دسمبر کی ٹھنڈی یخ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی میں
اپنے دوست کی طرف کھا نا کھانے کے بعد اب اپنے گھر کی طرف محو سفر تھا سرد
ی کی ٹھنڈی رات آدھی رات کا وقت سڑکوں پر ٹریفک برائے نام دوسرے شہروں کی
طرف جانے والے یا ایمرجنسی گھروں سے نکلنے والے اکا دکا رات کے سناٹے کو
ارتعاش بخش رہے تھے ۔میرے اعصاب عضلات قلب و روح پر بھی رات اور نیند کا
خمار حاوی ہونے کی کو شش کر رہا تھا آرام دہ گاڑی کا حرارت آمیز ہیٹر اِس
غنودگی میں مزید اضافہ کر رہا تھا میرا دوست اپنی زندگی کے حالات بیان کر
رہا تھا کہ اچانک ہماری کار رک گئی رات کے وقت سڑکیں سنسان ہوتی ہیں گاڑی
رکنے پر میں غنودگی سے باہر آیا تو دیکھا ہمارے عین سامنے ایک پک اپ کھڑی
ہے اُس کے اردگرد بہت سارے لوگ مجمعے کی شکل میں کھڑے ہیں میں اور میرا
دوست تجسس بھری نظروں سے پک اپ اور ہجوم کو دیکھنے تھوڑی دیر بعد ہی رش کی
وجہ سمجھ آگئی کہ کوئی مسیحا شخص لوگوں میں گرما گرم چائے کے ڈسپوز ایبل کپ
بانٹ رہا تھا پاکستان میں مفت کا مال یا لنگر کی فری تقسیم ہو تو ہر بندہ
قطار میں لگ جاتا ہے میرا دوست نیچے اُترا قریب جا کر مشاہدہ کیا اور واپس
آکر بولا سر کوئی درویش داڑھی والا شخص لوگوں میں مفت گرما گرم چائے کے کپ
ٍبانٹ رہا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہر بندے کو ایک ہی کپ ملے گا میں آپ کے لیے
لے آیا ہوں دسمبر کی یخ ٹھنڈی رات کا وقت اور کوئی خدمت خلق کا پتلہ بھوکے
پیاسے لوگوں میں چائے کا لنگر بانٹ رہا ہے مجھے مسیحا انسان کی ادا بہت
پسند آئی میں گاڑی سے اُترا اور جا کر لائن میں کھڑا ہو گیا میں چائے سے
زیادہ اُس نیک انسان کی زیارت کر نا چاہتا تھا جو موجودہ مادیت پرستی کے
دور میں درویشوں کی خدمت کی شمع کو جلا رہا تھا جب میر ی باری آئی تو میں
نے پک اپ کے اندر کا خوشگوار منظر دیکھا ایک بوڑھا لمبی داڑھی والا شخص
اپنے مرید یا نوکر کے ساتھ پک اپ میں بڑا دیگچہ چائے کا اور ہاتھ میں ابلے
انڈوں کا ٹوکرا لیے لنگر بانٹ رہا تھا دیگچے کے نیچے گیس کے چولہے کی آگ
روشن تھی جس کی وجہ سے گرما گرم بھاپ اُڑاتی چائے کپوں میں منتقل ہو رہی
تھی بابا جی نے گرما گرم بھاپ اُڑاتا چائے کا کپ میرے ہاتھ میں پکڑایا ساتھ
میں گرما گرم انڈہ بھی دیا میں دونوں سوغاتیں لے کر پیچھے آگیا باباجی کے
روح پرور منظر سے میری روح سر شاری کے آسمانوں پر پرواز کر رہی تھی تھوڑا
پیچھے ہو کر وہاں پر کھڑا بندوں کے پاس جا کر پو چھا یہ باباجی کون ہیں
کہاں سے آتے ہیں تو ایک بندہ عقیدت سے مخمور لہجے میں بولا یہ باباجی
روزانہ نہیں کبھی کبھار آدھی رات کے وقت یہاں پر آکر اِسی طرح چائے انڈوں
کا لنگر بانٹتے ہیں جب یہاں پر موجود لوگ لے لیتے ہیں تو یہ اگلی منزل کی
طرف روانہ ہو جاتے ہیں سردیوں میں کبھی چائے کے ساتھ انڈے کبھی مونگ پھلی
ڈرائی فروٹ بانٹتے ہیں باقی موسموں میں چاول بریانی دال نان وغیرہ موسموں
کے حساب سے لنگر بانٹتے ہیں کسی نے جب اِن سے اِس لنگر کے بارے میں پوچھا
تو انہوں نے بتایا کہ وہ یہ لنگر اپنے مرشد کے نام اور حکم پر بانٹتے ہیں
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ملکوتی باباجی کا مو بائل لنگر خانہ
یہاں پر سب کو لنگر بانٹ کر اگلے سٹاپ کی طرف بڑھ گیا میں فقیری درویشی کے
بلند مینار کو جاتا دیکھ رہا تھا اب میں آکر آرام دہ سیٹ پر بیٹھ گیا چائے
کے خوشبو اڑاتا کپ لبوں سے لگایا تو الائچی کی خوشبو سے طبیعت سرشار ہو گئی
ساتھ ہی مجھے بابا یو سف مجذوب یاد آگئے جو سارا دن اِسی طرح کے لنگر
موسموں کے حساب سے بانٹتے تھے ایک دن میں بابا یوسف صاحب سے ملنے اُن کے
ڈیرے پر گیا تو حیران کن منظر دیکھا کہ ایک ٹرالی میں بہت سارے گدے رضائیاں
اور تکیے پڑے ہیں اور باباجی آنے والوں میں اُن کی ضرورت کے مطابق بستر
بانٹ رہے ہیں تو میں نے خادم خاص سے پوچھا یار یہ آج باباجی بستر کیوں بانٹ
رہے ہیں تو وہ بولا چوہدری صاحب بے اولاد تھے اُن کے گھر باباجی کی دعا سے
بیٹا ہوا تو وہ روز آکر ضد کر تا کہ میں نے سو دیگوں کی منت مانی تھی کہ اﷲ
تعالی مجھے وارث دے گا تو میں سو دیگوں کا لنگر بانٹوں گا اب آپ بتائیں کس
دن آپ کے ڈیرے پر سو دیگوں کا انتظام کروں تو باباجی نے کہا آجکل ٹھنڈ بہت
پڑ رہی ہے آج کل لوگوں کو گرم بستروں کی ضرورت ہے لہذا تم سو دیگوں کی جگہ
ایک سو گرم بسترے لا دو تاکہ ضرورت مندوں کی ضرورت پو ری ہو سکے شروع میں
تو چوہدری صاحب کو باباجی کی بات سمجھ نہ آئی وہ دیگوں پر بضد رہا لیکن آخر
کار جب باباجی نے سختی سے حکم دیا تو آج وہ بستروں سے بھری ٹرالی یہاں چھوڑ
گیا اور باباجی اپنی سخی طبیعت کا مظاہرہ غریبوں میں بستر رضائیاں بانٹ کر
رہے ہیں میں باباجی کے پاس گیا باباجی میری طرف دیکھ کر مسکرائے میں پاس
بیٹھ گیا باباجی کے قدموں کو اپنی گود میں رکھ کر دبانے اور مساج کرنے لگا
بابالوگوں سے بھی مل رہے تھے جب موقع ملتا تو مُجھ نا چیز سے بھی بات کر
لیتے جب تھوڑی فرصت ملی تو درخواست کی سرکار آج یہ بستروں کا لنگر بانٹ رہے
ہیں تو باباجی بو لے بیٹا انسان کی ضرورت کے تحت چیز دینی چاہیے میرے مرشد
سرکار نے یہ عادت اور حکم مجھے دیا ہے اُن کو یہ حکم اُن کے مرشد نے دیا
تھا پھر بابا یوسف اپنے مرشد کی بات سنانے لگے کہ وہ فر ماتے تھے میں راہ
حق روحانیت کی تلاش کے لیے بہت بزرگوں کے پاس گیا لیکن خالی دامن رہا پھر
ایک نیک درویش ملا تو اُس کے در پر بیٹھ گیا اپنے مرشد کے حکم پر بہت سارے
وظائف چلے کئے لیکن باطن کا اندھیرا نور معرفت سے محروم تھا کبھی کبھا ر
دبے لفظوں میں مرشد سرکار سے شکوہ کر تا تو آپ فرماتے وقت آئے گا تو تیرا
سینہ ضرور روشن ہو گیا پھر ایک دن سردی کا موسم آیا تو مرشد نے مجھے حکم
لگایا کہ آپ سردی کا موسم جب تک ہے تم رات کو لاری اڈے ریلوے اسٹیشن پر جا
کر مجذوبوں دیوانوں کو گرم کھیس چادریں دے گا جو سردی میں بے آسرا پڑے ہوتے
ہیں اب میں مرشد کے حکم سے راتوں کو سنسان جگہوں پر ایسے لوگوں کو تلاش کر
تا پھر ان پر گرم چادریں ڈال کر واپس آجاتا میرے پاس جو جمع پونجی تھی وہ
بھی میں نے راتوں کو بانٹ دی پھر مجھے جلد ہی اجر مل گیا من کا اندھیرا دور
ہو ا زیارتوں خوابوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع اور نور حق میں غوطے
کھانے لگا جو کام راتوں کے وظیفے نہ کر سکے وہ انسانوں کی خدمت سے ہو گیا
پھر باباجی اپنے مرشد کی اور بھی بہت ساری کرامات کا ذکر عقیدت سے سرشار
لہجے میں کرتے بابایو سف ؒسے جب بھی کوئی صدقے کے بارے میں بات کر تا تو آپ
کہتے چاول گندم دودھ دالیں بانٹوں جب کسی فصل کا وقت آتا تو آپ کے پاس چاول
گندم سبزیوں کے ڈھیر لگ جاتے جن کو آپ ضرورت مندوں میں تقسیم کر تے اگر کسی
کی دعا یا منت پوری ہو تی اور وہ خدمت کرنا چاہتا تو اُس کی ڈیوٹی لگاتے
فلاں چیز لے آؤ جس کو وہ لوگوں میں بانٹ دیتے میری زندگی میں مجھے بہت سارے
ایسے عبادت گزار ملے جو ساری رات عبادت میں گزارتے آئے تھے لیکن من کا
اندھیرا دور نہیں ہوا تھا لیکن بہت سارے لوگ جو عبادت کم کرتے تھے لیکن
خدمت خلق کے مسافر تھے اُن کے سینے نور معرفت سے منور تھے بابایوسفؒ فرمایا
کرتے تھے بیٹا شرطیہ عمل ہے کہ کسی ضرورت مند کی مدد کرو اِس سے مالک تیرا
خالی دامن بھی بھر دے گا ۔
|