مجھے خود کشی کے موضوع پر لکھنے کیلئے پاکستان کے قومی ٹی
وی چینلز کی وا ہیاتیوں نیمجبور کیا۔ جہاں تک لکھنے کا تعلق ہے تو یہ حوصلہ
مجھے اپنی تحریر پڑھنے والوں اور انکے کمینٹس نے دیا۔ یہ کریڈٹ انہیں
دوستوں کو جاتا ہے۔ کسی بھی تحریر کو سپرد قلم کرنے سے پہلے اسے اپنے قاری
تک پہنچانے کیلئے اسکے بیک گراونڈ کا جاننا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی تحریر کو
نوک قلم کی زبان پر لانے کا میرا پہلا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قاری تک حقیقت
پر منی مواد پیش کیا جائی تاکہ مجھے پڑ ھنے والے اچھائی اور برائی میں تمیز
کر پائیں اور جان سکیں کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ زیر نظر تحریر انتہائی
اہم،، نازک اور قابل غور ہے جس میں پاکستان میں بنائی جانے والی فلموں اور
قومی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں کے بے جس لکھاری، ڈائریکٹر اور
انہین سینسر کرنے والوں کے بارے میں انکی زہنی کیفیت کے بارے میں سوال
اٹھائے گئے ہیں۔۔
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خود کشی کا رجحان زیادہ بڑھا ہے ایک
اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں پانچ ہزار سے زائد افراد خود کشی کرتے
ہیں اورایک سال میں تین ہزار سے زائد افراد اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے
ہیں۔ پاکستان میں خود کشی کے سب سے زیادہ واقعات سندھ اور پنجاب میں پیش
آتے ہیں اس کے بعد سرحد اور بلوچستان کی باری آتی ہے- کراچی، لاہور
راولپنڈی اور ملتان میں خود کشی کے سب سے زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کے انتہائی بے حس اور زمانے کے رموز سے نا واقف اور جاہل
لکھاری اور ڈائریکٹر ان ڈراموں میں خود کشی کرنے کے طریقون سے روشناس کراتے
ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ خود کشی کیسے کی جا سکتی ہے۔ جس سے نوجوان نسل جن
میں لڑکیاں اور لڑکے شامل ہیں ان ڈراموں کا اثر لیتے ہوئے اس جانب راغب ہو
رہے ہیں اور محبت میں ناکامی پر خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے
ہیں۔تشویشناک بات یہ ہے کہ ان تمام مناظر میں کسی بھی موقع پر خود کشی سے
متعلق آگاہی، تنبہ یا ایسے خیالات آنے کی صورت میں مدد حاصل کرنے کے لیے
ہیلپ لائنز کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔جو انتہائی تشویشناک بات ہے۔
ورلڈ بینک کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد
میں سے تقریباً نو لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ
ملک میں روزانہ کی بنیاد پر خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد 15 سے 35 کے
درمیان ہے۔ ہم اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا سے سوال کرتے ہیں کہ
’ایسا مواد ایک قومی ٹی وی پر دکھانے کی اجازت کیسے دے دی گئی؟ کوئی اس پر
بات کیوں نہیں کر رہا؟۔ جس میں اس ڈرامے کا ایک کردار دوسرے کرداد کو مشورے
دے رہا ہے کہ خودکشی کیسے کرنی ہے۔’
ہمارا سوال ہے کہ کیا گھروں میں جب مائیں ڈرامہ دیکھتی ہیں تو اکثر چھوٹے
بچے ان کے ساتھ ہی ڈرامہ دیکھتے ہیں۔تو ان بچوں اور ماں پر ایسے بے ہودہ
ڈراموں کے کیا اثرات مرتب ہونگے یہ کیسا تفریحی مواد ہے اور یہ کس قسم کا
پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ اجازت دینے سے پہلے پیمرا والے سکرپٹ کو پڑھتے
نہیں اگر انمیں اتنی صلاحیت نہیں ہے تو ایسے جاہلوں کو گھر بھیج کر قوم کی
نوجوان اور ابھرتی ہویی نسل کی جان چھڑئی جائے کیا یہ لوگ سکرپٹ نہیں
پڑھتے؟’
خود کشی کسی بھی انسان کے از خود مار لینے کا نام ہے۔ جب سوچنے سمجھنے کی
صلاحیت دم توڑ جاتی ہے تو ایک انسان انتہائی قدم اٹھا تا ہے جسے خود کشی کے
نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خود کشی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جو اسکے
سر زد ہونے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لوگ خود کشی کے بارے میں
جب سوچتے ہیں تب پانی انکے سر سے گزر جاتا ہے اور وہ ہر طرف سے مایوس ہو
جائین اور ھر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ نظر آئے۔ اور کوئی دوسرا راستہ نظر نہ
آئے تو اسکا سوچنے کا انداز از خود خود کو مارنے کیطرف مضبوط ہو جاتا ہے
اور وہ یہ انتہائی قدم اٹھاتا ہے۔ خود کشی کو بزدلی کا نام دیا گیا ہے کہ
خود کشی وہ لوگ کرتے ہیں جنکی قوت ارادی بہت کمزور ہوتی ہے۔
خود کشی سے ہونے والی اموات میں روز بروز اضافے کی سب سے بڑی ممکنہ وجہ
ڈپریشن ہے۔ خود کشی ہمیشہ ہمارا موضوع رہا ہے اور پوری دنیا میں اسکے بارے
میں مختلف تحقیقات ہوئی ہیں جنمیں اس بات پر تحقیق ہو رہی ہے کہ خود کشی
میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور اسکی کیا وجوہات ہیں۔ اس بارے میں کافی
تحقیقی کام ہو چکا ہے۔ خود کشی کی کوشش اور ان حالات کا جائزہ لینے کیلئے
تا حال کوششیں جاری ہیں کہ وہ کیاحالات ہیں جن سے بد دل ہو کر انسان خود
کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تا حال کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
مگر اسکی بہت سی وجوہات ہیں جو عام ہیں۔ کوئی ایک وجہ نہیں دکھائی دیتی۔
خود کشی کا رجحان شدید زہنی دباو کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔دنیابھر میں خود
کشی کرنے والے افراد میں 15 سے55 سال کی عمر کے افراد کی تعداد بہت زیادہ
ہے ان میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جو گھریلو جھگڑون سے تنگ آکر یہ
اقدام اٹھاتی ہیں۔ اس عمر کے افراد کی موت کی بڑی وجوہات ڈپریشں، ذہنی
خرابی، شدید صدمہ، مخدوش حالات، جنسی عمل میں کمزوری، گھریلو جھگڑے، انتشار
کی کیفیت، نشہ آور ادویات کا استعمال اور منشیات، امتحان میں فیل ہو جانا،
بے روزگاری، غربت، لمبی بیماری، جسمانی لاغر پن، جنگ کا خوف، اکیلا پن،
عصمت دری کا خوف، خواہشات کی عدم تکمیل عزت کی پامالی بدنامی کا خوف اور
ناانصافی ہیں۔ بعض افراد اتنے احساس طبیعت کے ہوتے ہیں کہ ذرا سی مشکل سے
گھبرا جاتے ہیں اور زندگی سے ناطہ توڑ لیتے ہیں وغیرہ۔ ایک تحقیق کے مطابق
نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں خود کشی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ
ماہرین نفسیات کی رائے میں نوجوانوں میں ذہنی دباؤ سے نمٹنے کی صلاحیت میں
کمی اور دباؤ برداشت نہ کر پانا اس نوعیت کے سنگین خیالات کو جنم دے سکتا
ہے۔
جدید تاریخ کی سب سے بڑی اجتماعی خود کشی جس میں 913 افراد کی جانیں گئیں۔
مرنے والوں میں تقریباً 300 افراد کی عمریں 17 سال یا اس سے کم تھیں، جو
اپنے مذہبی رہنما جم جونز کے حکم پر زہر پی کر مر گئے۔ یہ اندوہناک واقعہ
18 نومبر 1978ء میں جنوبی امریکا میں جمہوریہ گیانا کے زرعی قصبے جونسٹاؤن
میں پیش آیا۔ مرنے والے تمام افراد پیپلز ٹیمپل فرقے سے منسلک تھے۔
دنیابھر میں ساٹھ سے نوے افراد زہریلی اشیاء اور نیند کی گولیاں کھا کر،
گلے میں پھندا لیکر اور دریا، نہر اور سمندر میں کود کر خود کشی کرتے ہیں
دنیا بھر میں سب سے زیادہ خود کشیاں لٹویا میں ہوتی ہیں لٹویا کے بعد سب سے
زیادہ خود کشیاں جن ممالک میں ہوتی ہیں ان میں جاپان، روس،
بیلا روس اسٹونیا اور ہنگری شامل ہیں۔ہر سال خود کشی سے تقریباً 11 لاکھ
افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
خود کشی کو روکنے کی تدابیر میں، اسلحے کا عام افراد کی رسائی سے دور رکھنا
اسکی بلا لائیسنس فراہمی، زہریلی ادویات کی کھلے عام فروخت پر پابندی،
ماحول کو خوشگوار بنانا، پیار اور محبت یا انکا نفسیاتی علاج کرایا جائے تو
انکے خود کشی کے ارادے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انکے مسائل کا حل نکالنا،
انہیں معاشی طور پر مضبوط کرنا، انکے مسائل کا تدارک کر کے انمیں نئی روح
پھونکنا، اسی طرح انسے ہمدردی کر کے ان میں حوصلہ پیدا کرنا اور ہر طرح سے
انمیں اس رجحان کو ختم کر کے ایسے افراد کو خود کشی سے بچایا جا سکتا ہے۔
ہمارے یہاں اسکولوں میں مشاورت کرنے والے ماہرین کی ضرورت ہے جو صرف طلبا
ہی نہیں والدین اور اساتذہ میں بھی آگاہی پیدا کرکے اس سے بڑی حد تک بچا جا
سکتا ہے۔
خودکشی اور ڈپریشن پر ضرور بات ہونی چاہیے کیونکہ یہ اسی دنیا کے موضوعات
ہیں مگر ایک محطاظ انداز سے'۔ اگر ہمارے ڈرامہ نویس، اور ڈائریکٹر اور اسے
سنسر کرنے والے ہی ایسے نازک موضوعات کو شاھین کی نگاہ سے نہیں دیکھینگے
اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے سب اچھا کی رپورٹ دئے جائینگے تو ہماری
آنے والی نسل کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔اس قدر غیر محتاط انداز میں
ان مسائل پر بات کی گئی تو یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے اشدخطرناک ہے۔
تحریر: سید اسنیس احمد بخاری
|