قُرآن اور ذکرِ الیاس و اسرائیل !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 114 تا 138 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ آیات !!
ولقد
مننا علٰی موسٰی
و ھٰرون 114 ونجینٰھما
وقومھما من الکرب العظیم 115
ونصرنٰھم فکانواھم الغٰلبین 116 واٰتینٰہما
الکتٰب المستبین 117 وھدینٰہماالصراط المستقیم 118
وترکنا علیھما فی الاٰخرین 119 سلٰم علٰی موسٰی و ھٰرون 120
اناکذٰلک نجزی المحسنین 121 انھما من عبادناالمؤمنین 122 وان الیاس
لمن المرسلین 123 اذقال لقومهٖ الا تتقون 124 اتدعون بعلا وتذرون احسن الخٰلقین
125 اللہ ربکم و رب اٰبائکم الاولین 126 فکذبوه فانھم لمحضرون 127 الّا عباداللہ المخلصین
128 وترکنا علیه فی الاٰخرین 129 سلٰم علٰی الیاسین 130 اناکذٰلک نجزی المحسنین 131 انه من عبادنا
المؤمنین 132 وان لوطا لمن المرسلین 133 اذنجینٰه واھله اجمعین 34 الّا عجوزافی الغٰبرین 135 ثم دمرناالاٰخرین
136 وانکم لتمرون علیھم مصبحین 137 وبالیل افلا تعقلون 138
ہرتحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ ھم نے مُوسٰی و ھارون دونوں کے ساتھ مہربانی کی ھے ، دونوں کو ایک بڑے کرب سے نجات دی ھے ، دونوں کو اپنی کتابِ ھدایت دی ھے ، دونوں کو سیدھے راستے پر چلایا ھے ، دونوں کو اپنی امداد بھی دی ھے ، دونوں کے کارِ نبوت کو آنے والی قوموں کے لیۓ کارِ یادگار بنایا ھے اور دونوں کو ھم نے وہ جزاۓ خیر دی ھے جو ہمیشہ ہی ھم اپنے فرماں بردار بندوں کو دیتے رہتے ہیں ، مُوسیٰ و ھارون ھمارے مخلص بندوں میں ھمارے دو مخلص بندے تھے اور تاریخ کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ الیاس بھی ھمارے رسُولوں میں سے ھمارے وہ رسُول تھے جن کی دعوت کا اُس وقت چرچا ہوا تھا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تُم اللہ کو چھوڑ کر بعل نام کے جس بُت کی جو پُوجا کرتے ہو اُس پُو جا نے تمہیں اُس ہلاکت کا مُستحق بنا دیا ھے جو جلد ہی تُم پر آنے والی ھے اِس لیۓ تُم بعل کی غلامی سے نکل کر اللہ کی حفاظت میں آجاؤ تاکہ آنے والی خوفناک تباہی سے بچ جاؤ اور یاد رکھو کہ اللہ ہی تُمہارے آبا و اجداد کا پالنہار تھا اور اللہ ہی تُمہارا بھی پالنہار ھے لیکن اُس مُنکر قوم نے اُن کی تکذیب کی اور ھم نے اُس مُنکر قوم کو بھی سزا کے اُسی مقررہ مقام پر پُہنچا دیا جو پہلی مجرم قوموں کا پہلا مقامِ سزا ھے اور اُس قوم میں سے اُس قوم کے وہی افراد ھماری اِس سزا سے بچے رھے تھے جو ھمارے اُس نبی پر ایمان لاۓ تھے اور ھم نے مُوسٰی و ھارون کی طرح الیاس کے نقشِ قدم کو بھی بعد میں آنے والی قوموں کے لیۓ اُسی طرح نقشِ راہ بنا دیا ھے جس طرح کہ ھم ہمیشہ ہی اپنے صلاحیت کار بندوں کی صلاحیتِ کاری کو بعد میں آنے والی قوموں کے لیۓ نقشِ راہ بناتے رھے ہیں اور جس طرح مُوسٰی و ھارون ھمارے خالص بندوں میں سے دو دو خالص بندے تھے اسی طرح الیاس بھی ھمارے خالص بندوں میں سے ایک خالص بندہ تھا اور جس طرح الیاس ھمارے رسُولوں میں سے ایک رسُول تھا اسی طرح لُوط بھی ھمارے سَچے رسُولوں میں سے ھمارا وہ سَچا رسُول تھا جس کو اُس کے تمام اہلِ خانہ سمیت ھم نے ظالم لوگوں کے ظُلم سے بچالیا تھا سواۓ اُس ایک بڑھیا کے جو لُوط کے اُس زیرِ عذاب بستی سے نکلنے کے بعد اُن ظالم لوگوں کے پیچھے ساتھ رہ گئی تھی جن پر ھمارا عذاب نازل ہوا تھا لیکن تُم لوگ جو کبھی دن کو اور کبھی رات کو بھی ھمارے عذاب سے تباہ ہونے والی اُن بستیوں سے گزرتے ہو لیکن تُم لوگ آج بھی اُن تباہ حال بستیوں سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں پہلا مضمون مُوسٰی علیہ السلام اور ھارون علیہ السلام کے اِشتراکِ نبوت اور اشتراکِ کارِ نبوت کا وہ مضمون ھے جس مضمون میں اُن دونوں کی نبوت و دعوتِ نبوت کا ذکر ہوا ھے ، ہرچند کہ نزولِ وحی کے زمانے میں اہلِ زمین کی طرف اللہ تعالٰی کے ایک سے زائد ایسے نبی تو ضرور مبعوث ہوتے رھے ہیں جو اپنی الگ قوم اور اپنے الگ علاقے میں مامور ہوتے تھے لیکن ایک ہی زمانے میں ایک ہی کتاب کی ایک دعوت کے ساتھ ایک ہی قوم میں مبعوث ہونے اور ایک ہی دعوت دینے والے دو نبی صرف مُوسٰی علیہ السلام اور ھارون علیہ السلام ہیں جن کے اشتراکِ نبوت و کارِ نبوت کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے ، اٰیاتِ بالا میں دُوسرا مضمون الیاس علیہ السلام کی نبوت اور اُن کی دعوتِ نبوت کا وہ مضمون ھے جس مضمون کا پہلا حوالہ سُورَةُالاَنعام کی وہ اٰیت 85 ھے جس میں اسماۓ انبیاۓ کرام علیہم السلام کے ذکر میں الیاس علیہ السلام کا اسمِ گرامی آیا ھے اور اُن کی نبوت و دعوتِ نبوت کا دُوسرا حوالہ اٰیاتِ بالا کا یہ حوالہ ھے جہاں مُوسٰی و ھارون علیہما السلام کی دعوتِ نبوت کے بعد الیاس علیہ السلام کی دعوتِ نبوت کا ذکر کیا گیا ھے اور اٰیاتِ بالا کا تیسرا مضمون لُوط علیہ السلام کی دعوتِ حق کا وہ مُختصر سا مضمون ھے جو دعوتِ حق کے دوران پیش آنے والے اَحوال کی وہ تمثیل ھے جس تمثیل سے انسان کو یہ اَمر یاد دلانا مقصود ھے کہ حق کی دعوت میں جو بھی مُشکلات آتی ہیں وہ ہمیشہ ہی حق کی فتح پر مُنتج ہوتی ہیں لیکن اٰیاتِ بالا میں جو تین مضامین وارد ہوۓ ہیں اُن تین مضامین کا مرکزی مضمون یہی وہ وسطی مضمون ھے جو الیاس علیہ السلام کی دعوتِ حق کے بارے میں وارد ہوا ھے ، اِن تین مضامین میں سے پہلے مضمون کا تاریخی پس منظر یہ ھے کہ قُرآنِ کریم میں مُوسٰی علیہ السلام اور اُن کی تحریکِ آزادی کا جن 136 مقامات پر ذکر ہوا ھے اُن 361 مقامات میں سے 20 مقامات پر مُوسٰی کے ذکر کے ذکر میں یا قومِ مُوسٰی کے کسی بیان کے بیان میں اُن کے بھائی ھارون علیہ السلام کا ذکر ہوا ھے جس کی وجہ صرف یہ رہی ھے کہ دعوتِ حق کے بیشتر مواقع پر ھارُون علیہ السلام مُوسٰی علیہ السلام کے ساتھ شریکِ دعوت تو ہوتے تھے لیکن اِن بیشتر مواقع پر مُتکلم کے فرائض مُوسٰی علیہ السلام ہی اَنجام دیا کرتے تھے اور قُرآنِ کریم کا یہ واحد مقام ھے جہاں پر اللہ تعالٰی نے اُن دونوں انبیاۓ کرام کی عظمت و شان اور اُن دونوں کے مرتبہ و مقام کو ترازُو کے تول کی طرح ایک برابر بیان کرکے مُوسٰی علیہ السلام کی اُس سر پھری قوم کو یہ سمجھایا ھے کہ جس طرح مُوسٰی علیہ السلام کی اتباع اُن کی اُمت کے لیۓ اَمرِ لازم ھے اسی طرح ھارون علیہ السلام کی اتباع بھی اُن کی اُمت پر اَمرِ لازم ھے کیونکہ یہ دونوں بھائی اللہ تعالٰی کے نبی ہیں ، دونوں ایک کتاب کے حامل ہیں ، دونوں ایک ھدایت کے عامل ہیں اور دونوں کی منزل و راہِ منزل بھی ایک ھے اِس لیۓ دونوں کی اتباع لازم ھے اور الیاس علیہ السلام کی دعوتِ حق کا تاریخی پس منظر یہ ھے کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد جب اُن کی سلطنت اُن کے بیٹے رَحُبعام کی بد انتظامی کے باعث تقسیم ہوئی تھی تو اُس کا ایک حصہ آلِ داؤد کے پاس چلا گیا تھا جو بیت المقدس اور جنوبی فلسطین کے علاقے پر مُشتمل تھا اور اُس کے دُوسرے حصے پر اسرائیل نام کی ایک ریا ست قائم ہوئی تھی جو شمالی فلسطین کے اُن علاقوں پر مُشتمل تھی جن کا دارالخلافہ سامریہ تھا لیکن اسرائیل کی یہ نو زائدہ ریاست قائم ہونے کے فورا بعد ہی کُچھ ایسے سیاسی بگاڑ کا شکار ہوگئی کہ اِس میں جلد ہی ظلم و ستم کا اتنا خوفناک دور دورہ ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے بادشاہ اخی اَب نے اپنے دینی عقائد کا کوئی خیال کیۓ بغیر ہی اپنی کُچھ اَنجانی سیاسی مصلحتوں کی بنا پر اُس زمانے کے مقام صیدا اور موجودہ زمانے کے لبنان کے ایک مُشرک بادشاہ کی ایک مُشرک بیٹی ایزبل سے شادی رچالی تھی جس نے اُس اسرائیلی بادشاہ کو اپنی زُلفِ شرک کا اسیر بنا کر اُس شرکِ جلی پر لگایا لیا تھا جس شرکِ جلی کی بنا پر اسرائیل کی اُس نو زائدہ سلطنت میں اُس قدیم تاریخی بُت بعل کی پرستش ہونے لگی تھی جس بُت کو کوئی سورج دیوتا تو کوئی چاند دیوتا سمجھتا تھا ، کوئی مُشتری دیوی یا زُہرہ دیوی کہتا تھا تو کوئی اِن کو اِن دیوی دیوتاؤں کا ایک مشترکہ دیوتا سمان سمجھتا تھا اور اللہ تعالٰی نے اُس مُشرک اسرائیلی سلطنت کی ھدایت کے لیۓ الیاس علیہ السلام کو اُس میں مبعوث فرمایا تھا ، الیاس علیہ السلام کا زمانہ عیسٰی علیہ السلام کے زمانے سے 875 سال قبل اور محمد علیہ السلام کے زمانے سے 1445 سال قبل کا زمانہ ھے ، اسرائیلی سلطنت کے لوگوں نے ابتدا میں الیاس علیہ السلام کی جتنی شدت کے ساتھ مخالفت کی تھی بعد ازاں وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ اُن کے عقیدت مند بھی ہوگۓ تھے یہاں تک اُن کی وفات کے بعد اُنہوں نے مشہور کردیا تھا کہ الیاس علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر زندہ اُٹھا لیا ھے اور چونکہ پیروانِ مسیح علیہ السلام اور پیروانِ مُوسٰی علیہ السلام کے درمیان شدید دینی اختلاف موجُود تھا اِس لیۓ پیروانِ مسیح علیہ السلام نے بھی پیروانِ مُوسٰی علیہ السلام کے مقابلے میں مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اُٹھاۓ جانے کا اعتقاد قائم کر لیا اور جو اِس خیال سے مان بھی لیا گیا کہ اگر الیاس علیہ السلام آسمان پر زندہ اُٹھاۓ جا سکتے ہیں تو مسیح علیہ السلام بھی آسمان پر زندہ اُٹھاۓ جا سکتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558033 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More