حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے فضائل ومناقب

 کتاب اوراق غم کے صفحہ ۲۲۰ پرلکھاہے کہ حضرت اابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کااسم شریف عبدالکعبہ تھا ۔جب آپ رضی اﷲ عنہ شرف اسلام سے مشرف ہوئے توآپ کااسم شریف عبداﷲ رکھاگیااورابوبکرصدیق کنیت ۔علاوہ اس کے عتیق، صدیق آپ نے لقب پائے۔صدیق کالقب حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کوعطافرمایا۔

آپ رضی اﷲ عنہ نے کبھی بت کوسجدہ نہ فرمایا۔امام احمدقسطلانی شرح بخاری میں نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ کی عمرمبارک ۴ سال کی ہوئی توآپ کے باپ عثمان جن کی کنیت ابوقحافہ ہے انہیں بت خانہ میں لائے اورکہا یہ ہیں تمہارے بلندوبالاخداانہیں سجدہ کرو۔ آپ بت کے سامنے تشریف لے گئے اورفرمایامیں بھوکاہوں مجھے کھاناکھلادے،میں ننگاہوں مجھے کپڑے پہنا،جب کوئی جواب نہ ملااورحقیقت میں جواب ملتابھی کیاکیونکہ بت توبت ہی ہوتاہے۔ آپ نے فرمایا میں پتھرمارتاہوں اگرتوخداہے تواپنے آپ کوبچا۔اس کاجواب بھی نہ ملاتوآپ نے ایک پتھراٹھاکراس کے مارا، وہ بت گرگیااورقوت خدادادکی تاب نہ لا سکا ۔ باپ نے یہ دیکھ کرصدیق پرغصہ کیااوررخسارمبارک پرتھپڑامارا۔پھروہاں سے آپ کی والدہ کے پاس لائے اورتمام واقعہ گزشتہ سنایا ۔انہوں نے کہا اسے اس کے حال پرچھوڑدو۔جب یہ پیداہواتھا توغیب سے میرے کان میں یہ آوازیں آئیں تھیں۔ اے اﷲ کی سچی لونڈی تجھے اس آزادبچے کی بشارت ہو جو آسمانوں میں صدیق ہے اورمحمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کایارورفیق ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ وہ محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )کون ہیں اورکیامعاملہ ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کوحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیاتوروح الامین درباروالامیں حاضرہوئے اورعرض کی ابوبکرکی ماں نے سچ کہا اوروہ صدیق ہیں۔ آپ جب سے شرف خدمت سے مشرف ہوئے کبھی جدانہ ہوئے یہاں تک کہ بعدوفات بھی پہلوئے محبوب میں آرام فرماہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ ایک بارحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں دست اقدس میں حضرت صدیق کاہاتھ لیااوربائیں میں حضرت عمرکاہاتھ ۔ پھر فرمایااسی طرح ہم قیامت میں اٹھیں گے۔ امام ابن عساکرامام زہری سے راوی ہیں صدیق کے فضائل سے ایک یہ ہے کہ انہیں کبھی وجودالٰہی میں شک نہ ہوا ۔ امام ابوالحسن اشعری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ابوبکرہمیشہ منظورنظرالٰہی رہے۔

امام ابوحنیفہ النعمان رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ابوبکرصدیق آزادبالغ مردوں میں پہلے مسلمان ہیں اورعلی نوعمروں میں اورخدیجہ اسبق الایمان عورتوں میں ہیں۔ حضرت صدیق خدمت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں قبل ازاسلام بھی اکثرحاضرہوتے تھے۔ حتیٰ کہ حضرت خدیجہ عقدمیں بھی آپ ہی زیادہ کوشاں رہے۔آپ کے اسلام کاقصہ یوں ہے کہ ایک بارآپ نے بہ نیت تجارت سفرشام کاعزم کیا۔ وہاں جب پہنچے توایک خواب دیکھا کہ آسمان سے بام کعبہ پر ایک نورگرا۔ پھروہ نوراہل مکہ کے گھروں میں جانے لگا۔آپ کے گھرمیں جب وہ آنے لگاتوآپ نے دروازہ بندکردیااورآنکھ کھل گئی۔صبح اس کی تعبیرلینے ایک یہودی عالم کے پاس گئے ۔اس نے ٹال دیا۔آپ خاموش ہوگئے مگرتسکین نہ ہوئی۔ دوبارہ پھرشام تشریف لے گئے توراہ بحیرہ راہب سے ملاقات ہوئی آپ نے وہ خواب اس سے کہا۔اس نے کہایہ خواب بہت مبارک ہے تم کون ہواورکہاں سے آئے ہو۔آپ نے اپناسب حال کہہ دیابحیرہ نے کہا تمہارے ملک میں ایک رسول الٰہی تشریف لائے گا۔ زندگی میں تم اس کے وزیراوربعدوفات اس کے جانشین بنوگے۔ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق کوتبلیغ اسلام فرمائی توصدیق نے نبی ہونے کاثبوت مانگاآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایابحیرہ راہب سے جوخواب دیکھ کرتم نے جواب لیاتھا میں اس کی تعبیرہوں صدیق یہ سنتے ہی جھک گئے اورکلمہ شہادت پڑھ کردائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامیں نے جس کواسلام کی طرف بلایااس نے کچھ نہ کچھ ترددکرکے قبول اسلام کیامگرصدیق نے علی الفورتصدیق کرلی۔ آپ کے پاس وقت قبول اسلام چالیس ہزاردرہم نقد تھے آپ نے وہ سب مسلمانوں پرنچھاورفرمائے ۔یہی وجہ ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامجھے کسی کے مال نے اتنافائدہ نہ پہنچایاجوفائدہ ابوبکرکے مال سے پہنچا۔ بخاری و مسلم شریف میں یہی روایت ہے کہ مسلمانوں میں صدیق کے مال اوررفاقت کامجھ پربہت احسان ہے چنانچہ بلال حشی کوپنجہء امیہ بن خلف سے آپ نے چھڑایا علاوہ ازیں جس قدرنحیف ونزارمسلمان ظلم وستم قریش سے تنگ تھے آپ نے آزادکرائے۔آپ تبلیغ اسلام کے لیے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست فرماتے کہ کفارقریش کی ایذادہی کی کچھ پروانہیں۔ اعلانیہ عبادت کرناچاہیے اوربے دھڑک تبلیغ ہونی چاہیے۔ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحکم الٰہی صدیق کوخانہ کعبہ میں لائے آپ نے دیکھاکہ رؤسائے قریش جمع ہیں۔ آپ کھڑے ہیں اورخطبہ نہایت فصیح وبلیغ پڑھ کرتوحیدکی تعریف شرک وبت پرستی کی مذمت فرمائی۔ کفارقریش سنتے ہی جل گئے اورصدیق پربگڑکرجھپٹ پڑے۔ آپ کواس قدرماراکہ چہرہ زیبازردہوگیااورآپ بے ہوش ہوگئے۔ آپ کے اعزاواقرباگھرلائے بڑی کوششوں سے جب ہوش ہواتوشربت پیش کیافرمایامیں ہرگزشربت نہ پیوں گاجب تک شربت دیدارمحبوب سے سیراب نہ ہوجاؤں۔جب رات بہت گزر گئی راستہ کفارسے خالی ہوگیاتوصدیق کوپوشیدہ طورسے خدمت حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں لے کرپہنچے۔جب آپ نے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوصحیح وسالم دیکھ لیاتوفرمایالاؤاب شربت پی لوں گا۔ کیونکہ اب میری جان میں جان آئی۔

بخاری شریف میں حضرت عروہ بن زبیرسے روایت ہے کہ ایک روزحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نمازمیں مشغول تھے عقبہ بن ابی معیط خبیث نے ایک موٹی چادرحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے گلے میں ڈال کراس روزسے کھینچی کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاتنفس مبارک رکنے لگا۔صدیق دوڑے اور للکار کر فرمانے لگے۔ کیااس ہستی مقدس کومارناچاہتے ہوجوایک رب حقیقی کے حضورمیں سرنیازعالم جھکارہاہے اورباآنکہ وہ تمہیں روشن معجزات بھی دکھارہاہے۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301195 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.