نجاتِ یُونس و نجاتِ قومِ یُونس !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 139 تا 160 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !!
وان
یونس لمن
المرسلین 139
اذ ابق الٰی الفلک
المشحون 140 فساھم
فکان من المدحضین 141
فالتقمه الحوت و ھو ملیم 142
فلولاانه کان من المسبحین 143 للبث
فی بطنهٖ الٰی یوم یبعثون 144 فنبذنٰه بالعرآء
وھو سقیم 145 وانبتناعلیه شجرة من یقطین 146
وارسلنٰه الٰی مائة الف او یزیدون 147 فاٰمنوافمتعنٰھم الٰی
حین 148 فاستفتھم الرب البنات ولھم البنون 149 ام خلقنا
الملٰئکة اناثا وھم شٰھدون 150 الاانھم من افکھم لیقولون 151 ولد اللہ
وانھم لکٰذبون 152 اصطفی البنات علی البنین 153 مالکم کیف تحکمون 154
افلاتذکرون 155 ام لکم سلطٰن مبین 156 فاتوابکتٰبکم ان کنتم صٰدقین 157 وجعلوا
بینه وبین الجنة نسبا ولقد علمت الجنة انھم لمحضرون 158 سبحٰن اللہ عما یصفون 159
الّا عباداللہ المخلصین 160
اے ھمارے رسُول ! ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ یُونس ھمارے رسُولوں میں سے وہ ایک ہی رسُول تھے جو اپنی قوم پر ھمارے عذاب کی خبر آنے کے بعد اپنی بستی سے نکل کر ایک کشتی پر سوار ہوۓ تھے اور پھر قرعہ اندازی میں اپنی جان ہار کر سمندر میں گر گۓ تھے اور سمندر میں گرنے کے بعد مچھلی کے پیٹ میں جا پُہنچے تھے ، اگر مچھلی کے پیٹ میں جاکر وہ اپنی عقلی و عملی صلاحیت کے مطابق حرکت و عمل نہ کرتے تو قیامت تک وہی مچھلی اُن کی قبر بنی رہتی لیکن وہ اپنے ذہن کی کامل آمادگی کے ساتھ اللہ کو یاد کرنے کے علاوہ حرکت و عمل بھی کرتے رھے اور وہ مچھلی بھی اللہ کے حُکم سے اُس کی حرکت و عمل کے ساتھ حرکت و عمل کرتی ہوئی ساحل تک جا پُہنچی اور اُس نے یُونس کو اِس حال میں خُشکی پر اُگل دیا کہ وہ تھک کر نڈھال ہو چکے تھے اور پھر اُس مچھلی نے اُن کو جس چٹیل میدان میں اُگلا تھا وہاں پر ھم نے وہ بیج اُگا دیاتھا جس کی تیزی سے بڑھنے والی بیل نے تیزی سے بڑھ کر اُن پر اپنا خوش گوار سایہ پھیلا دیا تھا اور جب وہ تندرست ہو کر چلنے پھرنے کے قابل ہوگۓ تو ھم نے اُن کو ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی اُس بَھری بُھری بستی میں بھیج دیا جس بستی کے لوگ اُن پر ایمان لے آۓ اور ایمان لانے کے بعد ھم نے ایک مقررہ مُدت تک اُن کو زندگی کی جُملہ آسائشوں کے ساتھ زمین میں زندہ رکھا ، آپ اپنی زمین اور اپنے زمانے کے اِن مُشرکوں سے پُوچھیں کہ تُم نے کس طرح یہ فرض کرلیا ھے کہ جس طرح تُمہاری آنگنائی میں انسانی صورت والے بیٹے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح اللہ کے آنگن میں بھی فرشتوں کی صورت والی بیٹیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، کیا تُم اُس وقت موجُود تھے جب اللہ نے اُن فرشتوں کی جنسی و جسمانی ماہیت تبدیل کی تھی ، تمہیں یہ کیا ہو گیا ھے کہ تُم اللہ کے بارے میں اِس طرح کے حُکم لگاتے ہو اور اِس قسم کے فیصلہ سناتے ہو ، کیا تُمہارے پاس اپنے اِس دعوے کے حق میں کوئی دلیل ھے جو تُم اِس تعلّی سے یہ دعوٰی کرتے ہو ، اگر تُم سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ اور اپنی ہی اُس کتاب میں لکھا ہوا یہ دعوٰی ہمیں دکھا دو اور اسی طرح اِن مشرکوں نے اللہ اور جنات کے درمیان بھی اپنی خیالی قرابت داری کا ایک بے بُنیاد اعتقاد قائم کیا ہوا ھے حالاں کہ جنات یہ بات اِن سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے بارے میں یہ بیہودہ اعتقاد قائم کرتے ہیں اُن کو اُن کی اُس دائمی سزا گاہ میں حاضر کیا جاتا ھے جہاں اُن کو وہ دائمی سزا دی جاتی ھے جس سے صرف وہی لوگ بچ پاتے ہیں جو اُس سزا گاہ میں جانے سے پہلے ہی اپنے اِس مُشرکانہ اعتقاد سے تائب ہوجاتے ہیں اور یقین جانو کہ اللہ کی ذات تو اِن مُشرکوں کے اِن مُشرکانہ خیالات سے بہت ہی بلند ذات ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں یُونس علیہ السلام کی نبوت کا جو اَحوال بیان ہوا ھے اُس اَحوال کا کُچھ اَحوال ھم نے سُورَہِ یُونس کے آغازِ کلام میں ، کُچھ اَحوال سُورَہِ یُونس کی اٰیت 96 تا 103 میں اور کُچھ اَحوال سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 87 و 88 میں بیان کر دیا ھے اور جس مقام پر ھم نے جو اَحوال بیان کیا ھے اُس مقام پر وہ اَحوال ایک مُفصل اَحوال ھے اور اِس مُفصل اَحوال کے تیسرے مقام پر ھم نے 1891 ء کے ایک تحقیقی حوالے سے اہلِ تجدد کے اِس سوال کا بھی جائزہ لیا ھے کہ ایک انسان کے مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے اور اُس کے زندہ بچ جانے کا کتنا امکان ہوتا ھے اور اِس خاص حوالے سے ھم نے فاک لینڈ کے اُس جوان کا بھی حوالہ دیا ھے جو whale مچھلی کے شکار کے دوران سمندر میں گر کر ایک whale مچھلی کے پیٹ میں چلا گیا تھا اور جب وہ مچھلی پکڑی گئی تھی تو وہ نو جوان کئی دن تک اُس مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد انتہائی غیر متوقع طور پر زندہ و سلامت بر آمد کر لیا گیا تھا اور صرف دس دن کے علاج کے بعد تندرست ہو کر معمول کے مطابق اپنے معمول کے کام اَنجام دینے لگا تھا ، پھر اسی فاک لینڈ میں ایسا ہی ایک اور واقعہ 19 58 ء میں بھی پیش آیا تھا جس میں whale کے شکار کے دوران جہاز کا ملاح بارکلے سمندر میں گر گیا تھا اور اتفاق سے جب اُس کو نگلنے والی مچھلی پکڑی گئی تھی تو وہ بھی اُس کے پیٹ سے زندہ سلامت نکال لیا گیا تھا اور دو ہفتے کے علاج بعد اُس نے یہ بیان دیا تھا کہ جب میں سمندر میں گرا تھا تو مُجھے اپنے قریب ہی پانی میں ایک سرسراہٹ سی محسوس ہوئی تھی جو اُس مچھلی کی دُم کی آواز تھی اور اِِس کے کُچھ دیر بعد مُجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ میں ایک تنگ اور تاریک راستے سے گزر رہا ہوں جس میں بہت زیادہ پھسلن ھے اور اِس کے بھی کُچھ دیر بعد میں نے یہ محسوس کیا تھا کہ میں ایک کُھلی جگہ پر ہوں اور میرے ارد گرد نرم اور چکنی دیواریں کھڑی ہیں لیکن جب میں نے اُن دیواروں کو چُھو کر دیکھا تھا تو مُجھ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا تھا کہ میں whald مچھلی کے پیٹ میں ہوں جہاں پر روشنی تو نہیں تھی لیکن میں آسانی سے اُس میں سانس لے سکتا تھا اور ہر سانس کے ساتھ مُجھے اپنے اندر ایک گرمائش سی جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی جس سے میں اپنے اندر کمزوری محسوس کرنے لگا تھا اور اُس کمزوری کا مقابلہ کرتے کرتے اپنے حواس سے بے حواس ہو گیا تھا اور اَب آپ لوگوں کو دیکھ کر مُجھے اپنے زندہ ہونے کا یقین ہوا ھے ، اِن واقعات سے معلوم ہوتا ھے کہ یُونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں جانا اور زندہ رہنا اور پھر مچھلی کے پیٹ سے زندہ و سلامت باہر آنا ایک ناقابلِ تردید اور ایک قطعی و یقینی واقعہ ھے ، اِس واقعے کا مرکزی خیال کوئی معجزاتی عمل نہیں ھے بلکہ انسان کا ذات کا وہ ذاتی عمل ھے جس میں انسان اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھ کر اپنے خلق و مالک سے مدد مانگتا ھے اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی عقلی و عملی جد و جھد بھی جاری رکھتا ھے ، کوینز کالج آکسفورڈ کے ڈاکٹر امروز جان ولسن نے اِس کے بارے میں ایک ریسرچ پیپر بھی شائع کیا ھے جس میں اُس نے لکھا ھے کہ اِس بڑی مچھلی کے پیٹ میں انسان کے سانس لینے کے لیۓ انسان کی ضرورت سے زیادہ ہوا موجُود ہوتی ھے اور اِس کے پیٹ کا درجہ حرارت 201 ڈگری فارن ہائٹ ہوتا ھے جو کہ انسان کے لیۓ عام بخار کا درجہ حرارت ہوتا ھے اور ایم ڈی پال نے بھی اِن تمام امور کی تصدیق کی ھے ، اِن دنوں یہ دونوں تاریخی واقعات یُو ٹیوب کے ( HASi TV ) چینل پر بھی موجُود ہیں ، یُونس علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کے بارے میں آنے والے اِس قُرآنی مضمون کے بعد ھم اِس سُورت کی اٰیت 89 میں وارد ہونے والے اُس لفظِ { سقیم } کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں جس کا معنٰی قُرآن نے اِس سُورت کی اٰیت 145 میں تھکان مُتعین کیا ھے اور قُرآن کے اُس معنی کے مطابق سقیم وہ انسان ہوتا ھے جو مُسلسل کام کرتے ہوۓ تھک جاتا ھے اور تھکا دینے والے اُس کام سے فارغ ہوتے ہی وہ تھکاوٹ سے نڈھال ہو کر گر سا جاتا ھے جیساکہ یُونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں مسلسل حرکت و عمل کرتے ہوۓ جب اُس مچھلی کے پیٹ سے باہر آۓ تھے تو جسم پر تازہ ہوا کا پہلا جھونکا محسوس کرتے ہی نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے تھے لیکن امام بخاری نے اپنی کتابِ بخاری میں ابراہیم علیہ السلام پر بُہتان بازی اور کلوخ اندازی کرنے کے لیۓ لفظِ سقیم کا معنٰی بیماری مُتعین کیا ھے اور سقیم کا یہ معنٰی مُتعین کرنے کے بعد امام بخاری نے ابراہیم علیہ السلام پر بیماری کا بہانہ بناکر جھوٹ بولنے کا وہ بُہتان باندھا ھے جس کا ھم نے ذکر کیا ھے اور اِن سطور سے قبل امام بخاری نے سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 63 کے الفاظ { بل فعله کبیرھم ھٰذا فاسئلوھم ان کانو ینطقون } سے بھی ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ سیرت پر دُوسری بار ایک دُوسرا جھوٹ بولنے کا بُہتان لگایا ھے اور اُن کے اِس جھوٹے خیال کے مطابق ابراہیم علیہ السلام کا تیسرا جھوٹ وہ جھوٹ تھا جس میں انہوں نے اپنے سفرِ ہجرت کے دوران ایک ظالم بادشاہ کے سامنے اپنی بیوی سارہ کو اپنی بہن ظاہر کیا تھا اور امام بخاری نے اپنی اِن ہی تین خیالی باتوں کو بُنیاد بنا کر اپنے خیال سے یہ حدیث وضع کی ھے کہ { لم یکذب ابراھیم الا ثلٰث کذبات } یعنی ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اگرچہ بہت سارے جھوٹ منسوب ہوۓ ہیں لیکن آپ نے اپنی ساری زندگی میں صرف وہی تین جھوٹ بولے ہیں جو اُن کی محدثانہ خیال آرائی کے مطابق نبی علیہ السلام کی حدیث سے ثابت ہوۓ ہیں ، سفرِ ہجرت کے دوران ظالم باشاہ کے سامنے بیوی کو بہن کہنے کا امام بخاری نے ابراہیم علیہ السلام پر جو بُہتان باندھا ھے اُس بُہتان پر اُن کے سفرِ ہجرت کی روایات کے ضمن میں تفصیل سے گفتگو ہوچکی ھے تاہم ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں امام بخاری کا دفاع کرنے والے اَزلی و اَبدی جاہل یہ دلیل دیا کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا ظالم بادشاہ تھا جو اپنے ملک میں آنے والی اجنبی لوگوں کی بیویوں پر قبضہ کرلیتا تھا لیکن اگر اُن کی بہن ہوتی تھی تو وہ اُس سے کوئی تعرض نہیں کرتا تھا ، اہلِ روایت کی یہ تاویل احمقانہ ھے اِس پر کُچھ کہنے کی ضرورت نہیں ھے اور اسی طرح امام بخاری نے سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 63 کے حوالے سے ابراہیم علیہ السلام پر جو بُہتان تراشی کی وہ بھی ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اُن کے بُغضِ باطن کی ایک کُھلی دلیل ھے کیونکہ اٰیت ھٰذا میں یہ بات واضح طور پر موجُود ھے کہ ابراہیم علیہ السلام کا بُت پرستوں کو دیا گیا یہ جواب ایک الزامی جواب ھے اور الزامی جواب وہ جواب ہوتا ھے جس جواب میں سوال کرنے والے کا سوال ہی اِس استدلال کے ساتھ اُس کے مُنہہ پر مار دیا جاتا ھے کہ اُس کا مُنہہ کُھلے کا کُھلا رہ جاتا ھے اور اُس کا اُس سے ہر گز کوئی جواب نہیں بن پاتا ھے ، ابراہیم علیہ السلام نے بھی یہی الزامی جواب دیا ھے کہ تُم مُجھ سے جو بات پُوچھتے ہو وہ بات اپنے اُس بڑے معبود سے کیوں نہیں پُوچھتے ہو جو تُمہارا سب سے بڑا حاجت روا ھے ، اگر وہ تُمہاری حاجت روائی نہیں کر سکتا تو کم از کم اتنا تو تمہیں ضرور بتا دے کہ تُمہارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ھے اور اِس بڑے معبود کو سلامت کیوں چھوڑ دیا ھے اور حقیقت تو یہ ھے کہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر امام بخاری کے زمانے تک ابراہیم علیہ السلام کا یہ الزامی جواب ہر انسان کو ایک الزامی جواب ہی نظر آیا ھے اور انسانی تاریخ کے اِس سارے عرصے میں امام بخاری ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کو ابراہیم علیہ السلام کا دیا ہوا یہ الزامی جواب ایک جھوٹ نظر آیا ھے ، جہاں تک سقیم بمعنی بیماری یا سقیم بمعنی تھکان کا تعلق ھے تو بیماری انسانی جسم پر چند جانی پہچانی علامات کے ساتھ بتدریج آتی ھے اور اُن علامات سے انسان جانتا ھے کہ وہ بیمار ہو رہا ھے یا بیمار ہوچکا ھے لیکن تھکن انسانی مصروفیت کا ایک ایسا مُبہم احساس ھے جس سے نکلنے اور سکون کی سانس لینے کے بعد ہی انسان کو یہ ادراک ہوتا ھے کہ وہ اپنے اِس کام سے تھک کر نڈھال ہو چکا ھے جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو آسماں بینی اور ستارا شناسی کے ایک طویل دورانیۓ کے بعد یہ احساس ہوا تھا کہ وہ تھک کر نڈھال ہو چکے ہیں اور یا پھر یُونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ کی آلائشوں سے لڑتے لڑتے زمین پر آنے کے بعد احساس ہوا تھا کہ وہ اتنے تھک چکے ہیں کہ اَب اُن کو زمین پر گر کر خود کو خُدا کے سپرد کر دینا چاہیۓ ، اِس مقام پر ھم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ وہ انسان بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جو تھکاوٹ کی اِس انتہائی کیفیت سے سلامتی کے ساتھ نکل آتے ہیں ورنہ تو تھکاوٹ کا ایک عالَم تو وہ عالَم ہوتا ھے جس سے انسان کا واپس آنا مُمکن ہی نہیں ہوتا جیسا کہ امام مسلم کا واقعہ ھے کہ وہ ایک رات مطالعہ فرما رھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پہلو میں پڑی ہوئی کھجُور کی ایک بوری سے کھجُوریں بھی نکال کھا رھے تھے اور اِس محویت و تھکاوٹ کے دوران اُن کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب اُن کا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر گیا ھے اور کب اُن کا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھرنے کے بعد پَھٹ چکا ھے اور پیٹ پھٹنے سے اُن کا انتقال ہو چکا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557894 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More