مندر سے اربوں روپے کی مالیت کے ہیرے اور جواہرات دریافت

بھارت کی جنوبی ریاست کیرلا میں سولہویں صدی کے ایک مندر کے تہہ خانے سے اربوں روپے کی مالیت کے ہیرے اور جواہرات دریافت نے بھارت میں اس نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے کہ دنیا بھر کی دولت ہوتے ہوئے بھی کسی ملک کے عوام کو بھوکا ننگا اور تعلیم اور دیگر سہولتوں سے دور رکھا جاسکتا ہے۔ اور کیا بھگوان کو دولت کی ضرورت ہے۔ جبکہ عوام اپنی ضرورتوں کے لئے محتاجگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پدمنا بھاسوامی نامی یہ مندر ریاست کے دارالحکومت ترواننت پورم میں واقع ہے۔اور مندر کے چار تہہ خانوں میں سے دو تقریباً ایک سو تیس برس سے نہیں کھولے گئے تھے۔مندر میں موجود نوادرات کی قیمت کے متعلق ابھی کچھ اندازہ نہیں ہے۔ اس مندر کو ٹریوینکور کے راجاؤں نے سولہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا اور مقامی کہانیوں میں اس طرح کی باتوں کا ذکر ہے کہ ان راجاؤں نے اپنی دولت مندر میں چھپانے کے لیے اس کی دیواروں میں قیمتی ہیرے جڑوائے تھے۔راجاؤں نے بہت سی قیمتی اشیا تہہ خانے میں رکھوائی تھیں اور شاید یہ نوادرات اس وقت سے وہاں موجود ہیں۔ مندر سے اب تک جتنا خزانہ ملا ہے اس کی مالیت ایک لاکھ کروڑ روپے کے قریب بتائی جارہی ہے لیکن فی الحال یہ تخمینے ہی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خزانے کی اصل مالیت کا اندازہ لگانے میں مہینوں لگ جائیں گے کیونکہ بڑی مقدار میں جو سونے کے سکے، زیورات اور مورتیاں ملی ہیں ان کی صحیح مالیت تاریخی اہمیت کے تناظر میں طے ہوگی۔لیکن صرف وزن کے حساب سے بھی جو مالیت بتائی جا رہی ہے، وہ اتنی زیادہ ہے کہ اس کی وسعت کو سمجھانے کے لیے طرح طرح کے موازنے کیے جا رہے ہیں۔ یعنی اگر آپ ایک کے آگے بارہ مرتبہ صفر لکھیں تو ایک لاکھ کروڑ کی رقم بنتی ہے۔یہ رقم اتنی ہے کہ کیرالہ کا پورا قرض ادا کرنے کے بعد بھی تقریباً پچیس ہزار کروڑ روپے بچ جائیں گے، یا اس سے پورے ملک میں فوڈ سکیورٹی ایکٹ ( تقریباً ستر ہزار کروڑ روپے) اور روزگار کی گارنٹی کی سکیم ( چالیس ہزار کروڑ روپے) کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، یا ڈھائی سال کا تعلیم کا بجٹ فراہم کیا جاسکتا ہے، یا پھر سات مہینے کے دفاعی اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں۔۔۔ اور پھر بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو انفارمیش ٹیکنالوجی کی کمپنی وپرو کے تمام حصص خریدے جاسکتے ہیں۔ بھارت جہاں عوام غربت اور مہنگائی ، بے روزگاری کے عزاب تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں سوال کیا جارہا ہے کہ یہ دولت کس کام کی ہے۔ جنوبی بھارت کے جس مندر کے تہہ خانوں سے اربوں ڈالر کے ہیرے جواہرات برآمد ہو رہے ہیں، اس کا انتظام ٹریونکور ریاست کے سابق شاہی خاندان کے ہاتھوں میں ہے لیکن بتایا جاتا ہے کہ وہ مندر کی بے پناہ دولت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔سپریم کورٹ کی ہدایت پر جیسے جیسے ماہرین مندر کے تہہ خانوں کے دروازے کھول رہے ہیں، بیش قیمت خزانے کے ساتھ ساتھ کچھ حیرت انگیز اور ناقابل یقین کہانیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ ممبئی کی یونیورسٹی میں قدیم ہندوستانی تاریخ کے پروفیسرڈاکٹر کشور گیکوار کا کہنا ہے کہ "پرانے زمانے میں بادشاہ اکثر اپنی طاقت کے اظہار کے لئے مندروں میں وسیع دولت عطیہ دیتے تھے۔ تاکہ ان کی مذہبی طاقت کے ساتھ سیاسی طاقت میں اضافہ ہو اور بادشاہ کے طور پر دنیا میں دوسری جگہوں پر انھیں عوامی حمایت حاصل ہو۔ ماہرین کے مطابق اس مندر کا پہلا ذکر نویں صدی کی دستاویزات میں ملتا ہے لیکن باقاعدہ ریکارڈ چودہویں صدی سے ہی دستیاب ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں ٹریونکور کے راجا مارتھنڈ ورما نے پورا شاہی خزانہ مندر کے سپرد کردیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے بھگوان وشنو کے’سیوک‘ (خادم) کے طور پر حکمرانی کی۔تب سے ہی انہوں نے شاہی خاندان کے اس خزانے کی حفاظت کی ہے۔ یہ مندر کیرالہ کے دارالحکومت تھیرو اننت پورم کے وسط میں قائم ہے۔ بھارت کی آزادی کے بعد ٹریونکور ریاست بھی وفاق ہند میں ضم ہوگئی تھی لیکن مندر کا انتظام شاہی خاندان کے ہاتھوں میں ہی رہا۔یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ مندر کے تہہ خانوں میں اتنا بڑا خزانہ پڑا ہوا ہے، کبھی بھی شاہی خاندان اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ دولت بھگوان وشنو کی امانت ہے۔

سابق شاہی خاندان آج بھی پدم نابھا سوامی یا بھگوان وشنو کا ’بھکت‘ ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ مندر کے تہہ خانوں میں اتنا بڑا خزانہ پڑا ہوا ہے، کبھی اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ دولت بھگوان وشنو کی امانت ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب وہ پوجا کے بعد مندر سے نکلتے ہیں تو اپنے پیر جھاڑتے ہیں۔ ماہرین کےمطابق یہ ایک علامتی روایت ہے جس سے ریاست کے سابق حکمراں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہیرے جواہرات تو دور وہ مندر کی دھول بھی اپنے ساتھ لیکر نہیں جائیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق خاندان کے موجودہ سربراہ اتھرادوم تھیرونل مارتھنڈ ورما آج بھی اگر کسی دن مندر نہیں جا پاتے تو مندر میں ایک سو اکیاون روپے پچپن پیسے چڑھاتے ہیں۔دوسرے شاہی خاندانوں کے برعکس مارتھنڈ خاندان نے شان و شوکت کے بجائے سادگی کو ترجیح دی ہے اور ان کا رجحان فنون لطیفہ اور ثقافت کی طرف زیادہ ہے۔ اسی خاندان کے راجاؤں نے بیسویں صدی میں سزائے موت پر پابندی لگا کر اور نام نہاد ’اچھوت‘ لوگوں کے مندر میں داخلے پر پابندی ختم کرکے انقلابی نظیریں قائم کی تھیں۔بھارت کے قدیم مندروں میں بے پناہ دولت کے قصے نئے نہیں ہیں۔سومنات کا مندر برصغیر کی تاریخ میں اپنی دولت اور شان و شوکت کے سبب مشہور رہا۔ جس پر محمود غزنوی نے سترہ حملے کئے تھے۔ اس سے پہلے تیروپتی کا مندر سب سے مالدار مانا جاتا تھا جس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً چالیس ہزار کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ان مندروں میں نذرانے پیش کرنے والوں کے لیے آج بھی الگ الگ برتن رکھے جاتے ہیں، سونے کے لیے الگ، چاندی اور نقد کے لیے الگ۔ اس مندر کے چھٹے اور آخری تہہ خانے کے باہر لوہے کا گیٹ ہے اور کسی کو نہیں معلوم کے اس کے اندر کیا ہے۔ اسے کھولنے کے لیے ماہرین کی مدد لی جائے گی۔ غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق یہ بھی ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ اب اس خزانے کا کیا ہوگا؟ حتمی فیصلہ تو سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے لیکن ریاست کے وزیر اعلٰی اوومن چنڈی نے عندیہ دیا ہے کہ خزانہ کو چھیڑا نہیں جائے گا کیونکہ ان کے بقول یہ مندر کی ملکیت ہے اور حکومت کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کئی دیگر سیاسی پارٹیاں بھی یہی کہہ رہی ہیں لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خزانے کو فلاحی کاموں کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔جن تہہ خانوں میں سے یہ خزانہ مل رہا ہے، ان میں کئی تقریباً ڈیڑھ صدی سے کھولے نہیں گئے تھے۔ غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق یہ بھی ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔خزانے کی تفصیلات سپریم کورٹ کے حکم پر یکجا کی جارہی ہیں اور کمیٹی آئندہ چند دنوں میں اپنی ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔عدالت نے مندر کے اثاثوں کی فہرست تیار کرنے کا حکم ایک مقامی وکیل کے اس پٹیشن پر دیا تھا کہ مندر میں سکیورٹی کا مناسب انتظام نہیں ہے اور یہ کہ اس کا انتظام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیے۔ادھرکیرالہ ہائی کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ سنا چکا ہے کہ ریاستی حکومت کو مندر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیے لیکن شاہی خاندان نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا.

کیرل کے ایک مندر شری پدمنابسوامی مندر میں آج کل سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کمیٹی کے سات افراد مندر کے خزانے کی فہرست بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے اس مندر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری شراون کوٹ کے شاہی خاندان کی تھی۔ مندر کے 6 خفیہ کمروں پر ایک طرح کی نشانی لگائی گئی ہے۔۔ حال ہی میں ٹی پی سندر راجن نام کے ایک وکیل نے مندر کی بدانتظامی کو لیکر سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ اسی کے بعد عدالت نے ان سبھی کمروں کو کھولنے کا حکم دیا تھا۔ ان میں سے اے اور بی 1874 سے بند پڑے تھے۔ گذشتہ ہفتے سی ڈی اور ایک کمرے کو کھولا گیا تھا جس میں سے 1 ہزار کروڑ کی دولت ملی تھی۔کیرل کا یہ مندر بھارت دیش کا سب سے امیر مندر کہا جاسکتا ہے۔غیر سرکاری تجزیے کے مطابق اس مندر کے کمروں میں رکھے گئے سونے ، ہیرے جواہرات وغیرہ کی تقریباً قیمت 1 لاکھ کروڑ روپے تک تجویز کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی ایک ٹیم نے شری پدمنابسوامی مندر کے تہہ خانے میں بنی تجوری A کھولی۔ مندر میں A سے F تک اس طرح کی کل 6 تجوریاں ہیں۔ تجوریA سے ہزاروں سال پرانے سکے، 2.5 کلو وزنی 9 فٹ لمبے نیکلس اور کان کی بالیوں کے سائز میں ایک ٹن سونا اور سونے کی چھڑیں اور ہیرے جواہرات سے بھرے بورے اور سونے کی زنجیریں ، ہیرے جڑے زیور، تاج اور دوسری چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔ اس خزانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کے 17 کلو سونے کے سکے بھی ملے ہیں۔ اس کے علاوہ نیپولین عہد کے 18 سکے، ریشم میں لپٹے قیمتی جواہرات سکوں اور زیوروں کی شکل میں 1 ہزار کلو سونے کا ایک چھوٹا ہاتھی ملا ہے۔ کچھ چیزوں پر 1722 سن لکھا ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ راجہ کارتک ترونل رائے ورما کے عہد کے ہیں۔ ان 6 تجوریوں میں سے A اور B کو 1882 کے بعد سے نہیں کھولا گیا۔ فی الحال صرف تجوری A کی ہی اتنی موجودہ دولت کی قیمت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ابھی ان کی پختہ ویلیو نہیں لگائی گئی ہے پھر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مندر تروپتی بالا جی مندر کو پیچھے چھوڑ کر بھارت دیش کا امیر ترین مندر بن گیا ہے۔ انتظامیہ نے مندر کی سکیورٹی بڑھادی ہے۔ چاروں طرف سکیورٹی کیمرے اور الارم سیٹ لگا دئے گئے ہیں۔ کیرل کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ مندر کی سکیورٹی کے لئے ایک کمانڈو فورس بنائی جائے گی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے مبصر مقرر کئے گئے ہیں۔ کیرل ہائی کورٹ کے سابق جسٹس سی ایس راجن اور جسٹس ایس این کرشنا کا کہنا ہے کہ ہر سامان کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔ قیمت کا صحیح اندازہ لگانا کافی مشکل ہے۔ کمرہ B اورE کا کھلنا ابھی باقی ہے۔اسپریم کورٹ نے سات رکنی کمیٹی کو ترواننت پورم میں واقع شری پدمنابھ سوامی مندر کے تہہ خانوں کو کھولنے پر پابندی لگادی ہے۔ جسٹس آر وی روندرن اور جسٹس اے کے پٹنائک کی ڈویڑن بنچ نے عرضی گذار شراون کوٹ کے راجہ رہے ،راجہ مارتنڈ ورما اور کیرل حکومت سے کہا ہے کہ وہ قدیم مندر کے تقدس اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے مناسب تجاویز کے ساتھ عدالت آئیں۔ اور راجہ مارتنڈ ورما کے وکیل نے جرح کے دوران کہا کہ مندر پبلک پراپرٹی ہے اور راج پریوار کے کسی بھی فرد نے بیشمار دولت یا پراپرٹی پر کسی کے حق کا دعوی نہیں کیا ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ خاندان کے کسی فرد سے وابستہ نہیں ہے۔ پراپرٹی بھگوان پدمنابھ سوامی کی ہے۔ مندر کی پراپرٹی کے بارے میں مورخوں کا کہنا ہے کہ اس خزانے کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے تو اس کی قیمت لگانا مشکل ہوگا پھر بھی کہا جارہا ہے کہ اس کی بازار مالیت 1 لاکھ کروڑ سے 10 گنا زیادہ ہوگی۔پدمنابھ سوامی مندر شراون کوٹ شاہی فیملی نے بنوایا تھا۔ بھگوان وشنو کا یہ مندر کیرل کے قلعے کے اندر ہی بنا ہوا ہے۔ اس مندر کو 108 دویہ دشمے میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ دویہ دیشم یعنی وشنو جی کا گھر۔ یہاں بھگوان وشنو کی سوتی ہوئی مورتی ہے۔ شراون کوٹ کے راجہ اپنے آپ کو وشنو کا بھگت کو سیوک مانتے ہیں۔ مندر کے بننے کی کئی کہانیاں ہیں۔ اس میں سے ایک جو سب سے زیادہ مشہور ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ دیواکر منی نے بھگوان کرشن کی تپسیا کی تھی اور انہیں درشن دینے کو کہا۔ بھگوان ایک شرارتی بچے کی شکل میں انہیں درشن دینے آئے اور پوجا کے لئے رکھے شیو لنک کو نگل گئے۔ منی نے غصے میں اس بچے کا پیچھا کیا لیکن وہ جاکر ایک بڑے پیڑ کے پیچھے چھپ گیا۔ اچانک وہ پیڑ گرگیا اور بھگوان وشنو کی مورتی میں بدل گیا۔ منی سمجھ گئے کہ وہ بھگوان وشنو کا ہی اوتار تھا۔ منی نے بھگوان سے کہا یہ مورتی بہت لمبی ہے اسے تھوڑا چھوٹا کریں تاکہ میں اور دوسرے بھگت ایک بار میں اس کے درشن کرسکیں۔ اتنا کہتے ہی وہ مورتی چھوٹی ہوگئی لیکن پھر بھی اس کا قد کافی بڑا رہا۔ آج بھی اس مورتی کو تین گیٹ والے مندر میں رکھا گیا ہے۔ اس کے دروازے سے وشنو جی کا سر دکھائی دیتا ہے۔ اسے شیو جی کی طرح پوجا جاتا ہے ، دوسرے دروازے سے پیٹھ دکھائی دیتے ، جس کی نابھ میں کمل کا پھول نکل رہا ہے اسے بھرما کا سوروپ کہتے ہیں اور تیسرے دروازے سے بھگوان وشنو کے پیر دکھائی دیتے ہیں ، جسے موکش کا دوار مانا جاتا ہے۔ کیرل کا یہ مندر کھجوراہوں کے مندروں جیسی فنکاریوں اور مورتی سے بھرا ہے۔ اسی وجہ سے ترواننت پورم کا نام ملا۔ ترواننت پورم یعنی بھگوان کا پوتر گھر۔کیرل کے شری پدمنابھ سوامی مندر سے سونے کی اب تک کی سب سے بڑی برآمدگی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ خزانے کی اس برآمدگی نے ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ پوجا استھلوں پرایشور کو کیا حقیقت میں گولڈ کی ضرورت ہے؟ لوگ پیلی چمکدار دھات کی پوجا کررہے ہیں یا پھر اپنے بھگوان کی۔ اب یہ مندر ویٹیکن کے بعد دنیا کا سب سے امیر ترین مندر بن گیا ہے۔ پچھلے ہفتے سے اس بحث نے بھی زور پکڑا ہے کہ آخر یہ سونا کس کا ہے؟ بھگوان کا ہے یا پھر کیرل کے عوام کا۔

مندر ہندو مت کے پیروکاروں کے لئے عبادت کی جگہ ہے. زیادہ تر مندروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ مندر وقف ہیں۔ اور کسی نہ کسی ہندو دیوتا کی موجودگی بتوں یا مورتیوں یا ،تصاویر سے آراستہ ہیں۔ مندر عام طور پر ایک بنیادی دیوتا ، صدارت دیوتا ، اور دیگر اہم دیوتا کے ساتھ منسلک ماتحت دیوتاوں کے نام سے موسوم ہیں۔ کچھ مندروں کئی دیوتاوں کے لئے اور کچھ کسی ایک کی عبادت کے لئے وقف ہیں. بہت سے مندروں اہم جغرافیائی پوائنٹس ، جیسے ایک پہاڑی کے سب سے اوپر، یا کسی جھرنے کے قریب ، گھپاﺅں اور ندیوں میں واقع ہیں ، کیونکہ کچھ پرانے لوگوں کا خیال ہے کہ دیوتاوں کی جنم استھانی پیڑوں کے قریب دریاؤں ، جنگلوں اور گھپاﺅں میں ہوئی ہے اس لئے انھیں کھیلنے کے پہاڑوں ، اور اسپرنگس اور جنگل جیسی جگہ بھاتی ہیں۔ بھارت اور ایشیا میں یہ مندر دور دراز جگہوں اور مقامات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں شمالی بھارتی مندروں، جنوبی بھارتی مندروں،اڑیسہ اور پاکستان کے مختلیف حصوں میں، جنوبی ایشیا ،مغربی بنگال اوربنگلہ دیش ،انڈونیشیا میں اہم مندر موجود ہیں۔ مختلیف ریاستوں میں مندرکے کنٹرول ، مندر کے انتظام اور خود مختاری کے لئے غیر سرکاری انتظام ہے۔

یہ مندر دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ناموں ، زبان کی بنیاد پر جانے جاتے ہیں۔ لفظ مندر یا mandiram ہندی سمیت کئی زبانوں میں استعمال کیا جاتا ہے ، اور 'گھر' کے لئے ایک سنسکرت لفظ ، مندرا ، (نہتارت کی طرف سے ایک دیوتا کی) سے ماخوذ ہے. مندروں مندر ، دیوستانم ، Kshetralayam ، Punyakshetram ، یا Punyakshetralayam کے طور پر جانا جاتا ہے ، اڑیسہ میں مندرا ، کناڈا میں Devastanam اور بنگالی میں Mondrian کے طور پر مالالم میں کشتری یا Jambalaya کے طور پر جانا جاتا ہے. عام طور پر ایک دیوتا کے گھر کا مطلب مندر ہی لیا جاتا ہے لیکن اس اصطلاح کو ایک بادشاہ کے گھر کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مندروں کو عام طور پر تین اہم تعمیراتی شیلیوں میں تقسیم کیا گیا ہے. جن میں جنوبی بھارت کی ڈراوڈ انداز ، شمالی بھارت کے ناگرا اسٹائل ، اور مخلوط ورثہ اسٹائل شامل ہیں۔ دنیا میں سب سے قدیم مندروں کی تعمیر میں اینٹوں اور لکڑی کا استعمال کیا گیا لیکن بعد میں پتھر ترجیحی مواد بن گیا. مندر کی تعمیر اور ان کی عبادت کا طریقہ قدیم سنسکرت صحیفوں میں بیان کیا گیا ہے۔ مندروں کے فن تعمیر ، رسومات ، طریق عبادت میں کافی اختلافات ہیں۔ اور مندروں میں روایات بھی مختلیف ہیں.ہندو مت میں مندروں کی ایک طویل تاریخ ہے جو برہما کی مخلوق میں احترام اور پوجا کے ساتھ جڑا ہوا ہے.اہم مندروں میں عبادت یا 'پوجا' کے لئے علامتی پرساد میں پھل ، پھول ، مٹھائی لائی جاتی ہے۔ بھارت میں مندروں میں عام طور پر چھوٹے 'dukan (اردو) نامی اسٹورز بھی ہوتے جس میں عام طور پر کیلے کی پتیوں میں پرشاد دیا جاتا ہے۔ ہندو عام طور پرجب مندر کے اندر داخل ہوتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو احترام کی علامت کے طور پر ایک ساتھ جوڑ کر داخل ہوتے ہیں۔ مندر کو ہندو مت میں کائنات کی جائے پیدائش، یا دیوتاوں اور لوگوں کے ملنے کی جگہ، اور غیر معمولی دنیاؤں کے درمیان کی حدکی علامت مانا جاتا ہے مندر کے پروہت یا پجاری دیوتا کے پاؤں پر ان کے پرساد رکھتے ہیں ۔ جو بعد میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ کئی جنوبی بھارتی مندروں میں ، صرف پجاریوں کو داخل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ مندر کے انتظام کا عملہ عام طور پر پوجا کے لئے وقت کا ا علان منسر میں گھنٹے اور گھنٹیاں بجا کر کرتے ہیں۔ . یہ ہندو مت کی قدیم رسم ہے مختلیف مندروں میں پوجا کا وقت مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ، کچھ مندروں میں آرتی ایک بار یا دن میں دو بار اتاری جاتی ہے۔ یہ پوجا کا مخصوص انداز ہے۔ جسے پروہت یا پجاری انجام دیتے ہیں۔ بعض مندروں میں ، آرتی دن میں پانچ مرتبہ بھی انجام دی جاتی ہے۔ ہندو کلچر میں گانا ، بھجن بکتی گانے یا موسیقی کو کہا جاتا ہے۔ بھجن ، ڈھولک یا طبلا اور ہار مونییم کے ساتھ گائے جاتے ہیں۔ جبکہ داسیاں ناچ گانے کے ذریعہ دیوتاﺅں کو خوش کرتی ہیں۔ فنکاروں کی طرف سے اپنے فن کا مظاہرہ رقص کے طور کیا جاتا ہے۔

زائرین ہندو مندروں میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار کر داخل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مندروں کے باہر ایک جوتے کی دکان اس کام کے لئے مختص ہوتی ہے۔ یہ رواج خاص طور پر جنوبی بھارتی مندروں میں عام ہے۔ ہندو مذہب سکھاتا ہے کہ زندگی کے تمام فارم برہما کی طرف سے بنایا ہے اور بنی نوع انسان کو جانوروں سے اشتراک کی ضرورت ہے. اس لئے ہندو دھرم میں آوارہ کتوں ، گایوں کو ، بندر ، اور مندروں میں پرندوں کی مختلف نسل دیکھنے کو ملنا عام بات ہے.شمالی بھارت کے مندروں کی رسومات کے برعکس پاکستان کے عام مندروں میں یہ رسومات بہت آسان ہیں. اس کے علاوہ شمالی بھارتی مندروں کو اکثر کم قدامت پسند اور بہت سے معاملات میں سب کو دیوتا کی سب سے اندرونی کمرہ میں داخل کرنے کے لئے اور دیوتا کو ذاتی طور پر عبادت کی اجازت ہوتی ہے. اس طرح کے معاملات میں ، دیوتا کو بہت قیمتی گہنی زیورات سے آراستہ کیا جاتا ہے. مندر کا اندرونی دل کمرہ جہاں دیوتا (عام طور پر بت کی شکل میں) موجود ہے ، ہندو معاشرہ میں رسومات ، روایات تہوار ، ایک علاقے سے علاقے میں اکثر کافی مختلف ہوتی ہیں۔بھارتی ریاست مہاراشٹر میں نوبیاہتے جوڑے اپنی ازداجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے مندر پر حاضری دیتے ہیں مگر اس حاضری کے لیے شوہر اپنی بیوی کو گود میں اٹھا کر مندر کی 200 سڑھیاں چڑھتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خوشیاں حاصل کرنے کے لیے یہ رسم ادا کرتے ہیں اور علاقے کے تقریباً تمام جوڑے یہ رسم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔ اڑیسہ اور مغربی بھارت کی مشرقی ریاست میں مندروں کو بھی اس تفریق کا سامنا ہے. جنوب میں ، کیرل کے مندروں کی رسمیں دیگر تین ریاستوں کے مندروں سے بہت مختلف ہیں.دنیا بھر میں مشہور مندروں یعنی زگنناتھ پوری ، کوتارک ، Lingaraj بوونےشور Odisha میں پائے جاتے ہیں. ان مندروں کی قدیم عمارتیں 1200 سال پرانی ہیں. بوونےشور میں دس ہزار مندروں موجود ہے جو اڑیسہ میں مضبوط ہندو ازم کی نمائندگی کر تے ہیں۔ گوا کے مندروں کا فن تعمیر بہت منفرد ہے. گوا کے درمادکرن کے ایک حصے کے طور پر ، پرتگالی گوا جزائر پر 1000 سے زائد مندروں کو منہدم. کیا گیا اور نئے ا مندروں کی تعمیر کی گئی۔ یہ مندر ہندو شاہی ریاستوں کی ریاست کے تحت علاقوں میں تعمیر کیے گئے تھے. اس طرح ان مندروں کی عمر 500 سال سے زیادہ نہیں ہیں ، اور بعض اسلامی اور پرتگالی کی ارکیٹیکچرل اثرات کے ساتھ اصل مندر گوا کے فن تعمیر ، ڈراوڈ ، نگر اور Hemadpanti مندر شیلیوں کا منفرد امتزاج ہیں.

تاہم آزادی کے بعد سے ، انفرادی طور پر ہندو مندروں میں احترام کے ساتھ ان کے اپنے معاملات کے انتظام فرقوں کی خود مختاری میں شدید کمی آئی ہے. بھارت (اور جنوبی بھارت میں خاص طور پر تمام ریاستوں) میں کئی ریاستوں کے ریاستی حکومتوں کے آہستہ آہستہ تمام ہندو مندروں پر ان کے کنٹرول میں اضافہ ہوا ہے. گزشتہ دہائیوں کے دوران ، خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں مختلف قوانین کے خلاف بھارت اور پاکستان کی سپریم کورٹ میں کئی مقدمات لڑے گئے ، اورحکمران جماعتوں کے سیاستدانوں کو مندر کے انتظام اور کام کاج کے ہر پہلو کو کنٹرول کر نے کی مزاحمت کی گئی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387688 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More