دنیا میں اومیکرون ویریئنٹ کے تناظر میں وبائی صورتحال کا
جائزہ لیا جائے تو پاکستان سمیت اکثر ممالک میں وبا کی تازہ لہر کے باعث
متاثرہ افراد کی یومیہ تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
صحت عامہ کے ماہرین نے طبی نظام پر شدید دباو کا خطرہ ظاہر کیا ہے کیونکہ
اکثر خطوں میں انسداد وبا کے اقدامات میں نرمی برتی جا رہی ہے اور احتیاط
کا دامن چھوڑ دیا گیا ہے۔ابھی حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے
متنبہ کیا کہ کووڈ۔19 کی عالمی وبا فی الوقت خاتمے سے کافی دور ہے۔ انہوں
نے دنیا پر واضح کیا کہ انتہائی متعدی اومیکرون کو کم خطرناک سمجھنے کا عمل
انتہائی تباہ کن ہے۔اومیکرون ویرِئینٹ گزشتہ سال نومبر میں جنوبی افریقہ
میں پہلی مرتبہ سامنے آیا تھا اور اس کے بعد سے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی
طرح پھیل چکا ہے۔ڈیلٹا کے بعد اومیکرون کے پھیلاو کو صرف تین ہفتے لگے اور
2022 کے پہلے ہفتے میں ہی رپورٹ شدہ کیسز کی مجموعی تعداد 7 ملین سے تجاوز
کر چکی تھی جس سے اس کے متعدی پن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ماہرین
کے نزدیک مصدقہ مریضوں کی تعداد میں وسیع اضافے کا مطلب وبا کی مزید سنگینی
ہے جس کا خطرناک نتیجہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
اومیکرون سے نمٹنے کے لیے چین کے اقدامات دنیا میں سب سے جداگانہ ہیں۔چین
نے وبا کے آغاز ہی سے ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ پر توجہ دی ہے اور گزرتے وقت کے
ساتھ بگ ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کے دیگر جدید تصورات اپناتے ہوئے وبا کی روک
تھام اور کنٹرول کو یقینی بنایا یے۔چین کے موئثر اقدامات کا اندازہ اس بات
سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں بیجنگ کے نزدیکی شہر تھین جن میں اومیکرون کا
پہلا مصدقہ کیس سامنے آنے کے بعد صرف اڑتالیس گھنٹوں میں شہر کے 14 ملین
باشندوں کا نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ مکمل کیا گیا۔یقیناً یہ ایک حیران کن رفتار ہے
جس کے پیچھے چین کے فرنٹ لائن کمیونٹی کے عملے اور پورے معاشرے کی مشترکہ
کوششیں ہیں ۔ انسداد وبا کے مختلف اقدامات پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ شہر
کے عام باشندوں نےمختلف صورتوں میں انسداد وبا کے عمل میں اپنا اپنا حصہ
ڈالا ۔چینی شہری یا تو رضاکار ٹیم میں شامل ہوئے، یا پھر انہوں نے انسداد
وبا کے اہلکاروں کو کھانا، گرم پانی، بستر اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء
وغیرہ پہنچائی ہیں۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ چین کا یہ شہر رقبے کے لحاظ سے
قطر جیسے ملک سے بڑا ہے اور اس کی آبادی بیلجیم جیسے ملک سے تین ملین زائد
ہے ،لیکن اس کے باوجود تھین جن شہر نے وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے
صرف دس دن سے بھی کم وقت لیا ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا وبا پر قابو پانے کے لیے
چین کے اقدامات اور صلاحیتوں کی معترف ہے۔چینی عوام کا اپنی حکومت پر
اعتماد، حکومت کی جانب سے اقدامات پر سختی سے عمل درآمد اور وبا کے خلاف
مشترکہ جدوجہد ہی وہ اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دنیا کا سب سے زیادہ
آبادی والا ملک چین اس وبا کے خلاف کامیابی سے جنگ کر رہا ہے۔
دوسری جانب چین نے بیرونی سطح پر بھی وبا سے نمٹنے میں مختلف خطوں کی مدد
سے انتہائی معاون کردار نبھایا ہے۔ویکسین عالمی وبا کو شکست دینے اور معیشت
کی بحالی کا ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ چین نے عالمی ویکسین تعاون کے حوالے سے
محض کھوکھلے بیانات نہیں دیے ہیں بلکہ حقیقی اقدامات اٹھائے ہیں۔وبائی
صورتحال کے بعد سے چین نے 120 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو
ویکسین کی دو بلین سے زائد خوراکیں فراہم کی ہیں، جو چین سے باہر ویکسین کے
مجموعی استعمال کا ایک تہائی ہیں۔اس وقت عالمی سطح پر استعمال ہونے والی ہر
دو میں سے ایک ویکسین "میڈ اِن چائنا" ہے، یوں چین دنیا کو ویکسین فراہم
کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون نے چین کے اقدامات کو بھرپور
سراہتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب وبا پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ،
چین نے دنیا کے بہت سے ممالک اور خطوں کو کووڈ۔19 ویکسین اور دیگر طبی
وسائل فراہم کیے ہیں، جس سے اس وبا کے عالمی ردعمل میں نمایاں کردار ادا
کیا گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت فیصل سلطان نے کہا
کہ "چین کی مسلسل کوششوں کی بدولت، دنیا بھر کے بہت سے ممالک یونیورسل
ویکسینیشن کے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں، جو کہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔"
چین وبائی صورتحال کے آغاز ہی سے ہمیشہ انسداد وبا تعاون کی صف اول میں
کھڑا رہا ہے اور ویکسین کی منصفانہ تقسیم کے لیے "پہلے دستے " میں شامل ہے۔
چین افریقہ کو ویکسین کی مزید ایک بلین خوراکیں فراہم کرے گا، جن میں سے
600 ملین خوراکیں بطور امداد ہوں گی، اور آسیان ممالک کو بھی ویکسین کی 150
ملین خوراکیں مفت دی جائیں گی۔یہ بات بھی اچھی ہے کہ چین پاکستان سمیت دنیا
کے 20 ممالک کے ساتھ ویکسین کا پیداواری تعاون بھی بڑھا رہا ہے ، یوں مقامی
سطح پر ویکسین کی تیاری سے ترقی پذیر ممالک میں انسداد وبا میں نمایاں مدد
ملے گی ۔
|