اُردو کے نامور صحافی، ادیب، اور شاعر محمو د شام کی آپ بیتی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تبصرہ نگار: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
برقی پتہ: [email protected]
”بلاشبہ ایک اچھے ادیب کی لکھی ہوئی آپ بیتی کو ادب و انشا اور تاریخ و تذکرہ کے اصناف میں سب سے زیادہ دلچسپ، دل آویز، خوش گوار اور شوق انگیز صنف کہا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ آپ بیتی ہی اْردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں مصنف اپنی زندگی کے حالات و واقعات، تجربات، مشاہدات، محسوسات، نظریات اور عقائد کی ایک مربوط داستان بیان کرتا نظر آتا ہے”۔ آپ بیتی لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس میں آپ کو افسانہ نہیں حقیقت بیان کرنی ہوتی ہے جو پڑھنے والوں کو آپ کی شخصیت کھول کر بیان کر دیتی ہے کہ آپ اندر اورباہر سے کیسے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ بیتی لکھنے سے اکثر ادبی دنیا سے وابستہ افراد کتراتے ہیں کہ وہ سچ بیان تو کرنا چاہتے ہیں مگر اُن اثرات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ہیں جو سچ بیان کرنے کے بعد برداشت کرنے ہیں تاہم کچھ جی دار شخصیات ایسی بھی ہیں جو سچ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اُن کی اپنی ساکھ مزید مستحکم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے قارئین کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔
حال ہی میں ”آپ بیتیاں“ حصہ دوئم کا مجموعہ سامنے آیا ہے جس میں تیس نامورادیبوں اورمدیران کے حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک اُردو کے نامورادیب، صحافی اورشاعر ”محمود شام“ صاحب ہیں جن کا نام صحافتی حلقوں میں بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے صحافت کے میدان میں اپنی شخصیت اورادبی کارناموں کی بدولت خود کو بھرپور انداز میں منوایا ہے۔ بچوں کے ادب کی بات کریں تو محمود شام صاحب نے ماہ نامہ ٹوٹ بٹوٹ میں لکھنے والوں کی اُس دور میں خوب حوصلہ افزائی کی جب بڑے ادیبوں کا راج تھا، انہوں نے ان کو ایوارڈز سے بھی نوازا، یہ دور 1980سے 1994تک کا ہے۔آج بھی اُن سے سیکھنے والے کئی ادیب شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔محمود شام صاحب کی تاریخ پیدائش کا دن 5 فروری1940 کا ہے، اسی روز5 فروری کو یوم کشمیر بھی منایا جاتا ہے۔ آپ میں سے اکثر کے لئے یہ شاید انکشاف ہو کہ محمود شام صاحب کا اصلی نام محمد طارق محمود ہے۔
محمود شام صاحب کی آپ بیتی میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر اگربات کی جائے توکئی مقالے تحریر کیے جا سکتے ہیں تاہم راقم السطور چند ایسے نکات کو اُجاگر کرنا چاہتا ہے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ ان کی ذات کن خصوصیات سے مزین ہے اورکس قدر بلند حوصلہ ہیں تاکہ آج اورآنے والے کل کے نوجوانوں کو اُن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے سکے کہ اچھی آپ بیتی ہمیشہ پڑھنے والوں کو نئی سوچ دیتی ہے۔
محمود شام صاحب کی آپ بیتی میں دو شہروں کا تذکرہ بہت دل چسپ انداز میں ہوا ہے، ان میں سے ایک شہر ہے جھنگ، جس کے بارے میں وہ کچھ یوں اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں: ”پہلے جھنگ کی شہرت ہیررانجھے سے تھی،پھر سید جعفرطاہر،شیر افضل جعفر ی کا حوالہ اس کی وجہ سے شہرت بنا۔پھر تحریک ختم نبوت کا آغاز بھی یہیں سے ہوا کیونکہ ربوہ اسی ضلع میں آباد کیا گیا۔چناب اور اس کے بیلے،تخلیقی صلاحیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔حضرت سلطان باہو کی،ہو ،اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔یہ شہربہت غریب پرور ہے“۔
ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے افراد آتے ہیں جو نہ صرف رہنمائی کرتے ہیں بلکہ دوست بن کر ہماری زندگی کے مسائل کو بھی حل کرنے اورمشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے قوت بنتے ہیں، محمود شام صاحب کی زندگی میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے، انہوں نے اس حوالے سے کھل کر اپنے محسنوں کا تذکرہ کیا ہے۔جو یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ محمود شام صاحب اپنے دوستوں کے احسان کو یاد رکھتے ہیں اوریہ درس دیتے ہیں کہ اگر کوئی آپ کے کام آتا ہے تو اُس کا احسان یاد رکھنا چاہیے اورکھلے دل سے اعتراف بھی کرنا چاہیے۔
”میری ہی نہیں،ہر شخص کی زندگی میں اس کے ہم مکتب ہم جماعت اور دوست معاونت کرتے ہیں۔اس کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ہمارے گھریلو مالی حالات ابتداسے ہی بہتر نہیں تھے۔اس کے باوجود والد محترم نے ہمیں اچھی سے اچھی تعلیم دلانے کی کوشش کی۔میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ کامیابی کی راہ دکھانے میں ہمارے محترم استاد جناب محمد حیات خان سیال کا نمایاں کردار ہے۔جھنگ سے لاہور جارہا تھا،تو جناب بلال زبیری نے مختلف دوستوں کو خط لکھ کر مجھے متعارف کروایا۔لاہور میں،قتدیل،کے مدیر جناب شیر محمداختر نے قومی صحافت میں داخل ہونے میں کلیدی معاونت کی۔جناب وارث میر ہفت روزہ صحافت سے روزانہ اخبار نویسی میں لے گئے۔ جناب نذیر احمد ناجی نے لاہور سے کراچی بلا کر ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دئیے۔انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور مقرر،ڈبیٹر اورشاعر ارشاد حسین کا ظمی نے دنیا سمجھنے میں بہت تعاون کیا۔جناب قتیل شفائی نے ہاتھ پکڑ کر بہت کچھ سکھایا۔پٹیالہ اسٹیشنری ہاؤس کے مالکان جناب نور محمد اور نور محمد احمد ہمارے والد محترم کے دوست تھے۔یہ اگر لاہور میں ہماری دستگیری نہ کرتے تو ہمیں بی اے کے بعد تعلیم جاری رکھنا ممکن نہ ہوتا اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد نے ہماری ایک غزل،ماہ نو،میں پڑھی۔ عمر گزری کہ تری دھن میں چلاتھا دریا جابجا گھومتا ہے آج بھی پگلا دریا اس غز ل کی پسند یدگی نے گورنمنٹ کالج لاہور کے دروازے ہم پر کھول دئیے۔
”مختلف قسم کے مقدمات میں عدالتوں میں برسوں حاضری،انکم ٹیکس اور دوسرے محکموں میں پیشیاں۔اس دور میں تین دوست ہی تھے۔جنہوں نے ملنا جلنا نہیں چھوڑ ااور ہماری عدم موجودگی میں ہمارے اہل خانہ کا خیال رکھتے رہے۔اس میں میر پور خاص کے سابق رکن قومی اسمبلی سید خادم علی شاہ،مار گلہ موٹلز کے فیاض شیخ اور سوز و کی موٹرز کے عرفان خان چمن شامل ہیں۔
محمود شام صاحب نے ایک مختصر جملے میں ایک بہت بڑی بات اپنی آپ بیتی میں کی ہے ذرا ملاحظہ کیجئے آپ کو اس میں بہت سے اسرار چھپے نظر آئیں گے۔ ”بچپن سے پبلشر بننے کی کوشش اور خواہش کے باوجود آپ اپنے ادارے کی مطبوعات معیار، ٹوٹ بٹوٹ The Destinationکو کامیابی سے ہمکنار نہ کرسکا“۔ اس حوالے سے مکمل داستان تو آپ بیتیاں میں شائع اُن کی آپ بیتی میں پڑھ سکتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے محمود شام صاحب اپنی خواہش کی تکمیل پوری نہ کر سکے، یہ قصہ بے حد دل خراش ہے جو پڑھنے والوں کو ایسے حقائق سے روشنا س کراتا ہے جو عمومی طور پر سننے میں نہیں آتا ہے۔
تاہم دوسری طرف وہ اپنی ایک خوشی کا اظہار کچھ یوں اپنی آپ بیتی میں کرتے ہیں:
”لیکن یہ خوشی اور اطمینان ہے کہ تینوں رسالوں (”معیار“ ٹوٹ بٹوٹ اور The Destination)نے اپنی اپنی دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ تینوں رسالوں سے وابستہ عملے کے ارکان آج صحافت میں نمایاں مرتبہ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر میں ”ٹوٹ بٹوٹ“ کے حوالے سے یہ فخر ظاہر کرنا چاہوں گا کہ بچوں کے اس رسالے میں،میں نے بہت سے تجربات کئے،کم عمر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تربیت کے لیے ہرماہ ہم ایک بہترین کہانی چننے کے لیے پڑھنے والوں سے رائے لیتے تھے اور سال بھر کے بہترین لکھنے والے بچوں بچیوں کواہم ممتاز شخصیات کے ہاتھوں ایوازڈ ز دینے کی سالانہ تقریب منعقد کرتے تھے۔ہرماہ رسالہ پر تنقیدی نشست ہوتی،جس میں بچے،والدین کے شرکت کرتے تھے، متعدد ایوارڈیافتہ کہانی نویس آج اپنے رسالے نکال رہے ہیں۔جن میں حنیف سحر،مصطفی ہاشمی،ابن شہباز خان، آفاق،سمیع اورمحبوب الٰہی مخمور شامل ہیں، کچھ ٹی وی سلسلوں کے لیے ڈرامے لکھ رہے ہیں،بہت سے اینکرپرسن بنے ہوئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہی میری کامیابی ہے“۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ادبی دنیا میں بھی اوراس کے علاوہ بھی بہت سے افراد ایوارڈ ز کے حصول کو زندگی کا بڑا انمول اثاثہ سمجھتے ہیں، اگرچہ ایسا نہیں ہے کہ نامور بھارتی اداکار عامرخان کسی بھی ایسی تقریب میں نہیں جاتے ہیں جہاں ایوارڈز تقسیم کیے جاتے ہیں، اُن کے نزدیک یہ کسی بھی فنکار کی صلاحیتوں کا بہترین خراج تحسین نہیں ہے، اسی طرح سے محمود شام صاحب بھی کچھ اپنی ایک دبنگ رائے رکھتے ہیں جس کا اظہار یوں کیا ہے کہ پڑھنے والا بھی دنگ رہ جاتا ہے۔
”مجھے کسی قسم کا ایوارڈز نہیں چاہیے اور میں یہ بھی کہہ کرجاؤں گا کہ بعداز مرگ بھی مجھے کسی ایوارڈز سے وابستہ نہ کیا جائے۔مجھے اپنے اس انکار پر جتنی مبارک بادملی ہیں، اتنے ایوارڈز کے اعلان پر نہیں ملیں۔اسی سے مجھے اپنے فیصلے کی صحت پر فخر ہونے لگا ہے۔ میرے لیے اس وقت ایوارڈ کی وصولی کا ہی سماں تھا“۔
اس آپ بیتی میں روشنیوں کے شہر کراچی کا تذکرہ بے حد دل چسپ اندازمیں ہوا ہے جس نے راقم السطور کو بھی بے حد محظوظ کیا ہے کہ راقم السطور کو بھی ادبی سطح پر متعارف کروانے میں اسی شہر کی ادبی ہستیوں اورماہنامہ رسائل (بچوں کا میگزین، سچی کہانیاں، سرگزشت اورماہ نامہ انوکھی کہانیاں) کا نہایت اہم کردار ہے۔محمود شام صاحب کی اس بات کی صداقت کے ہم قائل ہو چکے ہیں کہ انہوں نے جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے اوریقینی طور پر دیگرادبی دنیا کے احباب بھی اس کی تصدیق کریں گے۔ایک اچھی اورسچی آپ بیتی ہمیشہ پڑھنے والے پر اپنا ایک اثر چھوڑتی ہے اوریہی محمود شام صاحب کی آپ بیتی میں بھی عنصر دکھائی دیتاہے۔
”عجیب بات ہے کہ آج ہم کراچی میں ہیں ایک عرصہ ہوگیا کراچی میں آئے ہوئے۔اپنے یہاں قیام کی ہم سلورجویلی بھی منا چکے ہیں۔پاؤ صدی سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔کراچی ایک غریب پر ورشہر ہے۔یہاں آپ کے اندر اگر صلاحیت ہے،محنت کا عزم ہے، حوصلہ ہے، ہمت ہے تو یہ شہر آپ کو بہت عزت دیتا ہے۔وقار دیتا ہے اور آپکو اعلیٰ سے اعلیٰ منازل اور بلند مرتبہ بھی آپ کو مل سکتا ہے۔اگر آپ یہاں محنت سے اپناوقت گزاریں تو"۔
محمو د شام صاحب اپنی ذات میں جس قدر سچے اورکھرے ہیں، اس کا اظہار انہوں آپ بیتی میں کر دیا ہے،آج نہیں تو کل کو اُن کے مخالف بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے ترجمہ نگاری کا میدان ہو یا پھر شاعری کو انہوں نے اپنے آپ کو منواکر ہی دم لیا ہے کہ انہوں نے صلاحیتوں کے مطابق دوسروں سے کام لیا ہے اورخود بھی کام کرکے دکھا یاہے، آج کے نوجوانوں کے لئے محمود شام صاحب کی ذات ایک بہترین عملی نمونہ ہے جنہوں نے کامیابی کے حصول تک حوصلہ نہیں ہارا ہے۔
محمود شام صاحب کی آپ بیتی ضرور پڑھیں اوریہ جاننے کی کوشش کریں کہ کامیابی کے حصول کے لئے کن نکات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اورخواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنا کچھ ہمیں کرنا پڑتا ہے۔
”آپ بیتیاں“ کے مجموعے میں تیس نامور ادیبوں اورمدیران کی آپ بیتیاں شائع ہوئی ہیں۔اس کے مدیران میں محبوب الہی مخمور، نوشاد عادل اورمعاون مدیر راقم السطور(ذوالفقار علی بخاری) ہیں۔
"آپ بیتیاں " ہارڈ بائنڈنگ، بہترین لے آؤٹ، دیدہ زیب سرخیاں، دیدہ زیب پرنٹنگ، بہترین کاغذ اور شاندار سرورق کے ساتھ اصل قیمت 1200روپے میں دستیاب ہے ہے تاہم خصوصی رعایتی قیمت صرف 700 روپے مع رجسٹرڈ ڈاک خرچ ہے۔ "آپ بیتیاں " حصہ دوم 704 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 120 صفحات پر ادیبوں اور مدیران کی نایاب تصاویر شامل ہیں۔
کتاب منگوانے کے لیے ابھی رابطہ کریں۔ الہٰی پبلی کیشنز 95۔R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372 ای میل: [email protected]
|