کلاس فور ' کار خاص اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ "اللہ کے آسرے پر"

کہا جاتا ہے کہ "دا ڈیوے دا لاندے تیارہ وی "یعنی موم بتی کے نیچے اندھیرا ہی ہوتا ہے . خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاسٹل میں کتنے لوگوں کے کمرے ہیں ' اور اس میں کتنے ملازمین ایسے ہیں جن کے بچے ' داماد اور بھانجے یہاں پر کئی سالوں سے رہائش پذیر ہیں اور ہائوس رینٹ سے بھی ماشاء اللہ لے رہے ہیں 'کئی سالوں سے ہاسٹل کے کئی کمروں میں مقیم ان افراد کی رسائی پہلے بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کمائو پوت یعنی سوئمنگ پول تک تھی جہاں پر ایک مفتی کے فتوے کے مطابق صاحب لوگ روزانہ کی بنیاد پر اضافی رقمیں تنخواہ کے علاوہ بھی لیتے رہے حالانکہ یہ لوگ اس حدیث کو بھول گئے جس میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ جس کو ہم نے ذمہ داری دی اور اس کی اجرت مقرر کی ' اور اگر وہ اپنی مقررہ اجرت سے زیادہ لیتا ہے تو وہ حرام ہے.لیکن کیا حرام کیا حلال ' یہ پاپی پیٹ اور گھر کی ذمہ داریاں انسان کو بہت کمزور کردیتی ہی

پشتو زبان میں ایک کہاوت مشہور ہے چہ نوے تھانیدار دا تھانے دیوال لہ ھم منڈہ ورکوی ' یعنی تھانے آنیوالا نیا تھانیدار تعیناتی کے فوری بعد تھانے کے دیوار کو بھی دوڑ لگواتا ہے ' اللہ تعالی ہر ایک شخص کو تھانے کے دیواروں سے بچائے ' لکھنے کا آغاز اس کہاوت سے اس لئے کیا ہے کہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو کھیلوں کی وزارت کے انچارج وزیر بھی ہیں نے کم و بیش ایک ماہ قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں نئے ڈائریکٹر جنرل کو تعینات کیا ہے جو انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ سے آئے ہیں ' یہ الگ بات کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے ان کا تعلق پرانا ہی ہے کیونکہ وہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاسٹل میں پہلے بھی رہائش پذیر رہے اور اب ماشاء اللہ ڈائریکٹر جنرل تعینات ہونے کے بعد بھی رہائش پذیر ہوگئے ہیں.نئے ڈائریکٹر جنرل کی ہاسٹل میں رہائش سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وہ مختلف اوقات میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے گرائونڈ ز کے اچانک چکر لگاتے نظر آتے ہیں اور انہوں نے پشتو کہاوت کے مطابق " اہلکاروں سے دوڑیں لگوانی "شروع کردی ہیں مگر حیران کن طور پر ان کی یہ دوڑیں "کلاس فور" تک ہی محدود ہیں.اور ان کی قلم کی زد میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کلاس فور ملازمین ہی آرہے ہیں .جن کی روزی روٹی کا سلسلہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے لگا تھا .۔

یہ ٹھیک ہے کہ ان کلاس فور میں بعض ایسے ملازمین ہیں جو بڑے بڑے افسران کے "کار خاص" ہیں ' وہ کار خاص جنہوں نے اپنے نام پر کوارٹر لیکر افسران کو دئیے ہیں کیونکہ ان کا ہائوس رینٹ کم ہے اور افسران کا ہائوس رینٹ زیادہ ہے ' ان میں ایسے کلاس فور بھی شامل ہیں جنہوں نے گرائونڈز میں غیر قانونی طور پر دکانوں پر قبضہ کیا ہے اور انہیں مخصوص افسران کا تعاون حاصل ہے 'اور مال مفت میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی دکانوں میں وہ اپنی دکانیں چلا رہے ہیں کہنے کو تو ایسے کلاس فور بھی ہیں جن کے بچے کالجز میں پڑھ رہے ہیں مگر وہ بھی کوچز کی فہرست میں تنخواہیں لیتے رہے ہیں ایسے کلاس فور بھی ہیں جن کے عہدے کچھ اور ہیں مگر وہ صاحب لوگو ں کے ڈرائیور بنے ہوئے ہیں بعض کی رسائی کمپیوٹر سیکشن تک بھی ہے لیکن ایسے "کار خاص" کلاس فور کی تعداد کم ہیں مگران کی وجہ سے بہت سارے کلاس فور مفت میں رل ہے ہیں جس کی طرف نئے تعینات ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی نظر نہیں پڑی.۔

نظر پڑنے پر یاد آیا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے نئے ڈی جی کی نظریں ابھی تک سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے ہاسٹل پر نہیں پڑی ' شائد اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ "دا ڈیوے دا لاندے تیارہ وی "یعنی موم بتی کے نیچے اندھیرا ہی ہوتا ہے . خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاسٹل میں کتنے لوگوں کے کمرے ہیں ' اور اس میں کتنے ملازمین ایسے ہیں جن کے بچے ' داماد اور بھانجے یہاں پر کئی سالوں سے رہائش پذیر ہیں اور ہائوس رینٹ سے بھی ماشاء اللہ لے رہے ہیں 'کئی سالوں سے ہاسٹل کے کئی کمروں میں مقیم ان افراد کی رسائی پہلے بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کمائو پوت یعنی سوئمنگ پول تک تھی جہاں پر ایک مفتی کے فتوے کے مطابق صاحب لوگ روزانہ کی بنیاد پر اضافی رقمیں تنخواہ کے علاوہ بھی لیتے رہے حالانکہ یہ لوگ اس حدیث کو بھول گئے جس میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ جس کو ہم نے ذمہ داری دی اور اس کی اجرت مقرر کی ' اور اگر وہ اپنی مقررہ اجرت سے زیادہ لیتا ہے تو وہ حرام ہے.لیکن کیا حرام کیا حلال ' یہ پاپی پیٹ اور گھر کی ذمہ داریاں انسان کو بہت کمزور کردیتی ہیں.تبھی تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پریکٹس کیلئے آنیوالے افراد "صاحب لوگوں"کے ڈائریکٹ ڈرائیور بھی بن جاتے ہیں.۔حالانکہ نئے ڈائریکٹر صاحب یہاں لکھ بھی گئے ہیں کہ ہاسٹل میں فیملی لانا منع ہے لیکن شائد ایک ہی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے ایک ہی گھرانے کے لوگ شائد فیملی میں شامل نہیں ہوتے.

بات کلاس فور سے شروع ہوکر کہیں اور نکل گئی اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسے اہلکار بھی موجود ہیں جنکی ڈیوٹیاں دوسرے شہروں لگائی گئی ہیں اور انہیں تبادلے اسی بنیاد پر دئیے گئے تھے کہ سکیل دس سے سکیل سولہ تک انہیں براہ راست پہنچا دیا گیا بقول پشاور کے ایک گلوکار جنہوں نے "پیخور خو پیخور دے کنہ"یعنی پشاور تو پشاورگانا تھا بس ان اہلکاروں کو پشاورسے اتنی ہی محبت ہے اسی محبت کی بناء پر وہ اپنے متعلقہ سٹیشن پر ڈیوٹی دینے سے انکاری ہے اور کئی ماہ سے ڈیوٹی انجام نہیں دے رہے حالانکہ مستقل سرکاری ملازم ہے اور عوامی ٹیکسوں سے انہیں تنخواہیں بھی متعلقہ سٹیشن سے ہی ملتی ہیں لیکن باوجود تنخواہ بروقت لینے کے وہ اپنے متعلقہ سٹیشن پر ڈیوٹی دینے گریزاں ہیں ' کیا چارسدہ او رکیا کوہاٹ اس صوبے کا حصہ نہیں ' کیا وہاں کے سپورٹس کمپلیکس میں آنیوالے انسان نہیں ' کیا وہاں ممبران فیس ادا نہیں کرتے جو ان کی تربیت کیلئے تعینات ہونیوالے کوچز وہاں جانے سے انکاری ہے ' یہ وہ سوال ہے جو نئے تعینات ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل سے خود کو کرنے کی ضرورت ہے کیا ان کے قلم کا زور صرف کلاس فور پر چلتا ہے یا اپنے مستقل ملازمین جنہیں عوامی ٹیکسوں کا پیسہ تنخواہوں کی مد میں دیا جاتا ہے ان کے گریڈ زیادہ ہے اس لئے ان پر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کے قلم کا زور نہیں. ویسے یہ سوال وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان جو کھیلوں کے انچارج وزیر بھی ہیں سے بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ یا تو وزیراعلی صاحب جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں یا پھر وہ "اللہ کی آسرے پر ڈیپارٹمنٹ"کو چلا رہے ہیں.

اللہ کے آسرے پر چلنے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں انڈر 21 فیمیل کے مقابلے اپریل کے آخری ہفتے میں متوقع ہے یہ فیمیل مقابلے کیوں لیٹ ہوئے ' کس نے کرائے اور اس کے پیچھے مقاصد کیا تھے یہ تو الگ کہانی ہے لیکن اس کے پیچھے بھی ایک اور کہانی ہے او ر وہ کہانی ہے انڈر 21 مقابلوں کیلئے لئے جانیوالے سامان ' جو حال ہی میں بالی ووڈ کی گلوکارہ لتامنگیشکر کے بقول "نہ جانے کیا ہوا " کھیلوں کا سامان دوبارہ لینا پڑ رہا ہے سامان کی خریدار ی تو ایک مرتبہ ہوتی ہیں لیکن انڈر 21کیلئے سامان کی دوسری مرتبہ خریداری "دال میں کچھ کالا کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے" ' جس پر تحقیقاتی اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے

جاتے جاتے ایک مفت کا مشورہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو ' کہ " پیشو دا پیئو چوکیداری تہ مہ کینوے"یعنی بلی کو دودھ کی چوکیداری پر مت بٹھائیں ' ذرا پتہ کریں کہ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی دوکانوں سے کرایہ کتنا وصول ہوتا تھا اور کتنا جمع کیا جاتا تھا اور پھر ایک بڑے صاحب اسی ڈیپارٹمنٹ کے انٹی کرپشن والوں کی نظر میں آگئے تھے ' پھر"نہ جانے کیا ہوا" والا معاملہ ہوگیا اور فتووں پر چلنے والوں کے تعاون سے سٹور تک پہنچ گئی جہاں سے سامان خلائی مخلوق اٹھا کر "ہشتنگری " کے ایک مخصوص دکانوں تک پہنچاتے تھے اور اب وہ صاحب لوگوں سے فیسیں وصول کرنے میں لگ گئے ہیں ' اللہ خیر ہی کرے..
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418316 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More