پھر صحافی کا خون رائیگاں جائے گا؟؟

محترم قارئین پاکستان میں ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے۔ یہ جنگ قلم اور تلوار کے درمیان، کیمرے اور بم کے مابین، مائک اور بندوق کی ، جس کی پہلی جھلک کل لاہورپریس کلب کے سامنے ایک نجی نیوز چینل کے صحافی کودوموٹرسائیکل سواروں نے موت کے گھاٹ اْتار دیا۔صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن صحافی پاکستان کا مظلوم ترین طبقہ بن چکے ہیں۔انہیں خصوصی نشانہ بنایاجارہا ہے۔آزاد صحافت کے چرچے عام ہیں مگر اہل قلم کو آزادنہ کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اہل صحافت نے پابندیوں، کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے۔ صحافت کا ایک پہلو چھپی چیزوں کو منظرعام پر لانا بھی ہے اس لئے بہت دشمن پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم قلم کاروں نے صحافیوں کے حقوق کیلئے کئی کالم لکھے مگرصحافیوں پرتشدد،قتل اوحقوق غصب ہونے کاسلسلہ نہ رکاصحافیوں نے قیام پاکستان سے استحکام پاکستان اپنی جدو جہد کو پاکستان بننے کے بعد ختم نہیں کر دیا بلکہ صحافیوں نے ہر دور کے آمر اور جمہوری حکمرانوں کو ان کی غلطیوں پر باز پرس کی اور تحریر و تقریر سے ان کی اور معاشرے کے عام آدمی کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا مگر صحافیوں کو ان کی بے لاگ خدمات کا کبھی بھی صلہ نہیں دیا جا سکایہی وجہ ہے کہ نیو یارک میں قائم آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی جماعت کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق سال 2010ء میں دنیا بھر میں 42 صحافی قتل کیے گئے جن میں پاکستان سر فہرست ہے۔ ایک اور صحافیوں کے حقوق کی علمبردار غیر سرکاری تنظیم جرنلسٹس ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق سال 2010ء میں پاکستان میں 12 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق سال 2002ء سے 2010ء تک41 صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیے گئے میڈیا کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے (آر ایس ایف) رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملکوں میں شامل ہے۔حکومت پر انصاف کی فراہمی میں سستی کا الزام عائد کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں سات رپورٹرز اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کردیے گئے تھے۔اس کے مقابلے میں دس صحافی شام میں ہلاک ہوئے، آٹھ فلپائن میں اور سات صومالیہ میں۔180 ملکوں کی پریس فریڈم انڈیکس میں سے پاکستان کو ایک سو اٹھاون واں ملک قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہید ہونے والے سات صحافیوں میں سے چار صحافیوں کی ہلاکتیں پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ہوئی تھیں۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق مقتول صحافیوں کی تعداد 94 ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا جا چکاہے۔صحافیوں کو درپیش خطرات اور عالمی و ملکی صحافتی تنظیموں کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار اور پاکستان کے زمینی حقائق اس با ت کا تقاضا کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور آنے والی حکومتیں پاکستان میں موجود صحافیوں کے حقوق کا نئے سرے سے تعین کریں اور صحافیوں کو درپیش خطرات سے بچانے کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ریاست اور ملک و قوم کے اس اہم ترین طبقے کی سیکورٹی کے لیے جلد از جلد اہم اقدامات کرنا پاکستان سمیت تمام عالمی برادری کی اولین ترجیحات میں ہونا چاہئے تاکہ معاشرے کا وہ اہم ستون جو معاشرے کی آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتا ہے اندھا ، بہرا اور خدانخواستہ مقتول ہونے سے بچ سکے۔صحافت بلا شبہ ایک عظیم اور سچی طاقت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح بھی صحافت کو عظیم منصب سمجھتے تھے۔ میڈیا اور صحافت ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کا مقصد حقیقت بیان کرنا ہے۔ میڈیا اور صحافیوں کو ا?ج کے جدید دور میں بھی حقیقت اور سچ لکھنے پر کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر کوئی صحافی سچ اور حق کیلئے قلم اٹھاتا ہے اس کا شمار مجاہدوں کی صفوں میں ہوتا ہے۔ آج کے دور میں دیکھا جائے تو ہر شخص سیاسی، معاشی اور مذہبی صورتحال کے بارے میں جانتا ہے یہ شعور عوام الناس کو میڈیا اور صحافیوں نے دیا۔آج کسی بازار یا دیہات میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو میڈیا کے نمائندے اور صحافی بروقت وہاں پہنچتے ہیں اور تمام تر صورتحال کو براہ راست نشر کر کے پاکستان کے عوام کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہیعلاقائی صحافیوں کو لاتعداد مسائل کا سامناہے ،میڈیا مالکان صحافیوں کو نمائندگی کا کارڈ جاری کرنے کے بعد فارغ ہوجاتے ہیں ،انھیں نہ تو تنخواہ دی جاتی ہے نہ دفتر کا کرایہ اور دیگر اخراجات دیئے جاتے ہیں اورنہ ہی حکومت ان صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224811 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.