کچھ لوگ خوف میں منزل یا رہنما بدل لیتے ہیں اور کچھ لوگ
لالچ میں آکر لیکن مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو نہ حالات کے جبر کے
سامنے جھکے اور نہ ہی کوئی دنیاوی لالچ ان کے پیروں کی زنجیر بنی، ایسے
لوگوں کو ہی نظریاتی کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں پر ہی تاریخ فخر کرتی ہے،
ورنہ میں میں اور بس میں والے تو ہر کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور ہمہ وقت واہ
واہ کروا کر آخرکار ادارے، محکمے، جماعت یا تنظیم پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
پاسبان بزمِ قلم کا سال 2021بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے، جس میں دخول اور خروج
کی گردانیں دہرائی جاتی رہیں۔ سال کے آغاز میں مرکزی کابینہ نے حلف برداری
کی تقریب میں شاہین کی سوچ اور شیخ چلی کے خواب سجا کر کارکنان پاسبان بزمِ
قلم کے سامنے رکھے۔ جب کچھ حسین خوابوں پر عملدرآمد ہونے لگا تو بد نظری کی
ہوا کا جھونکا ایسا لگا جس نے سب خوابوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور سب
بڑے سے بڑے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے لیکن شاعر کے یہ الفاظ دلی سکون کے
لیے مرہم پٹی بن جاتے ہیں:
خواب ادھورے سہی
خواب سہارے تو ہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں
دو سال کے تجربات کے بعد خلاصہ ہم نے یہ نکالا ہے کہ اس بے اصولی کی دنیا
میں اب ہمیں اصول پسند بن کر رہنا پڑے گا اور اب غلطی کی بالکل گنجائش نہیں
ہے، جب بھی کوئی غلطی کرتا ہے تو سب سے پہلے اس غلطی کرنے والے کو اس کے
بڑوں کی طرف سے جو سزا ملتی ہے وہ پہلی سزا ہوتی ہے اس کی آزادی کا چھیننا
یعنی اس کی آزادی چھین لی جاتی ہے، مثال کے طور پر اگر ایک طالب علم غلطی
کرتا ہے تو اس کی چھٹی بند کر دی جاتی ہے، گھر میں بچہ ادھر ادھر دوستوں
میں بیٹھنا شروع کرتا ہے تو اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگ جاتی ہے ۔
کوئی موبائل کا غلط استعمال کرے تو اس کے بڑے اس کی موبائل کی آزادی ختم کر
دیتے ہیں، اگر کوئی بڑا جرم کرے تو پولیس جیل میں بند کر دیتی ہے، جیل میں
بند عام قیدیوں کو بھی پہلے ہسپتال میں علاج کی سہولت مل جاتی تھی، قیدیوں
نے ہسپتالوں سے بھاگنا شروع کر دیا تو عام قیدیوں کی ہسپتال جانے کی آزادی
ختم ہوگئی۔اس طرح کی اور بہت ساری مثالیں مزید بھی ہیں اس لئے غلطیوں سے
اجتناب کرنا چاہیئے ۔
پوری کوشش کریں کہ ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر بے نتیجہ بحث مباحثہ کرنے کے
بجائے اردو ادب کے فروغ پر توجہ دیں۔خوب یاد رکھیں کے کسی بھی چیز کی تعمیر
کے لئے انرجی یعنی قوت جمع کرنی پڑتی ہے لیکن تخریب کے لئے چند لوگ ہی کافی
ہوتے ہیں۔ جماعت سے نکالے ہوئے لوگ تخریب کے راستے پر ہیں۔ عملی میدان میں
ان کی کارکردگی زیرو ہے جبکہ سوشل میڈیا پر وہ دن رات فتنہ پھیلانے کی کوشش
کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ تعمیری اور تنظیمی کاموں کے لئے ان کے پاس وقت
نہیں جبکہ اپنی شہرت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ہمہ وقت وہ بے چین رہتے
ہیں۔دوسری طرف ہم تعمیر کے راستے پر ہیں ہمیں اپنی اس پاسبان تنظیم کو
بلندیوں پر لے جانا ہے اس لئے ہمیں بہت بڑی قوت جمع کرنی ہے کارکن بنانے
ہیں، ہر صوبے میں یونٹ بنانے ہیں، کوئی بلاوجہ بھی ناراض ہو جائے تو اپنا
حق چھوڑ کر اسے منانا ہے۔ ہمیں بہت کام کرنا ہے کیونکہ وہ اپنی ذات کے لئے
کام کرنے والے لوگ ہیں اور ہم اپنی تنظیم کے لیے کام کرنے والے لوگ ہیں ۔ہم
تعمیر کے راستے پر ہیں ہم نے بہت سارے تلخ تجربوں سے یہ سیکھ لیا ہے کہ اب
غلطی کی گنجائش نہیں۔بقول چیئرمین پاسبان بزم قلم مدثر کلیم سبحانی :
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
اس وقت کچھ لوگ اردو ادب کو فروغ دینے والی تنظیم پاسبان بزمِ قلم سے بھی
لوگوں کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جماعت سے نکالے ہوئے یہ افراد
پرامن کارکنان کو اشتعال دلوا رہے ہیں؛ تاکہ کارکنان اشتعال میں آکر کوئی
سخت قدم اٹھائیں اور اس نئے سال کام کی رفتار رک جائے مگر مجھے امید نہیں ں
یقین ہے کہ سرفروش اور جانثار کارکن کسی منفی جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے
میں نہیں آئیں گے کیونکہ اب غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے ۔میری تمام تنظیمی
دوستوں سے درخواست ہے کہ پوری کوشش کریں کہ ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر بے
نتیجہ بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے تنظیمی کام پر توجہ دیں،انہیں عملی میدان
میں کارکنان مسترد کرچکے مگر وہ بڑی بے شرمی سے تنظیمی کارکنان سے بار بار
رابطہ کرتے ہیں لیکن ہم ایک خاص نظریہ سے کام کر رہے ہیں اور ہمارے کارکن
انہیں دھتکار دیتے ہیں مگر ان بے شرموں کو شرم نہیں آتی۔ خیر ہمیں تنظیمی
اور تعمیری کام کرنا ہے اور تنظیمی کام میں اس وقت سب سے اہم اور ضروری کام
سالانہ ممبر شپ مہم 2022 ہے یکم جنوری سے 15 فروری تک اس کی ہر ممبر اور
عہدیدار خوب مہم چلائیں سوشل میڈیا پر دعوتی ویڈیوز بنا کر بھیجیں، اپنے
اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس اور فیس بک کے ذریعے اس کی تشہیر کریں اور اپنے اپنے
علاقوں کے نوجوانوں کو اس کے اغراض و مقاصد کا تعارف کروا کر ان کو ترغیب
دیں الغرض عملی طور پر تنظیم کے ہاتھ مضبوط کریں اور اپنے اجتماعی ادھورے
خوابوں کی تکمیل کریں۔
|