا خود ایسی طاقت ہے جو تمام مذکورہ طاقتوں کا مرکز اور سینٹر ہے، اور یہ آئیڈیاز جنم لیتے ہیں اپنی اور امت کی ترقی کی پلاننگ کی نیت سے قرآن و حدیث میں تعلیم و تعلم کے ذریعے اپنی تجزیاتی قوت کو استعمال کرنے سے نہ کہ محض پڑھنے پڑھانے سے، تو جونہی وہ دماغ کسی اور طاقت کے حصول کی جانب لپکتا ہے فوراً وہ اپنے مرکزی طاقت یعنی آئیڈیا سے کسی نہ کسی حد تک جدا ہوجاتا ہے، جس کی بناپر اس کی سوچ کی رفتار دھیمی پڑجاتی ہے، اسی لیے حضرت عمر رض نے ابوبکر رض کو خلیفہ بننے کے بعد کسب حلال سے روک کر بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر کروایا تھا؛ لہٰذا:
یا تو قوم اس دماغ کا خرچ اٹھائے جیسے پہلے شاہی خزانے اور بیت المال سے علماء کی کفالت کی جاتی تھی
یا پھر اس کے فیملی ممبرز اور خاندان میں سے کوئی اس کی کفالت کرلے، مثلاً دو یا چار بھائیوں میں سے دو بھائی تعلیم و تعلم میں لگ جائیں اور بقیہ دو ان کا صرفہ برداشت کریں میرا ایک دوست ہے ان کے والدین نے کچھ اسی طرح کی ترتیب بنا رکھی ہے
یا پھر وہ کوئی پیسیو بزنس کرے جس میں اس کی جسمانی شمولیت نہ ہو مثلاً پارٹنرشپ وغیرہ
یا پھر وہ غربت اور بقدر کفایت روزی کو اختیار کرلے
ان کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اگر وہ قوم کا دماغ بننا چاہتا ہے تو
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سےلوٹ جائےجسےزندگی ہو پیاری (وارث نبی ہونااتنا آسان نہیں)
جن فضلاء کو دماغ بننے اور تعلیم و تعلم سے دل چسپی نہ ہو وہ کیا کریں؟
اس وقت ہمارے مدارس کے پاس سب سے بڑا چیلنج ہے یہ کہ جس کو پڑھنے پڑھانے سے دل چسپی نہ ہو اس کے لیے ہمارے پاس کوئی خاص متبادل نہیں ہے، تو دیکھئے جب ہم اس نبوی پیراڈائم پر شفٹ ہو جائیں گے تو خود بخود ہمیں یہ ضرورت محسوس ہونے لگے گی کہ ہمیں اپنے فضلا کو نبی اور صحابہ کی تقلید کرتے ہوئے ہر فیلڈ میں رہنمائی اور قیادت کا فریضہ انجام دینے کے لیے تیار کرنا ہے
خواہ وہ الحاد کا مقابلہ ہو یا دیگر باطل نظریات کا جدید اسلوب میں رد
خواہ وہ اپنوں میں تبلیغ کا کام ہو یا غیروں میں دعوت کا یا پھر سوشل میڈیا پر اسلام کی اشاعت کے لئے کنٹینٹ میکنگ اور مواد سازی کا
خواہ وہ حکومت ہو یا سیاست و معیشت یا پھر آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ
خواہ وہ خدمت خلق ہو یا سوشل ایکٹیویزم اور مجموعی ڈیولپمنٹ کی پلاننگ
خواہ وہ تعلیم و ریسرچ اور سائنس کا میدان ہو یا تصنیف و خطابت کا
خواہ وہ ادب کا جہان ہو یا شعر گوئی کی دنیا یا پھر قراءت و نعت خوانی کا فن (خصوصاً جمالیاتی ذوق کی آبیاری تو ہمارے ایجنڈے میں ہے ہی نہیں ورنہ آج ہمارے اپنے اسٹوڈیوز ہوتے)
خواہ وہ بزنس کی لائن ہو یا کوئی پروفیشن اور اسپورٹس
پھر ہم ان فضلاء کی صلاحیتوں کو پرکھ کر ہر میدان میں امت کی ضرورت کے مطابق اپنے فضلا کو تیار کرنے اور بھیجنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کریں گے کیوں کہ ہمارا مقصد ہر فاضل کو محض پڑھنے پڑھانے سے منسلک کرنا نہیں ہے بل کہ اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر امت کے ضرورت کے مطابق اس سے خدمت لینی ہے و سید القوم خادمھم، ویسے بھی جتنی تعداد فضلا کی ہمارے مدرسوں سے نکل رہی ہے اتنے مدارس یا مساجد ہمارے پاس خالی ہیں نہیں جو ان سب کی کھپت ہوسکے اب ظاہر سی بات ہے وہ ایک حد تک کوشش کریں گے جڑنے کی پھر کسی اور پروفیشن میں چلے جائیں گے، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ان فضلا کو بس یونہی کسی اور فیلڈ میں جانے دیں یا پھر مشن بیسڈ پلاننگ کے ساتھ متعینہ فیلڈ کے لیے مطلوبہ اسکلز ڈیولپ کرکے ان کو مختلف میدانوں میں بھیجیں اور احتساب کرتے رہیں گویا امت کی ترقی کا ایک نیٹورک قائم ہو اور مدرسہ اس کا مرکز ہو۔
اس مشن بیسڈ نیٹ ورکنگ کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک غبی بچہ بھی یہ سوچ کر مایوس نہیں ہوگا کہ میں ٹھیک سے قرآن و حدیث نہیں پڑھ پایا لہذا میں نے اپنے نو دس سال برباد کردئیے، بل کہ وہ بھی یہ سوچے گا کہ ہمارا مقصد تھا امت کا خادم بننا، سو وہ ذہین بھی تعلیم و تعلم کے ذریعے امت کی خدمت میں لگا ہے اور میں بھی امت کی خدمت کررہا ہوں بھلے ہی ہمارے فیلڈ الگ الگ ہیں، البتہ دوسرے شعبوں میں جانے والے ان علماء کو کسی نہ کسی صورت میں تعلیم و تعلم سے ضرور جڑنا چاہئے خواہ وہ امامت یا درس قرآن و حدیث یا آنلائن ایک دو گھنٹے تدریس کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔
ایمرجنسی اقدام
سردست ہنگامی طور پر ہمیں سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہے کہ دورۂ حدیث والے ہر مدرسے میں سالانہ امتحان میں شرکت کے لیے مدرسوں میں پڑھائے جارہے مضامین خصوصاً علوم عالیہ سے متعلق کم از کم دو سو یا تین سو صفحات کا ریسرچ پیپر لکھنا لازمی قرار دے دیا جائے، اور اس کے لیے ایکسپرٹ اور ماہرین کی مدد لے کر تین مہینے کا ایک کریش کورس کرایا جائے جس میں ریسرچ میتھڈ اور ریسرچ پیپر رائٹنگ کے موضوع پر اساتذہ و طلباء کو ٹریننگ دی جائے۔ اور یقین جانیں ہمارے اکثر فضلاء اس قابل ہوتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کے چار سال کے مقالے ایک سال میں لکھ سکیں وہ بھی معیاری مقالے اور بنا کسی اسکالرشپ کے۔
اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اس احساس کے ساتھ فارغ ہوگا کہ میں مدرسے کا فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ریسرچ اسکالر بھی ہوں، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنا خارجی وقت اسی موضوع پر مطالعہ کرنے میں صرف کرے گا، گوگل سرچ کرے گا، اسی موضوع سے متعلق یوٹیوب پر مواد ڈھونڈے گا، اسی کے لیے سوشل میڈیا کو یوز کرے گا
یاد رکھیں طلبا کی مکمل نگرانی اور موبائل کے استعمال پر کنٹرول اب ہمارے اختیار میں نہیں ہے تو کیوں نہ انہیں مشن دے کر اس استعمال کو ایک حسین و مفید موڑ دے دیا جائے، تاکہ وہ زندگی بھر کے لیے موبائل کے صحیح استعمال کی عادت اپنالیں۔
معاشرے سے متعلق لکھے گئے مضامین کی یہ چوتھی کڑی ہے، پہلے تجزیہ کیا کہ معاشرہ علماء کے کنٹرول سے کیوں نکل گیا، ثانیاً معاشرے میں تبدیلی لانے کا ایک روڈ میپ اور فارمولا تیار کیا، ثالثاً اس فارمولے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے فیلڈ ورک کے طریقے پر مختصر روشنی ڈالی، اس مضمون میں معاشرے کے دماغ علما کی ذمہ داریوں کی تعیین کی کوشش کی ہے۔
فیلڈ کا انتخاب کیسے کریں؟
کتنے فیلڈز میں کتنے علماء و گریجویٹس کی ضرورت ہے؟
کالجز اور یونیورسٹیز کا پیراڈائم
جاری۔۔۔۔۔۔۔
 

Mufti Qiyam Qasmi
About the Author: Mufti Qiyam Qasmi Read More Articles by Mufti Qiyam Qasmi: 13 Articles with 8833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.