ہم لوگ میٹنگ سے نکلے ہی تھے کہ لاہور سے سٹی ٹائمز کے
بیوروچیف عثمان بٹ کی کال آگئی ، میرا دوست عثمان بٹ کرائم رپورٹنگ کے
حوالے سے ایک خاص قسم کی شہرت رکھتا ہے نڈر اور کھرا صحافی ہے کہنے لگے" آپ
فورا" ظفر اقبال بھائی سے رابطہ کریں "۔ میں نے پوچھا "خیریت ہے؟" تو کہنے
لگے" دس روز پہلے اغواء ہوئی بچی کی لاش مل گئی ہے". بچی کے اغواء کو دس دن
گزر چکے تھے خیر کی خبریں اب کم ہی آتی ہیں سو بطور صحافی ہم ایسی ہی کسی
اطلاع کے منتظر تھے اس کے باوجود اس افسوسناک سانحے نے پورے جسم پہ جھرجھری
طاری کردی دکھ اور کرب کی لہر نے ایسا لپیٹ میں لیا کہ پھر باقی ساری رات
کروٹیں بدلتے گزر گئی ۔
محمدالیاس تحصیل سمبڑیال کے نواحی گاؤں پانڈے چک کا مکین ہے غریب آدمی ہے
رنگ و روغن کا کام کرتا ہے 19 دسمبر کو شام پانچ بجے کے قریب اس کی 13 سالہ
معصوم بیٹی عشاء گھر سے دودھ لینے نکلی گاؤں دیہاتوں میں یہ معمول کا کام
ہے جو اکثر چھوٹے بچے سرانجام دیتے ہیں جب بچی دیر تک گھر نا پہنچی تو تلاش
شروع ہوئی گھر اور گاؤں کے لوگوں نے بچی کو ہر اس جگہ ڈھونڈا جہاں بچی کے
ملنے کی امید ہوسکتی تھی ۔
پولیس سے رابطہ کیا گیا جس نے حسب روایت اس کیس کو معمول کی اہمیت دی اور
غیر زمہ دارانہ رویہ اپنائے رکھا صحافی برادری پچھلے دس روز سے مسلسل اس
بارے خبریں لگاتی رہی ہے اور یوں 28 دسمبر کی شام آگئی جب کسی شخص نے
کھیتوں میں پلاسٹک کی بوری میں بند عیشاء کی لاش دیکھی ،معصوم والدین پہ جو
گزری اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا یہ ایک ایسا صدمہ ہے جو اب عمر
بھر انہیں رلائے گا ۔
اب ایس ایچ او کو معطل کردیا جائے گا کچھ بیان بازی ہوگی مجرم بھی گرفتار
ہوجائےگا اور شائد ہمیشہ کی طرح مزید حقائق چھپانے کے لئے یا سسٹم سے مایوس
کوئی افسر پولیس مقابلے میں اسے پار بھی کردے گا , پولیس جتنی متحرک اب
ہوگی کاش اس کا صرف پچاس فیصد بھی اگر پہلے متحرک ہو جاتی تو یہ ننھی جان
بچ سکتی تھی ۔
جس طرح سے بچی کی نعش کو پلاسٹک بیگ میں بند کرکے باہر کھیتوں میں پھینکا
گیا ہے اس سے یہ بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ بچی کا قتل اور ذیادتی آبادی کے
اندر یا قریب ہی کسی گھر میں ہوئی اور قتل کرنے کے بعد اسے دور پھینکا گیا
۔ آپ تصور کیجیے ہمارا معاشرہ اور پولیس کس قدر غیر زمہ دار اور بے حس
ہوچکی ہے بچی کی لاش ایک جگہ سے دوسری جگہ موو کررہی ہے اور کسی کو کچھ خبر
نہیں ہوتی ،کیا ہمارا غیر زمہ دار معاشرہ عیشاء کا مجرم نہیں؟ ۔
سچ تو یہ کہ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے توازن کھو رہا اور حیوانیت کی طرف
جارہا ہے اس لئے میں نے ایک بار پہلے بھی تجویز پیش کی تھی کہ نوجوان ہر
گاوں ،گلی محلے میں کمیٹیاں بنائیں باقاعدہ ہر بندے کی نگرانی کریں مشکوک
افراد کی جانچ پڑتال کریں ، منشیات فروشوں اور انکے گاہکوں کے خلاف بھرپور
آواز اٹھائیں کیونکہ بہرحال نشے کی لعنت ذہنی و جسمانی بیماریوں کا باعث
بنتی ہے اور والدین تو کسی صورت اپنے بچوں سے لاپروائی کا مظاہرہ نا کریں ۔
یہ حقیقت ہے کہ جب تک ایسے گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو سرعام عبرت
ناک سزائیں نہیں دی جائینگی ایسے واقعات کو ہونے سے نہیں روکا جاسکتا ،ایسے
واقعات کے بعد متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او ،ایس ڈی پی او اور ڈی پی او کو
ناصرف معطل کرنا چاہئے بلکہ ان کے خلاف فرائض سے غفلت برتنے اور بے حسی کا
مظاہرہ کرنے کی وجہ سے پرچہ دینا چاہئے اور ساری عمر کے لئے انہیں نااہل
کردینا چاہئے جس تھانے کی حدود میں یہ واقعہ ہوا ہے یہاں کے ملازمین اور
ایس ایچ او ویسے بھی مجرموں اور خاص طور پہ منشیات فروشوں کے لئے سہولت کار
کا کردار ادا کرنے کے لئے مشہور ہیں ۔
چند ہفتے پہلے افغانستان میں بچی کے ساتھ ذیادتی کا ارتکاب کرنے والے
مجرموں کو سرعام پھانسی دیکر گاڑیوں پہ لٹکا کر شہر میں گھمایا گیاتھا
ہمارے حالات اس سے بھی ذیادہ سخت سزاؤں کا مطالبہ کررہے ہیں بصورت دیگر ہم
آئے روز ایسی معصوم بچے بچیوں کی لاشیں اٹھاتے ان پہ ماتم کرتے اور نوحے
لکھتے رہینگے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے ملک و قوم پہ اپنی رحمتیں نازل کرے اور
ہمارے بچوں کو عافیت میں رکھے آمین ۔
|