اجداد پاکستان کی ثقافت

بحثتِ نوجوان ہمیں یہ بتایا جاتا رہا کہ جب ہندوستان سے ہجرت کرکے ہمارے اجداد پاکستان آئے تو مہاجرین جو انڈیا سے پاکستان آئے تھے وہ کافی پڑھی لکھی قوم معلوم ہوتی تھی اور اس وقت پاکستان کے دیگر دفاتی اور حکومتی نظام کو چلانے کے لئے ان سے بہتر کوئی نہ تھا تو قائدِ اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان و دیگر آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈران نے کے ساتھ ساتھ دیگر مہاجرین جو ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آئے انہوں نے پاکستان کے نظام کو سنبھالنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔
ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا کے ناصرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں آج بھی بیشتر جامعات ایسی موجود ہیں جو برصغیر کے مسلمانوں کے قائدین کی بنائی ہوئی ہیں جس میں ایک بڑا نام ہمیں سرسید احمد خان کا ملتا ہے کہ جنہوں نے 1859ء میںمراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے جہاں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ 1875ء میں علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکولجو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔1863ء میںغازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی ادارا جبکہ 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“قائم کیا جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ اس ہی طرح مسلمانوں میں تہذیب، تربیت اور تعلیم کو عام کرنے میں سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، لیاقت علی خان، مولانا الطاف حسین حالی و دیگر بھی شامل تھے۔

آج کے دور کو دیکھ کر اور نوجوانوں کی گفتگوں بول چال کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم وہی قوم تھے جن پر کبھی کسی دور میں پاکستان ذمہ داری عائد کی جاتی تھی۔ کہ جن کے اخلاق کی تعریف کرتے لوگ نہ تھکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو تہذیب سکھانے کے لئے اردو کہنے والے گھرانوں کے ساتھ بیٹھنے کو درس دیا کرتے تھے۔

آج کا نوجوان اپنے اجداد کی ثقافت و تہذیب سے کافی دور ہو چلا ہے۔ ہمارا اخلاق، ہمارا اندازِ بیاں اپنے پڑوں کے نقشے قدم پر قائم نہ رہ سکا بڑوں سے پیش آنے کی تہذیب ہم بھولتے چلے جا رہے تھے۔ آج کے نوجوان اپنی زبان (اردو) جس کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا جاتا ہے اُس زبان کی قدر نہ کرسکی۔

24 دسمبر 2021 اک معمول کے مطابق میرے لیئے دن تھا کہ جب میں اپنے گھر سے دفتر کے لئے روانہ ہوتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ شہر میں نوجوان قائد کی شیروانی، محمد علی جوہر کی ٹوپی یا کئی کرتے پاجامے میں ملبوس نظر آئے۔ ایسا منظر میں نے پہلے کبھی کراچی میں دیکھا نہیں تھا اس لئے آگے بڑھ کر ایک نوجوان سے سوال کیا کہ آخر کیا ماجرا ہے تو معلوم ہوا کہ شہر کے نوجوانانِ مہاجر اپنے اجداد کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے مہاجر ثقافتی دن منا رہے ہیں اور شہر کے نوجوانوں پر مبنی مہاجر ثقافتی ریلی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جس میں نوجوان کرتے پاجامے میں ملبوس نہ صرف اپنی ثقافت کو جوش و جزبے سے منائیں گے بلکہ اردو کو زندہ رکھنے میں جن بڑی شخصیات کا کردار رہا ہے ان کو خراجِ تحسین بھی پیش کی جائے گی جس کے لئے تحریکِ شہدا اردو سے نوجوانانِ مہاجر اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لئے انکی قبر پر جا رہے ہیں۔ جس کے بعد اپنے محبوب قائد بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناب کے مزار تک جا کر ان سے بھی اپنی محبت کا اظہار کیا جائے گا۔

یہ بات سننے کہ بعد ایک لمحے کو میں سوچ میں پڑھ گیا کہ آج نہ تو 14 اگست ہے نہ ہی 23 مارچ تو آج شہر کے یہ تمام نوجوان کیوں گھروں سے نکلے میرے اسی سوال پر ایک نوجوان نے مجھے کہاں کہ پاکستان میں تمام قومیتیں اپنی ثقافت مناتی ہیں اور ثقافت منانے کا کوئی دن یا کوئی ہم تاریخ ہو یہ ضروری نہیں ہم نوجوان نسل تمام قومیتوں کی ثقافت جوش و خروش سے مناتے ہیں چنانچہ ہم نے 24 دسمبر کا دن اپنے قائد اور تمام مہاجرین جنہوں نے پاکستان بنایا انکی یاد میں اور انکی ثقافت منانے کا اعلان کرتے ہیں اور اب سے ہر سال 24 دسمبر کو ہم اپنے اجداد، اپنے محبوب قائد اور تحریک پاکستان کے محبوب لیڈران کی ثقافت انکے لباس میں منایا کریں گے۔

یہ دیکھ کر خوشی تو کافی ہوئی کے ہمارے اجدادِ مہاجر اور ہمارے محبوب قائد کی تہذیب اور ثقافت کا دن ملک کے نوجوانوں نے خود طے کر لیا اور منا بھی رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب میرے دماغ میں خیال بھی آیا کے پہلے اپنے اندازِ بیاں اپنے اخلاق کو تبدیل کرنا ہوگا پھر ظاہر کو تبدیل کیا جائے تو بہتر تھا ورنہ ایک دن اپنے اجداد کا مختص کرنے سے نوجوانوں کی اصلاح نہیں ہونی۔ لیکن اس خیال پر میری خوشی غالب آگئی کہ چلو ترتیب الٹی ہی صحیح لیکن نوجوانوں کو اپنے اجدادوں کی ثقافت و تہذیب کی یاد تو آئی۔

نوجوانوں کا یہ جزبہ دیکھ کر میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ جب پاکستان بنا ہوگا تو اس وقت کے نوجوانوں کا کیا جزبہ ہوگا ہندوستان کو دولخت کرکے پاکستان بنانے کا۔ کہ میرے چاروں جانب یہی سدا موجود تھی۔پاکستان بنایا تھا۔ پاکستان بچائیں گے۔ اپنے اجداد کی ثقافت و تہذیب کی شروعات اگرچہ پہننے اوڑھنے سے ہی صحیح لیکن شروعات تو ہوئی اس جزبے سے اگر مہاجر نوجوان اردو کو زندہ رکھنے کی جستجو کرتے رہے تو وہ دن بھی دور نہیں کہ جب اپنے محبوب قائد کے نقشے قدم پر عمل پیرا بھی ہوجائیں گے۔
 

Syed Ammar Abbas Naqvi
About the Author: Syed Ammar Abbas Naqvi Read More Articles by Syed Ammar Abbas Naqvi: 4 Articles with 2426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.