کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ،ایک ریٹائرڈ سینئر استاد
میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ تمہاری ضرورت ہے، حکومت اس کوشش میں
ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم کا نفاد کیا جائے۔اس
کے لئے کاوشیں جاری ہیں۔ کچھ کام ہو چکا کچھ ہو رہا ہے۔ میں بوڑھا آدمی ،
اب آرام کی عمر ہے مگرحکومت والے چھوڑتے ہی نہیں۔ سوچا تمہیں کہوں کہ کچھ
مدد کر دو۔میں کچھ مواد تمہیں فراہم کر دوں گا۔ نیکی کا کام ہے قومی خدمت
بھی ہے۔ امید ہے کچھ وقت نکال لو گے۔ کہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں۔گھر
بیٹھے کچھ سفارشات بنا دو۔ میرے وہ معصوم بزرگ دوست مجھے تو گھر بیٹھ کر
کام کرنے کا کہہ رہے تھے مگر اپنی بزرگی کے باوجود حکومت کی ہر کمیٹی میں
شامل ہونا جانتے ہیں۔ بڑے معقول پیسے ملتے ہیں ، عزت بھی ملتی ہے، تعلقات
قائم رہتے ہیں ، اس لئے شمولیت تو ضروری ہوتی ہے۔ انہیں کام کا اتنا پتہ ہو
نہ ہو مگر سرکار کے اکابرین کی نفسیات کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے
بھی مجھ سے اور مجھ جیسے لوگوں سے کچھ مدد لے کر انہوں نے کچھ پراجیکٹ کئے،
ان پر انہیں ایوارڈ بھی ملا مگر میرے جیسے کچھ لوگوں نے اس پر جو محنت کی
ان کا بعد میں شکریہ اس وقت ادا کیا جب نئے کام کی ضرورت پڑی۔ویسے بھی میرے
جیسے لوگوں کی کوئی سنتا بھی نہیں۔یہ گھسے پٹے ماہرین تعلیم ہر دور میں
سلیبس کو دائیں بائیں کرتے رہے ہیں، نئی کوئی چیز کیا بس معمولی فرق ڈال کر
،ایک آدھ مضمون بدل کر وہی باتیں دہرا دی جاتی ہیں۔ لیکن ہر تبدیلی میں بہت
بڑا ہاتھ ان این جی اوز کا بھی ہوتا ہے جو انتہائی با اثر ہیں اور مخصوص
مفادات کے لئے کام کرتی ہیں۔ایک دوسرا گروپ ایسا بھی ہے جو تعمیری کام کرنا
جانتا نہیں یا جانتا ہے تو کرنا نہیں چاہتا، وہ تنقید کرتا ہے، فقط تنقید۔
تھوڑی بہت تبدیلی ان کے بیانات کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ہر ہفتے
اخبار میں کوئی نہ کوئی ایسی خبر ہوتی ہے کہ ظلم ہو گیا۔ فلاں کلاس کے
سلیبس سے فلاں اہم موضوع نکال باہر کر دیا گیا اور اس کی بجائے فلاں غیر
اہم موضوع کو جگہ دے دی گئی ہے۔کبھی وہ سماج دشمنی ہوتی ہے ، کبھی اسلام
دشمنی اور کبھی کبھی ذاتی تعصب بھی۔شور مچانے والے سبھی شور مچاتے ہیں،
خبریں لگاتے ہیں اور یوں خبروں اور شور سے لوگ سمجھ جاتے ہیں کچھ نیا ہوا
ہے اور بس۔سب کے ہدف پورے ہو جاتے ہیں۔
ویسے بھی حکومت کا اپنا ایک طریقہ کار ہے۔حکومتی اکابرین جن ہاتھوں میں
کھیلتے ہیں ، ان سے مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ ایک حکومتی ادارے
کو کسی ایسے ادارے یا گروپ کی خدمات درکار تھیں جو اس کے مراعات یافتہ
سکولوں میں ہونے والے کام کا جائزہ لے اور اس حوالے سے اپنی سفارشات دے۔میں
نے بھی ایک ادارہ بنایاجو دس ارکان پر مشتمل تھا۔ اس ادارے کے دو ارکان
لاہور بورڈ کے سابق چیر مین تھے، دو سابق سیکرٹری اور بقیہ سارے سینئر
پروفیسر تھے جو ہیڈ ایگزامینر بھی رہے اور ٹیچر ٹریننگ کے حوالے وسیع تجربہ
رکھنے والے لوگ تھے۔مزے کی بات ان میں تین وہ استاد بھی شامل تھے جن کا نام
اس ادارے نے ماسٹر ٹرینر کے طور اپنی ویب سائٹ پر بھی دیا ہوا تھا۔ تجربہ
کا حوالہ پوری آب وتاب کے ساتھ ہماری درخوست کے ساتھ لف تھا مگر ہمیں شارٹ
لسٹ ہی نہیں کیا گیا۔ میں وجہ پوچھنے گیا تو سارا عملہ ہی نابالغ افراد پر
مشتمل وہاں موجود تھا۔ فہم و فراست سے عاری اسٹیریو ٹائپ لوگ، مجھے کہنے
لگے ، آپ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ آپ نے پریزنٹیشن کی وڈیو ساتھ نہیں
بھیجی۔ میں نے ہنس کر کہا کہ بیٹا وڈیو تو اس وقت بنے گی جب کچھ کام ہو گا
۔ویسے ان دس لوگوں کے نام دیکھو، سارے چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی پریزنٹیشن
ہیں، ہر ایک کی سی وی ساتھ ہے۔پروفیشنل لوگ ہیں، تم جو چاہتے ہو اس کام میں
ان سے بہتر کوئی نہیں۔ان میں کوئی ایسا بتا دو جس کے تجربے اور قابلیت کے
بار ے میں محکمہ تعلیم میں کوئی جانتا نہ ہو۔ میرا ایک شاگرد بھی وہاں تھا
اس نے بتایا کہ ہر چیز طے ہے ، فلاں گروپ آف سکولز کو یہ کام دیا جا چکا ہے
بس ادائیگی کے لئے رسمی کاروائی ہو رہی ہے۔کچھ کہنے اور سننے کا فائدہ نہیں
تھا۔ مافیاز سے مقابلہ ممکن نہیں ہوتا۔
سلیبس میں کسی بھی تبدیلی کے لئے بھی حکومت کے طے کردہ لوگ اور گروپ ہی اہل
ہوتے ہیں۔ اس ملک میں فقط حوالے پلتے ہیں۔کسی بھی دوسرے کی گنجائش نہیں
ہوتی۔اس لئے تنقید کرنے والے اپنے دوستوں کو میرا مشورہ ہے کہ آؤتنقید کی
بجائے مخلصی سے ایک تعمیری کام کریں۔ آپ کا مضمون کیا ہے۔ اس مضمون کی
موجودہ سلیبس کی تمام کتابیں خرید کر لے آئیں ، انہیں پڑھیں، اس میں کیا
غلط ہے اور کیاصحیح ، اس کا جائزہ لیں اور اپنے فہم کے مطابق بہتر سے بہتر
انداز میں ایک نئی کتاب مرتب کر لیں۔یہ خدمت خلق کا کام ہو گا، اس کا
معاوضہ بھی نہیں ملے گا لیکن فرض جان کر دیانت داری سے کریں۔پھر یہ سب مرتب
کتابیں حکومت کو پیش کی جائیں کہ ان خوبیوں کی بنا پر ان کتابوں کو سلیبس
میں شامل کیا جائے۔ اگر ہماری کاوش میں واقعی کوئی بہتر چیز ہو گی تو مجھے
یقین ہے کہ ہماری جدوجہد کامیاب ہو گی۔
پچھلے ہفتے میرے کالم ’’فیض محل‘‘ میں ،میں نے کتابی حوالے سے تالپور
خاندان کے بارے لکھا تھا کہ وہ لوگ ایران سے آئے، محترم جناب پرنس مہدی رضا
تالپور نے اس کی تردید کی ہے۔ یقیناً جناب پرنس مہدی رضا صاحب کا کہا زیادہ
مستند اور صحیح ہے۔میں ان کا بیان اسی طرح درج کر رہا ہوں۔ پرنس کہتے ہیں،
’’سائیں ہم نے ایران سے آ کر سندھ پر حملہ نہیں کیا تھا۔ہم پہلے سندھ میں
سیٹل ہو چکے تھے اور سندھ کو دوبارہ آزاد مملکت بنانے میں کلہوڑوں کا ساتھ
دیا تھا۔جب کلہوڑے حاکم لاوارث مر گئے تو ان کے کزن کے ساتھ ہمارے تعلقات
خراب ہو گئے۔کلہوڑوں نے ہمارے قبیلے پر قاتلانہ حملہ کیا جو ناکام ہو گیا
اور جس کے نتیجے میں سندھ کی شاہی تالپور خاندان کے میروں کے ہاتھ آ
گئی‘‘۔تصحیح کے لئے میں محترم پرنس کا مشکور ہوں۔
|