تحریر:ڈاکٹر شمشاد اختر
بیوی کی ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمہ داری اور ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کا
انحصار اس بات پرہے کہ بیوی خود کو شوہر کے مزاج سے ہم آہنگ کرے ۔اگرچہ اﷲ
کی معصیت اور نا فرمانی میں اس پر شوہر کی اطاعت فرض نہیں تاہم بقیہ تمام
امور میں شوہر کی خوشنودی اور رضا میں ہی اﷲ کی رضا اور خوشنودی ہے ۔ شوہر
سارا دن مال و اسباب کی تلاش اور اس کے حصول میں مصروف رہتا ہے ۔ ہر طرح کے
معاشی اور معاشرتی حالات سے گزرتا ہے ۔سارے مہینے اور دن کی کمائی لاکر اس
کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے ۔اسے اپنی محبت اور خلوص کا کرکز بنا تا ہے ۔ گھر
کا سکون اور تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام برائیوں اور
تکلیفوں سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے ، ایسے میں عورت کا فرض ہے
کہ وہ بھی بھر پور محبت اور خلوص سے شوہر کے تمام احکامات بجا لائے۔ اﷲ کے
حکم کے مطابق میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں ۔موزوں اور اچھا لباس
ایک دوسرے کی عزت بڑھاتا ہے۔یعنی گھر میں اس کی مودت اور رحمت والا رویہ
شوہر کو معاشرے میں عزت اور اعتماد عطا کرتا ہے ۔
اﷲ رب العزت فرماتا ہے : ’’ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا
کردی ‘‘۔ ( الروم ،۳۰ : ۲۱) ضرورت صرف اس جذبے کو ابھارنے اورعمل کرنے کی
ہے ، بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی تعظیم و تکریم کرے ۔ اس کے ہر اعتماد پر
پوری اترے ۔اس کی ہر جائز خواہش پوری کرے ۔ازدواجی امور میں اس کی
فرمانبرداری کرے ۔اگر ازدواجی معاملات میں کسی وقت ساتھ دینے سے انکار کرتی
ہے تو نہ صرف گناہ ہے بلکہ بہت سی معاشرتی برائیوں کے پیدا ہونے کا موجب
بھی۔زیب و زینت کا اظہار نا محرم کے لئے کرنا گناہ ہے لیکن شوہر کے لئے
بیوی کے فرائض میں داخل ہے ۔بچوں کی بہترین تربیت کرے اور اپنے ہر عمل میں
اس بات کو ذہن میں رکھے کہ وہ یہ تمام کام اﷲ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کر
رہی ہے ۔ اس طرح اس کا ہر عمل عبادت بن جائے گا ۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’: عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران
ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے ۔‘‘( صحیح بخاری ، رقم :۸۵۳)دوراصل گھر
ہی کسی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتا ہے ۔اگر گھر درست ہو گیا تو سارا
معاشرہ صحیح ہو جائے گا ۔اگر گھر کا نظام ہی درہم برہم ہے تو معاشرے کی
اصلاح کی کوششیں بیکار ہیں ۔ آج مغربی تہذیب جس تیزی سے اپنے اخلاقی
دیوالئے کی جانب بڑھ رہی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ تمام تر سائنس اور
ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود اس کا گھریلو نظام تباہ ہو چکا ہے ۔ ۔مغربی
عورت اپنے مردوں ہی کی مہربانیوں کی بدولت گھر اور گھریلو ذمہ داریوں سے لا
تعلق اور بیزار ہو چکی ہے ۔ چراغ خانہ کی بجائے شمع محفل بن چکی ہے ۔ رفیقہ
حیات کے طور پر شوہر کی ہمدرد و غمگسار ہونے کو غلامی تصور کرتی ہے ۔ ۔بچوں
کی پیدائش اورتعلیم و تربیت کو سراسر وبال جان اور بوجھ تصور کرتی ہے اور
ہمہ وقت اس کوشش میں ہے کہ کیسے اس ناروا بوجھ سے نجات حاصل کی جائے ۔ ۔
شرم و حیا اور عفت و عصمت کو دقیانوسیت کا نام دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
مغربی تہذیب میں گھر اجڑ چکا ہے ۔اس وجہ سے نئی اور پرانی دونوں نسلیں بری
طرح ڈیپریشن ، فرسٹیشن اور متعدد ذہنی جسمانی اور اعصابی بیماریوں کا شکار
ہو چکی ہیں ۔
اسلام کی خوبی یہی ہے کہ اس نے اتنے بڑے معاشرے کی فلاح و بہبود ، تعمیر و
ترقی اور کامیابی و کامرانی کی بنیاد ایک چھوٹی سی اکائی یعنی گھر پر رکھ
دی ہے ۔اگر یہ چھوٹی سی اکائی مستحکم ہو جاتی ہے تو پورا معاشرہ مستحکم ہو
جاتا ہے اور اس اکائی کے استحکام کی نصف ذمہ دار اس نے ایک عورت کو بنایا
ہے ۔ عورت اپنی انفرادی حیثیت میں کل معاشرے کے استحکام اور اعلی اقدار کی
ذمہ دار ہے ۔ اور عورت یہ ذمہ داری ماں اور بیوی دونوں روپ میں نبھاتی ہے
۔کامیاب ازدواجی زندگی میں خانگی امور سے متعلق سلیقہ شعاری ، نظم و ضبط
اور صبر و تحمل کو بڑا دخل ہوتا ہے ۔ مرد اور عورت دونوں اس کے ذمہ دار
ہوتے ہیں اگر یہ معاملہ بگڑ جائے تو سب کچھ منتشر ہو جاتا ہے اور گھر کا
نظام بگڑے تو سارا معاشرہ ہی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔
ماں کے روپ میں یہ عورت کائنات ارضی کا حسن ہے ۔ ماں کی حیثیت میں اﷲ نے
عورت کو وہ شرف عطا فرمایا ہے کہ اولاد کی جنت یعنی اخروی ٹھکانہ اور
نعمتیں اس کے حساب و کتاب ،جزا و سزا سب ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ۔ یہ
وہ مقدس اور معزز رشتہ ہے جس نے اپنے اندر تمام کائنات کا حسن سمو دیا ہے
۔ماں اپنے دن رات کی محنت سے گھر کو رشک جنت بناتی ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت
ہے کہ جس فرد کا مقام و مرتبہ جتنا زیادہ بلند ہو گا اس کی ذمہ داریاں اور
فرائض بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے کیونکہ عہدہ در حقیقت ذمہ داری اور فرائض
کی نشاندہی کرتا ہے ۔اسلام نے بحیثیت ماں ، عورت کے درجات باپ سے تین گناہ
بلند کر کے درحقیقت اس کو بتا دیا کہ اسکے فرائض اور زمہ داریاں بھی باپ سے
زیادہ ہوں گی ۔ اسلامی معاشرے میں اس کردار بھی اتنا ہی زیادہ اہم ہو گا۔
ماں نسل انسانی کی تربیت کرتی ہے ، اگر وہ اعلی سیرت کی حامل ہو گی تو لا
محالہ اپنے بچوں کی بھی اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق تربیت کرے گی ۔
ایک مرتبہ حضور ﷺ اپنی جگر گوشہ سیدۃ نساء العالمین فاطمہ ؓ سے پوچھا ۔ اے
جان پدر!مسلمان عورت کے کیا اوصاف ہیں ؟ آپ ؓ نے نہایت ادب کے ساتھ جوابََا
عرض کیا ۔ ابا جان اسے چاہیے کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے ، اولاد
پر شفقت کرے ، اپنی نگاہ نیچی رکھے ،اپنی زینت چھپائے،نہ خود غیر کو دیکھے
نہ غیر اسے دیکھ پائے ۔حضور ﷺ اپنی عزیز بیٹی کا یہ جواب سن کربے حد خوش
ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ماں،عورت کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح پر
بھی خصوصی توجہ دے اور ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے ہوئے بھر پور اپنی زندگی
بسر کرے ۔
|