نئے سال کا جشن اور مسلمان

انگریزی سال کے مطابق پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر یعنی ۳۱؍دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب بے حیائی اور فحاشی کی تمام حدوں سے گزرجانے، مذہبی و اخلاقی پابندیوں کو پاؤں تَلے روند ڈالنے،بلکہ حیوانیت کا مظاہرہ کرنے کوفی زمانہ نیو ایئر سیلی بریشن(New Year Celeberation ) سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں دیگر گناہوں کے ساتھ کفار کی تقلید اور نعمتِ خداوندی کی ناقدری جیسے امور شامل ہیں۔ دنیا میں یوں تو مختلف کیلنڈر رائج ہیں، لیکن ہمارے یہاں عموماً انگریزی یا عیسوی اور اسلامی یا ہجری کیلنڈر براے نام استعمال کیا جاتا ہے۔ انگریزی کیلینڈر کا پہلا مہینہ جنوری اور آخری مہینہ دسمبر ہے، لہٰذا دسمبر کی آخری تاریخ میں نیو ایئر سیلی بریشن یعنی نئے سال کے جشن کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

کسی بھی زندہ قوم کے لیے سال و تاریخ کا اہتمام نہایت ضروری ہے،اسی لیے زمانۂ قدیم سے اکثر اقوام کے پاس اپنی اپنی تاریخ تھی، جس سے وہ کام لیا کرتے تھے، اور یہ لوگ بعض مشہور واقعات سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے اور بعض لوگ بادشاہوں کی بادشاہت کے عروج وزوال سے تاریخ مقرر کرتے تھے۔ یہود نے بیت المقدس کی ویرانی کے واقعے سے تاریخ مقرر کی اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے دنیا سے جانے کے بعد سے تاریخ بنائی، اسی طرح عرب کے لوگوں نے واقعۂ فیل سے تاریخ مقرر کی، اور اسلام میں سنہ ہجری کا استعمال حضرت عمر فاروقؓکے زمانۂ خلافت میں جاری ہوا،لیکن اسلام اور علماے اسلام نے بہ طور سدِ باب اسلامی سالِ نو کے آغاز پر بھی ایک دوسرے کو مبار باد دینے یا کوئی جشن منانے کی ترغیب نہیں دی، چہ جائے کہ عیسوی سال کے خرافات سے بھرے موجودہ جشن کی اجازت دی جاتی۔حدیث شریف میں اس بات سے ڈرایا گیا ہے:لترکبن سننَ من کان قبلکم شبراً بشبر وذراعاً بذراع، حتی لو أنّ أحدھم دخل حجرَ ضب لدخلتموہ۔ تم بالشت بہ بالشت اور قدم بہ قدم پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلوگے، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں داخل ہوا تھا تو تم اس میں بھی ضرور داخل ہوں گے۔[مستدرک حاکم، بخاری]

پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور گوہ کے بِل کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ وہ نہایت تنگ ہوتا ہے کہ اس میں گھسنے کی کوشش کرنا اغیار کی انتہائی تقلید کی غمّازی کرتا ہے۔(قولہ: حجر) بضم الجیم وسکون المھملۃ (ضمہ) بفتح المعجمۃ و تشدید الموحدۃ دوبیۃ معروفۃ یقال خصت بالذکر لأن الضب یقال لہ قاضی: البھائم، والذی یظھر أن التخصیص إنما وقع لحجر الضب لشدۃ ضیقہ و رداءتہ، و مع ذلک فإنھم لإقتفائھم آثارھم و أتباعھم طوائقم لو دخلوا فی مثل ہٰذا الضیق الردئ لتبعوھم۔ [فتح الباری]

عیسوی سال کی ابتدا
’فرہنگِ آصفیہ‘ میں لفظ’عیسوی‘ کے تحت مرقوم ہے کہ ’وہ سنہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے زمانے سے شروع ہوا، مگر انگریزی تاریخ کے موافق اُن کے انتقال سے یہ سنہ شروع ہوا‘۔[فرہنگِ آصفیہ]قاموس الکتاب کے مصنف پادری ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں: عام خیال یہ ہے کہ عیسیٰ ۱؍عیسوی میں پیدا ہوئے۔ علماے انجیل کے مطابق انگریزی حرف A.D سے (جو Anno Domina کا مخفف ہے) مراد ہے ’ہمارے خداوند کا سال‘ لیکن جب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ اس سے چار یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئے تو انھیں تعجب ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عیسوی کیلنڈر چھٹی صدی میں مرتب کیا گیا۔ (راہب ڈیوانیسیس اکسی گوس (Mank dionysius exgus) نے ۵۲۶ء میں حساب لگا کر سنہ عیسوی کا اعلان کیا، لیکن بد قسمتی سے اس کے حساب میں چار سال کی غلطی رہ گئی۔ اس نے مسیح کی پیدائش رومی کیلنڈر کے سال ۷۵۴میں رکھی، لیکن ہیرو دیس اعظم‘ جس نے بیت اللحم کے معصوم بچوں کا قتلِ عام کیا تھا، رومی سال ۷۶۰ میں فوت ہوا تھا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی پیدائش رومی ۷۵۰ سے کم از کم چند ماہ پہلے ہوئی ہوگی، غالباً وہ رومی سن ۷۴۹ کے شروع میں پیدا ہوئے یعنی پانچ قبلِ مسیح کے آخر میں۔ جب اس غلطی کا پتہ چلا تو یہ ناممکن تھا کہ بے شمار چھپی ہوئی کتابوں میں اس کو درست کیا جائے، سو سنہ عیسوی کو یوں ہی رہنے دیا گیا۔[قاموس الکتاب]

اہم نکتہ
مشاہیر کی تاریخ میں اس قدر اختلاف سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ولادت و وفات وغیرہ کی تاریخوں کی کوئی قابلِ ذکر اہمیت نہیں‘ ورنہ وہ خود اپنی زندگی میں اس کا اہتمام فرماتے، وہیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے سچّے متبعین نے بھی کبھی ان غیر اہم امور کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا، اس لیے بعد میں آنے والوں کی جانب سے اس طرح کی چیزیں ایجاد کرنا محض رسوم وبدعات کے زمرے میں ہی رکھا جا سکتا ہے۔

عیسوی سال پر خوشی منانا
نئے عیسوی سال کا جشن پہلی باریکم جنوری۱۶۰۰؍ عیسوی کو، اسکاٹ لینڈ میں منایا گیا، اس لیے کہ عیسائی اسی سے نئے سال کی ابتدا مانتے ہیں، جب کہ یہ تاریخِ میلادِ مسیح سے مختلف ہے‘ یعنی میلادِ مسیح۲۵؍دسمبر اور نئے سال کا آغاز اس کے ایک ہفتے بعد۳۱؍دسمبر۔ عصرِ حاضر میں نئے سال کا جشن ایک اہم تقریب کے طور پر اور عیسائی وغیر عیسائی ممالک میں جدید مغربی تہذیب کے مطابق۳۱؍دسمبر کو یہ جشن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رات کے۱۲؍ بجے منعقد کیا جانے لگا، جس میں مسلمان بھی دھڑلّے سے شریک ہوتے اور اسلامی تہذیب و ثقافت و تعلیمات کے چیتھڑے اڑاتے دیکھے جاتے ہیں۔اسلام تو اسلامی سال کی آمد پر بھی آپس میں مبارک بادی وغیرہ کی تاکید نہیں کرتاکہ اس طرح کی مبارک باد وغیرہ سے آہستہ آہستہ وہ عمل رسم ورواج کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اور اس طرح بدعتیں وجود میں آتی ہیں، وہ غیر اسلامی سال پر جشن منانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ دس سال مدینہ منورہ میں رہے اور آپ ﷺ کے بعد تیس سال خلافت ِ راشدہ کا عہد رہا،صحابہ کرامؓکی نگاہ میں اس واقعے کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واساس بنایا گیااور حضرتِ عمر ؓکے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا تھا،لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یومِ ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی،اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم ورواج کا قائل نہیں ہے،کیوں کہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں،پھر وہ آہستہ آہستہ دین کاجزو بن جاتی ہیں،اس لیے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے۔[مستفاد از کتاب الفتاوی] اکثر اہلِ علم اسی کے قائل ہیں۔

نئے عیسوی سال پر خوشی منانا عیسائیوں کی رسم ہے،اور مسلمان جہالت کی وجہ سے مناتے ہیں۔ [آپ کے مسائل اور ان کا حل] ’فتاویٰ حقانیہ‘ میں ہے کہ مسلمانوں کے لیے ہجری سال مقرر ہے اور اسی سے ہمارے اسلامی تشخص کا اظہار ہوتا ہے، عیسوی سال عیسائیوں کا ہے اور وہی اس کی آمد پر خوشیاں مناتے ہیں، بعض مسلمان جہالت اور ناسمجھی سے یہ خوشیاں مناتے ہیں۔ [فتاویٰ حقانیہ]

مکہ مکرمہ کا فتویٰ
مکہ مکرمہ کی فتویٰ کمیٹی نے اس بابت فتویٰ صادر کرتے ہوئے فرمایا کہ سنت یہ ہے مسلمانوں کے دینی، اسلامی شعائر کا اظہار کیا جائے اور ترکِ اظہار رسول اللہ ﷺکی مخالفت ہے، جب کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد یہ ہے:علیکم بسنتی و سنتۃ الخلفاء الراشدین المھدیین۔[ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ]تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت پر عمل کرو۔مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کی عیدوں میں شرکت کریں، ان کی عیدوں کے موقعوں پر فرحت و مسرت کا اظہار کریں اور اپنے دینی اور دنیوی کاموں کو روک دیں، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ مشابہت ہے، جو کہ حرام ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:من تشبہ بقوم فھو منھم۔[ابوداود]جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے، وہ اُنھیں میں سے ہے۔ [فتاویٰ اسلامیہ]

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 300948 views (M.A., Journalist).. View More