تقریبا 9 ماہ بعد عدالت عظمیٰ نے 29 جنوری کو قا ضی
فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری
کردیا۔ عدالتِ عظمیٰ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے بیگم و
قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا ۔سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں
کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے
ہیں، اگر کوئی شہری پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے،
عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن یہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت
شیشے کے گھر جیسی ہے، ججز بڑوں بڑوں کے خلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔تفصیلی
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو اہم
ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے
میں کہا ہے کہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کابنیادی حق ہے، صرف جج
کی اہلیہ ہونے پر سیرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،
قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔تفصیلی فیصلے
میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ
کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایاجا سکتا۔عدالتِ
عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے مطابق بینچ کا اکثریتی فیصلہ
ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ تصور کیا جاتا ہے، جن ججز نے مرکزی کیس میں فیصلے
سے اختلاف کیا وہ نظرِ ثانی کیس میں فیصلہ حق میں دے سکتے ہیں، جج اپنے ہی
دیے ہوئے فیصلے کی نظرِ ثانی کیس میں تصحیح کر سکتے ہیں۔تفصیلی فیصلے میں
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں۔ان کے
ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل
کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جوڈیشل
کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہو گی، ایسا
بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بر
طرف ہو جاتے، جج کی بر طرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کے
حق میں بھی آ سکتی تھی۔برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو چکے ہوتے۔تحریری تفصیلی فیصلے میں سپریم
کورٹ نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل صدرِ پاکستان کی سفارش پر ججز کے
خلاف کارروائی کر سکتی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلِ خانہ کا
ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا، مرکزی کیس میں بھی جسٹس
قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا مکمل موقف نہیں سنا گیا تھا، کسی ایک
جج کے خلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔عدالتِ عظمیٰ
نے کہا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت
کوئی قانون سے بالا تر نہیں، کوئی بھی چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو
اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ
اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔عدالتِ عظمیٰ نے
تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف
بی آر کی رپورٹ تسلیم نہ کرتی، از خود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم
جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف
شکایت درج نہیں کرا سکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس قاضی فائز
عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی، سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات
کا حکم دینا غلط تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلوں سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بنایا گیا ریفرنس ہی غلط تھا۔کیونکہ نہ تو
حکومت وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کرپشن ثابت کرپائی اور نہ ہی بیگم
قاضی کی جائیداد کا براہ راست تعلق انکے خاوند سے ثابت کرپائی۔ یاد رہے
بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے نا صرف اپنی لندن جائیداد کی منی ٹریل بھی عدالت
میں پیش کی بلکہ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلہ جس میں مزید تحقیقات کے لئے FBR
کو کہا گیا تھا اس فیصلہ کو بھی نظر ثانی فیصلہ میں کالعدم قرار دلوایا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزاد اکبر اورفروغ نسیم
نے غیر قانونی ہدایات دیں اور وزیراعظم نے توثیق کی جسکے نتائج سنگین
ہوسکتے ہیں۔تفصیلی فیصلہ میں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے خلاف بہت ہی سخت
الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔بہرحال تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی شہزاد
اکبرکو جبری استعفیٰ لیکر فارغ کردیا گیا ۔ مگر فروغ نسیم تفصیلی فیصلہ پر
تنقید کے نشتر برساتے دیکھائی دے رہے ہیں۔یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپنے اثاثہ جات کی تفصیل نمایاں طور پر عوام
الناس کے لئے پیش کی ہوئی ہے۔جسکی تفصیل درج ذیل لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/press_release/Declaration_of_Assets_Mr_Justice_Qazi_Faez_Isa.pdf
حکومت وقت کی جانب سے احتساب کا نعرہ بُڑی طرح پٹ چکا ہے۔ جبکہ موجودہ دور
حکومت میں منظر عام پر آنے والے مالی اسکینڈلز چاہے وہ ادویات کرپشن ہو،
پٹرول، گندم، آٹا، چینی رنگ روڈ اسکینڈلز ہوں ان تمام اسیکنڈلز پر مٹی پاؤ
پالیسی کے تحت متنازعہ وزیر کوپہلی وزارت سے ہٹاکر دوسری وزارت سپرد کردی
گئی یا پھر وہ وزیر یا مشیر موصوف استعفیٰ دیکر بغیر کسی قانونی و احتسابی
کاروائی گھروں کو بھیج دیئے گئے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے حوالہ سے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ کرپشن رپورٹ بھی حکومتی آنکھیں کھولنے کے
لئے کافی ہے۔جسکے مطابق پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کی کرپشن
درجہ بندی117 سے بڑھ کر 140 تک ہوچکی ہے۔حکومت وقت کو اداروں کے درمیا ن
مزید محاذ آرائی سے بچنا چاہئے اور تمام تر توانائیاں عوام الناس کی فلاح و
بہبود کے کاموں میں صرف کرنی چاہئے۔اﷲ کریم پاکستان اور پاکستانیوں کے حال
پر رحم فرمائے۔ آمین
|