میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

لکھاریوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لئے ،نگران حریم ادب وسطی پنجاب عصمت اسامہ کے زیر اہتمام فکری نشست بعنوان "شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا" کا انعقاد منصورہ میں کیا گیا۔

فکری نشست میں فرزانہ چیمہ،شاذیہ عبدالقادر ، اسما حبیب، رخسانہ راؤ،شاہدہ اقبال ،سارہ بقا، ناہید طاہر ،عظمی پروین ،روبینہ اعجاز،عائشہ سجاد نے شرکت کی۔مدرسہ رخسانہ اقبال نے سورہء صف کی روشنی میں ،اللہ کی خوشنودی کے لئے کام کرنے والوں کی خصوصیات بیان کیں۔نگران حریم ادب وسطی پنجاب ،عصمت اسامہ نے "موجودہ حالات میں ادیب کا کردار" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ادیب معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے وہ معاشرے کے مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ان کے ممکنہ حل بھی پیش کرسکتا ہے۔ہم جس دور میں زندہ ہیں ،اسے دجال کی علامات کا دور کہا جاتا ہے ، حق اور باطل کی پہچان کے لئے خبر کی تصدیق کرکے قلم اٹھانا چاہیے۔ حریم ادب اپنی پاکیزہ تحریروں کے ذریعے اسلامی انقلاب کی داعی ہے۔حریم ادب خواتین کی ایک ادبی و اصلاحی انجمن ہے۔ جس کے قیام کے مقاصد خیر کا فروغ، شر کی مزاحمت، قلم کاروں کی تربیت اور صالح ادب کا فروغ ہے۔قلم کار معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے۔ ایک ادیب اور لکھاری کو معاشرے میں کان اور آنکھ کی حیثیت حاصل ہے۔ایک ادیب اور لکھاری کا کام معاشرے کی برائیوں اور نشان دہی کے ساتھ مسائل کا حل بتانا بھی ہے۔انسانیت کے دکھوں کا درماں بھی ہے، نفسیاتی الجھنوں، ٹینشن اور ڈپریشن کا علاج بھی ہے۔ موجودہ حالات میں ایسے قلم کار اور رائٹرز کی اشد ضرورت ہے جو ایک طرف قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے امراض کی صحیح تشخیص کرسکیں اور دوسری طرف اپنے قلم کی مسیحائی سے ان امراض کا علاج بھی کر سکیں۔
پھر سے درس وفا دیا جائے
دوسروں کے لیے جیا جائے
دلوں کو کاٹ رہی ہے سختی
نرم لہجوں سے سی دیا جائے
یہ تو سودا ہے دونوں جہانوں کا
یہاں دے کر وہاں لیا جائے

وطن عزیز پاکستان کی بنیاد، دو قومی نظریہ پر رکھی گئی اور ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر یہ پاک وطن حاصل کیا۔ آج اس دو قومی نظریہ کو دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ مسلمان اپنی ایک شاندار تاریخ، تہذیب و کلچر، خاندانی روایات و اقدار رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی لیے فرمایا تھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
میری بہنو،
اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں کا حال دیکھیں تو وہاں سارا زور نصاب مکمل کروانے پر لگایا جا رہا ہے لیکن سٹوڈنٹس کی تربیت بحیثیت شعوری مسلمان کرنے پر نہیں دی جا رہی۔ آج ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں کا مخلوط ماحول برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کبھی کلچر فیسٹیول،کبھی ہالووین، کبھی کرسمس اور کبھی ویلینٹائن اور ہولی تک منائی جا رہی ہے۔ چند روز پہلے لاہور کی جی سی یونیورسٹی میں ہیری پوٹر ویک منایا گیا۔ یہ سیریز جادو ٹونے پر بنائی گئی لیکن ہمارے مذہب میں جادو حرام ہے۔ آخر ہمارے طلباء و طالبات کے سامنے یونیورسٹیوں میں جادوگروں کو آئیڈیل بنا کر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟ دوسری طرف تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے اور والدین اپنی ساری زندگی کا سرمایہ اولاد کی تعلیم پر لگا کے بھی، اس کو جاب دلوانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایک ادیب اور لکھاری کا کام یہ ہے کہ وہ نوجوان نسل کو مایوسی اور ڈپریشن سے نکالے، دلوں کا سکون تو اللہ کے دین میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ اس وقت ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔آج ہمارے اخبارات سماجی برائیوں اور جرائم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں وہاں قرآنی تعلیمات کی روشنی کو اپنے قلم کی روشنائی سے پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ڈائجسٹوں میں نوجوانوں کو فضول عشق و محبت کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ کوئی ہوجو وہاں عشق حقیقی یعنی اپنے رب سے محبت کو متعارف کروائے!

ہمارے فیملی میگزین، سنڈے میگزین مختلف ماڈلز کے فوٹو شوٹ، فیشن ٹرینڈز کے رنگین پیجز شائع کرتے ہیں، کوئی ہو جو وہاں حیا اور حجاب کا کلچر متعارف کروادے، جو خوف آخرت اور ایمان کے تقاضے سمجھا دے۔ ہماے ٹی وی چینلز کافرانہ تہذیب کی یلغار کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔خاندان کے استحکام میں ٹی وی ڈراموں کے ذریعے سے دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں، کوئی ہو جو ان تک یہ پیغام پہنچائے کہ ہمارا دین تو ہمیں صلہ رحمی، رشتہ داروں سے حسن سلوک، حدود و قیود کی حفاظت کرنا سکھاتا ہے"۔۔ اگلا پروگرام ماہر آئ ٹی شاذیہ عبدالقادر نےکنڈکٹ کروایا۔انھوں نے "قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے" کے موضوع پر تاریخی دلائل کے ساتھ پریزینٹیشن دیتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم،علامہ اقبال اور سید مودودی کا قیام پاکستان کے بارے میں ایک ہی وژن تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ،فلاحی ریاست بنے گا۔ قیام پاکستان کی بنیاد کلمہء طیبہ تھا کہ حاکمیت صرف ایک خدا کی ہے اور نظام صرف وہ ہی اسلامی نظام ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا کیا اور ریاست مدینہ میں اس کو نافذ کرکے دکھایا ۔ ہمارے لئے وہی اسوہء حسنہ ہی آئیڈیل نظام ہے ۔پاکستان کی بقا اس کے نظریہ سے وابستہ ہے ورنہ سڑکیں اور کارخانے تو ہندوستان میں بھی موجود تھے-~میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بارہوگا!