اللہ پاک نے پاکستان کوپہاڑ وں، دریاوں ، جھیلوں ،
معدنیات اورہر طرح کی قدرتی نعمت سے نوازا ہیں۔ اتنے زیادہ وسائل کے باوجود
ہمارا ملک دنیا میں دوسرے ممالک سے کیا حتی کہ ایشیا کے ممالک سے بھی
پیچھےہیں ۔اس سب کی وجہ ہم میں اور ہمارے حکمرانوں میں انسانیت اور احساس
کا ختم ہو جاناہے۔ آج کے دور میں انسان تو زندہ ہیں لیکن بد قسمتی سے
انسانیت مرگئی ہے انسان دوسرے انسان کا دشمن بنا ہوا ہے احساس نام کی چیز
ہم میں رہ ہی نہیں گئی۔انسانیت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو انسان سے
وابستہ رکھتا ہے اور اگر یہ احساس ختم ہو جائے تو معاشرہ اور قوم سب تباہ
اور برباد ہو جاتا ہے آج کے دور میں اپنی خرابیوں کو نظر انداز کرتے ہوے ہر
انسان کہہ رہا ہے کہ زمانہ خراب ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہر انسان کے دل سے
انسانیت کا جذبہ و احساس ختم ہوتا جارہا ہے اور اگر ’’الف‘‘ سے انڈے اور
انگور کی جگہ ’’الف‘‘ سے ’’انسانیت‘‘ سکھا یا جاتا تو زیادہ بہتر تھا تاکہ
انسانیت دفن نہ ہوتی اور ہم حیوان نہ بنتے آج کے حالات دیکھ کر دکھ کہ ساتھ
لکھنا پڑتا ہے کہ انسان تو زندہ ہیں لیکن انسانیت حقیقی لفظوں میں مر چکی
ہے۔
سانحہ مری جہاں 23 قیمتی جانوں کا نقصان ہوا وہاں تو ریاست ، مری کی
انتظامیہ، ہوٹل مالکان اور وہا ں کی عوام میں احساس اور انسانیت کی کمی نظر
آئی ۔ اگر انتظامیہ مری میں پہلے اچھے انتظام کر لیتی تو یہ واقع نہ ہوتا
پر ہمارے ہاں تو حادثے کے بعد ہی سیکھا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں جب بھی
کوئی مصیبت آتی ہیں تو عوام کا ساتھ دینے کی بجائے مافیا سر گرم ہو جا تا
ہے اس طرح کا سامنا سیاحوں کو مری میں کرنا پڑا۔مری میں ہوٹل مالکان نے
مصبیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی سے کمروں کے کرایے میں اضافہ کر دیا
، 3000 والے کمرے کا کرایہ 50000 کردیا، جیسے ان لوگوں میں انسانیت ہی ختم
ہو گئی ہوں۔مری کی مقامی عوام نے بھی مشکلات میں پھنسے سیاحوں کی مجبوریوں
کا فائدہ اٹھایا، گاڑیوں کو دھکے دینے میں 1500 اور 3000 تک فی گاڑی پیسے
لیں ۔ مری میں کچھ مقامی لوگوں میں احساس اور انسانیت بھی نظر آئی ، کچھ
لوگوں نے برف باری میں پھنسے سیاحوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی اور گاڑیوں
میں پھنسے لوگوں کو کھانا بھی دیا۔ہمارے معاشرے میں جہاں مردہ ضمیر لوگ ہیں
وہاں کچھ زندہ ضمیر لوگ بھی ہیں جن میں ابھی تک احساس اور انسانیت بھی ہیں
۔
سانحہ سیالکوٹ میں مذہب کے نام پر ایک سری لنکن شہری کو قتل کردیا، اتنے
زیادہ ہجوم کے سامنے قتل کیاگیا سوائے ایک یا دو لوگ جو اس سری لنکن شہری
کو بچانے کی کوشش کررہے تھے باقی پورے ہجوم میں جیسے احساس اور انسانیت ختم
ہو گئی تھی۔ سانحہ ساہیوال بھی تو یاد ہوگا ، کیسے بچوں کے سامنے ان کے
والدین پر گولیا ں چلائی گئی جیسے کوئی جرم کیا ہو، گو لیاں چلانے والوں
میں جیسے انسانیت ہی نہ ہو۔ مجرم آج بھی آزاد پھر رہےہیں،
ہمیں سزا اور جزا کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا جب تک ان جیسے حیوانوں کو سزا
نہیں ملے گی یہ ایسے ہی آزاد گھومتے رہے گے کوئی بھی تعلیم ہمیں صرف شعور
دے سکتی ہے انسانیت نہیں سیکھا سکتی اندر کے حیوان کو صرف اور صرف سزا کا
خوف ہی مار سکتا ہے۔
اگر مذہب میں سے انسانیت اور اخلاقیات نکال دی جائے تو باقی صرف اللّه پاک
کی عبادات رہ جاتیں ہیں اور رب کائنات کے پاس اپنی حمدوثنا اور عبادات
کیلئے فرشتوں کی کوئی کمی نہیں اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے مگر دوسروں کے
لئے جینا سیکھیں اپنے آپ میں انسانیت کا جذبہ پیدا کریں اور یہ ہی اصل
زندگی ہے دوسروں کے لئے جینا ہی انسانیت کی خدمت ہے ۔انسان اپنے حسن و
اخلاق اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے بھی عوام میں بہت
مقبولیت حاصل کر لیتا ہے، پر امید انسان کی کامیابی کا راز پرسکون دماغ
ہوتا ہے اور پرسکون وہ ہوتا ہے جو انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ میری اللہ سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم لوگوں میں انسانیت اور احساس پیدا فرمائے اور
انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
|