مہنگائی کیا ہے؟عام لوگ مہنگائی اشیاء خورودونوش و دیگر
ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کوسمجھتے ہیں یایوں کہہ لیں کہ آمدن کم
اوراخراجات زیادہ ہونامہنگائی کہلاتاہے ۔دونوں صوروتوں میں مہنگائی انسانی
زندگی کوہی نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کوبھی متاثرکرتی ہے۔عام لوگ یہی سمجھتے
ہیں اوردرست سمجھتے ہیں کہ مہنگائی یاکم وسائل جیسے مسائل کاحل ریاست کی
ذمہ داری ہے۔مہنگائی مسلسل بڑھتی ہی جائے،لوگوں کی قوت خریدکم سے کم تر
ہوتی جائے اورریاست مناسب وقت پربہترین حکمت عملی کے ذریعے حل نکالنے میں
سنجیدہ نظرنہ آئے توعام لوگ حکمرانوں کوذمہ دارسمجھتے اوربرا بھلاکہتے
دیکھائی دیتے ہیں جبکہ حکمرانوں کو اوربھی کئی مسائل کاسامنا کرناپڑتاہے
جیساکہ عالمی منڈی میں ملکی کرنسی کی قوت خریدکم ہوناانتہائی پیچیدہ مسئلہ
ہے یعنی رائج الوقت کرنسی کی قوت خریدمیں کمی یاکمزوری بھی مہنگائی کی بڑی
وجہ ہے جسے عوامی طبقات زیادہ نہیں سمجھتے ہیں۔پاکستانی روپے کے مقابلے
ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اور بیرونی قرضوں کے دباؤ کی وجہ سے پاکستانی عوام
کو ہرروزمہنگائی کی نئی لہر کاسامناکرناپڑتاہے ،اشیاء خورودونوش، بجلی، گیس،
کھاد،پیٹرولیم مصنوعات ودیگرہرچیزکی قیمتیں دن بدن بڑھتی ہی جارہی
ہیں۔ماہرین معیشت کے مطابق کسی بھی ملک کی کرنسی کی مضبوطی کے پیچھے سونے
کے ذخائر ہوتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے پا س سب سے زیادہ سونے کے ذخائر
ہیں۔پاکستان کے پاس صرف چار ارب ڈالر کے سونے کے ریزرو ہیں جبکہ اس کی
اکانومی کے حجم کے حساب سے اس کے پاس کم از کم 30 ارب ڈالر کے سونے کے
ریزرو ہونے چاہیے۔ دوسرا یہ کہ سٹیٹ بنک کو ڈالر کو ڈی ریگولیٹ کرنا چاہیے
تاکہ مارکیٹ اپنی ضروریات کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر لے۔ایک عام آدمی جو
اکانومی کے اتار چڑھاؤ کو نہیں سمجھتا۔ وہ بس یہ سمجھتا ہے کہ اس کی گزر
اوقات باآسانی ہو رہی ہے یا نہیں ۔پاکستان میں لوگوں کے مہنگائی سے زیادہ
متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماراخاندانی نظام آمدنی وہی پرانا
ہے مثلا ایک گھر میں آٹھ افراد کھانے والے ہیں جبکہ فقط ایک فر د نوکری کر
کے گھر کا نظام چلا رہا ہے اس خاندان کے لیے توآج کل مہنگائی کی وجہ سے
قیامت کا سما ء ہے ۔ اس کے بر عکس آٹھ میں سے پانچ لوگ کام کر رہے ہیں تو
مہنگائی اس خاندان کو اتنا متاثر نہیں کرے گی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کام کیا کیا جاے ؟ اس کے لیے ہمیں اپنے نئی نسل کو جو ابھی تیار ہو رہی ہے
مہنگائی جیسی بلا کامقابلہ کرنے کیلئے معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین
ہنر سیکھانے ہو ں گے ۔رائج الوقت نظام تعلیم ڈگری ہولڈر توپیداکرتاہے
روزگارکے نئے مواقع نہیں۔تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھ میں ڈگریاں تھامیں
دربدرنوکری جسے غلامی کہیں توزیادہ مناسب ہوگا کی تلاش میں رہتے ہیں
تودوسری جانب ان پڑھ یاکم پڑھے لکھے نواجوان برسرروزگاردیکھائی دیتے ہیں
یعنی دونوں ادھورے۔کسی کے پاس علم نہیں توکسی کے پاس ہنرنہیں ۔جس وقت
مہنگائی حملہ آوارہوتی ہے توان پڑھ یاکم پڑھے لکھے ہنرمندلوگ کسی
قدرمہنگائی کامقابلہ کرنے کے اہل ہوتے جبکہ بے ہنرڈگری ہولڈرمایوسی
کاشکارہوکے رہ جاتے ہیں لہٰذاضروری ہے کہ نسل نوکوروایتی تعلیم کے ساتھ ہنر
دینا ہو گا تا کے مزید غلام پیدا کرنے کی بجاے آنے والی نسلیں دنیا کا
مقابلہ کر سکے ۔سب سے بڑا المیہ یہ کہ بچوں کے لئے ملک میں فنی تعلیم کے
ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو موجود ہیں وہ بذات خود اتنے فرسودہ نصاب
و آلات کے ساتھ چل رہے ہیں کہ آج کی فنی ضروریات کے مطابق ہنرمند تیار کرنے
کے قابل نہیں۔ اسی طرح پاکستان میں میٹر ک،ایف اے،بی اے اور ایم اے کا
روائتی نظام تعلیم بھی رائج ہے اورساتھ ساتھ-Level Oاور -Level A، کامر
س،بزنس، آئی ٹی اور دوسر ے لاتعداد نئے نئے ڈسپلنز کا نظام بھی جاری ہے۔ایک
طرف کے طلباء دوسری طرف نہیں جاسکتے اور پھر بیک وقت دو سال کی گریجویشن
اورچار سال کی گریجویشن، دو سال کا ایم اے اور ایک سال کاایم اے پروگرام
رائج ہے۔پاکستان کا ایک دوسرے سے متصادم طریق ِکار اور مقاصدرکھنے والا
نظام تعلیم مختلف، متضاد اور متصادم قسم کی پیداواریں دے رہا ہے۔نامناسب
بلکہ کرپٹ ترین اشرافیہ اوربدانتظامی کے باوجودقدرتی وسائل اورصلاحیتوں سے
مالامال پاکستان میں باوجودشدیدمہنگائی کوئی یہ کہے کہ کرنے کو کوئی کام
نہیں ہے تو میرے خیال سے اس کی وجہ صرف اس کی سستی، بے ہنر مندی یا کاہلی
ہو سکتی ہے ہمارے نوجوان پڑھ لکھ کر نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں
رہیں گے توپھر کیسے مہنگائی اثر انداذ نہ ہو؟افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ
جس پیداوار (مثلاًڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی،اکاؤنٹس،مالیات، کاروبار، معاش
اور معیشت کے ماہرین اور ان کے مدد گارفنی اور تکنیکی سٹاف)کی ضرورت زیادہ
ہے وہ بہت کم اور جس پیداوار (مثلاً کلرک، قاصد، چپڑاسی چوکیدار وغیرہ) کی
ضرورت کم ہے وہ بہت زیادہ تعداد میں پیدا ہو رہی ہے۔بے مقصد تعلیم اور بے
ہنر افرادی قوت ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ایک تعلیم یافتہ اچھا موٹر
مکینک،اچھا کمپیوٹر کا کاریگر،اچھا الیکٹریشن، اچھا فریج، ایئرکنڈیشنر،
جنریٹر یا یوپی ایس کاماہریا اچھا ڈرائیور ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، کوئی بھی
پڑھے لکھے اوران پڑھ بے ہنرہزاروں، لاکھو ں بلکہ کروڑوں نوجوان ملازمت کی
تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔اس کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ جب کسی
ادارے کی طرف سے کسی فنی ماہر کی آسامی مشتہر کی جاتی ہے تو اُس آسامی کے
لئے مطلوبہ قابلیت رکھنے والے دس افراد کی درخواستیں بھی نہیں آتیں، جبکہ
پولیس کانسٹیبل، کلرک، نائب قاصد یا چپڑاسی کی آسامی کا اشتہار دیا جائے کہ
جس کے لئے کسی فنی تعلیم و تجربے کی شرط نہیں ہوتی توایک آسامی کے لئے
ہزاروں درخواستیں آجاتی ہیں۔ مطلوبہ تعلیمی قابلیت میٹرک ہو توبی اے، ایم
اے حتیٰ کہ ایم کام اور ایم بی اے کی ڈگری کے حاملین ہزاروں کی تعداد میں
درخواستیں دے دیتے ہیں۔اس تمام صورت حال میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ایک
ایسا نظام تعلیم رائج کیا جائے،جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اور اس کی
ضرورت کے مطابق اشخاص تیار کرے۔اس نظام میں ہر بچہ اسی شعبے میں اور اِسی
حد تک تعلیم حاصل کرے، جس طرف اس کا ذہنی رحجان ہے اور جتنی اس میں اہلیت
ہے۔یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب ملک میں پیدا ہونے والے ہر بچے کوشروع سے
ہی، قطع نظر اس کے کہ وہ کس قوم، مذہب، علاقہ، معاشی یا سماجی حیثیت کا
حامل ہے،ایک جیسا تعلیمی ماحول دیا جائے اور ایک جیسا نصاب پڑھایا جائے اور
ساتھ ہے زندگی میں مہنگائی جیسی مشکل کامقابلہ کرنے کیلئے بہترین
ہنرسکھایاجائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کون سا بچہ کتنی ذہنی و جسمانی
صلاحیتوں کامالک ہے اوریہ کہ اُسے لازمی پرائمری اور ثانوی تعلیم کے بعد کس
طرف جانا چاہئے، یا بھیجا جائے لہٰذا قسم قسم کے نظام تعلیم اور قسم قسم کی
غیر متوازن اور غیر مطلوب پیداوار کی بجائے، جو بچہ پیدا ہووہ لازماً سکول
بھی جائے گااور وہ ملک و قوم کے لئے ایک مفید اثاثہ بن کربھی نکلے اپنی سوچ
کو بلند کرتے ہوئے عملی زندگی میں نوکریاں ڈھونڈنے کا عمل چھوڑ کر نوکریاں
دینے والاذہن بنا کر میدان عمل میں اتریں۔ دنیا میں ترقی کی اعلیٰ منزلوں
تک پہنچنے والے بیشتر افراد کا تعلق سیلف میڈ بیک راؤنڈ سے تھا،جنہوں نے
بہت مشکل حالات میں اپنی عمل زندگی کا آغاز کیا اور آخر کار دنیا کیلئے ایک
بڑی ضرورت بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کیلئے مواقع پیدا کیے بلکہ
لاکھوں انسانوں کیلئے آگے بڑھنے کے راستے بنائے
|