کچھ انسان جتنے شکل وصورت سے خوبصورت ہوتے ہیں اس سے کہیں
زیادہ اندر سے بھی خوبصورت ہوتے ہیں اور یہ راز تب کھلتا ہے جب آپ ان سے
چند گھڑیاں گذار لیں ایسا ہی ایک خوبصورت انسان پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین
میرے ریڈیو پروگرام میں بطور مہمان شریک تھا ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ
پنجابیوں کی بھر پور آواز ہے جونہ صرف پنجاب بھر میں ذوق شوق سے سنا جاتا
ہے بلکہ یوٹیوب اور فیس بک کی وجہ سے یہ ریڈیوپوری دنیا میں دکھائی بھی
دیتا ہے اس ریڈیو کو عوامی ریڈیو بنانے میں پلاک کی ڈی جی ڈاکٹر صغراں صدف
کا ہی کمال ہے جنکی محنت ،مشقت اور دلگی سے یہ ریڈیو آج پنجاب حکومت کا
چہرہ بھی ہے اور کردار بھی جو دن بدن نکھر کر سامنے آرہا ہے بلاشبہ اس سارے
منصوبے کو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی خصوصی شفقت بھی حاصل ہے جو
پنجاب میں اداروں کی مضبوطی کے لیے افسران کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ
انکی مشکلات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے ہیں آج کے اس دور میں جب
انسان کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہ ہو اور نفسا نفسی کا عالم ہو ایسے میں
ایف ایم 95پنجاب رنگ کے سبھی پروگرام انتہائی جوش و خروش سے سنے جاتے ہیں
یہاں پیش کیے جانے والے تمام پروگرام انتہائی خوبصورت اور سریلے گانوں کی
وجہ سے نئے ریکارڈ قائم کررہے ہیں یہ اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب یوٹیب
اور فیس بک پر دیکھنے والے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور
ریڈیو سننے والے پروگرام کے دوران ٹیلی فونک کال کے زریعے جب اپنے پیغام کے
ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت دیر سے ہم نمبر ملا رہے تھے مگر لائن مصروف
تھی بڑی مشکل سے آپکا نمبر ملا تو اس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ بلاشبہ یہ
ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ واقعی پنجاب کی بھر پور آواز ہے میں بات کررہا
تھا اپنے خوبصورت مہمان کی جو وطن کی محبت سے لبریز ہے دنیا گھوم کر
پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکے ہیں وہ چاہتے
ہیں کہ یہاں کا ہر طالبعلم ڈگری کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی ہو تاکہ اسے
روزگار کے سلسلہ میں پریشانی نہ اٹھانی پڑے وطن کی محبت اور نوجوانوں کی
اصلاح کے جذبہ سے سرشار بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ننگے
پاؤں ہجرت کرنے والوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سر فہرست ہیں جنہوں نے
پاکستان کو ایٹمی ملک بنایا اور ڈاکٹر نظام الدین بھی ننگے پاؤں جب پاکستان
کی حدود میں داخل ہوئے تھے تو وطن کی مٹی کا اثر انکے پورے وجود میں پھیل
گیا جو وہ آج تک نہیں بھولے گوروں کی دلکش نوکریوں کو چھوڑ کر پاکستان اس
لیے واپس آئے کہ یہاں کے نوجوانوں کا ان پر زیادہ حق ہے ایسے ہیرے جیسے
لوگوں کی قدر کرنی چاہیے یہ ہمارے پاس گذرے وقتوں کی آخری نشانی ہیں ان
لوگوں نے چونکہ پاکستان بنتے دیکھا اور پھر ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھا ان سے
زیادہ حساس اور مخلص کون ہوسکتا ہے انہوں نے ایتھوپیا کی غربت بھی دیکھی
اور ترقی یافتہ ممالک کا بھی مشاہدہ کیا انکی شدید خواہش ہے کہ ہمارا نصاب
تعلیم تبدیل ہونا چاہیے ہم نے سائنس اور آرٹس کی جو تفریق پیدا کررکھی ہے
وہ اب ختم ہونی چاہیے خاص کر ایسے بچوں کو دائرہ تعلیم میں لانے کی اشد
ضرورت ہے جو سکول نہیں جاسکتے باہر کے ممالک میں ہر بچے کو سکول کی سطح تک
تعلیم دلانا وہاں کی حکومت کی ذمہ داری ہے ڈاکٹر نظام الدین نے بہت عرصہ
قبل ایک تجویز حکومت کو دی تھی کہ ہمارے ہر گاؤں میں سکول نہیں ہے اس لیے
وہاں کی مسجد کو اگر سکول کا درجہ دیدیا جائے مقامی خطیب کو اسلامی ٹیچر
جبکہ دو اساتذہ کو مزید بھرتی کرلیا جائے تو ہمارے دیہات کے بچوں کومفت
تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بنایا جاسکتا ہے اور مقامی خطیب کی
آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تمام
تجاویز ہمارے بھلے کے لیے ہیں انہوں نے بطور وی سی گجرات یونیورسٹی بہت سے
تاریخی کام کیے خاص کر بچوں کو دوران تعلیم کام کی بھی ترغیب دی ایسے
نوجوان جو دوران تعلیم اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں وہ
معاشرے کی ناہمواریوں کو بھی سمجھ جاتے ہیں اور کام کرنے والوں کی قدر بھی
کرتے ہیں یونیورسٹی کی سطح پر یونین بازی کے حامی ہیں مگر اس میں غنڈہ گردی
کے سخت خلاف ہیں ڈاکٹر صاحب چونکہ خود بھی سٹوڈنٹ یونین کا حصہ رہے وہ
چاہتے ہیں کہ اب ہر سطح پر سوسائٹیاں ایکٹو ہوں جو کھل کر کام کریں وہاں پر
تربیت کا ماحول ہونا چاہیے جبکہ یونین سازی کے لیے الگ سے ایک بلڈنگ ہوجہاں
پر لائبریری بھی ہو اور غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہوں تاکہ ہماری سیاسی لیڈر
شپ بھی پیدا ہوتی رہے پاکستان میں اس وقت ہمارا لٹریسی ریٹ اپنے ہمسایہ ملک
سے بھی کم ہے جسے بڑھانے کے لیے تعلیم کو عام کرنا پڑے اگرچہ وزیراعلی
پنجاب سردار عثمان بزدار پنجاب کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان
کرچکے ہیں اور اس سلسلہ میں بہت سی یونیورسٹیوں نے اپنے نئے کیمپس کھولنا
بھی شروع کردیے ہیں مگر ہم اس وقت تک تعلیم کے میدان میں اوپر نہیں آسکتے
جب تک ہم اپنے بچوں کو پرائمری اور مڈل تک مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ
کوئی نہ کوئی ہنر بھی ضرور سکھائیں پاکستان میں ڈاکٹر نظام الدین جیسے قابل
لوگ موجود ہیں حکومت انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے انہیں ایسی ذمہ داریاں
دے کہ وہ بیٹھ کر عام لوگوں کے بچوں کے بارے میں سوچ سکیں ڈاکٹر نظام الدین
صاحب نے اب اپنا ایک ادارہ خلدونیہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ اپلائیڈ
سائنسز(کٹاس)بنایا ہوا ہے جہاں پر انکی خواہش ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم کے
ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بنائیں بلکہ یہاں پر انہوں مختلف زبانوں پر عبور
حاصل کرنے کے لیے کلاسز بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے امید ہے کہ وہ اپنی
خدمات جاری رکھیں گے تاکہ ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں اپنے تابناک مستقبل
تک رسائی حاصل کرسکیں ۔
|