تحریر: روبینہ شاہین، لاہور
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
اس نظم میں علامہ اقبال نے ہمیں عورت کے حقیقی مرتبے اور مقام سے آگاہ کیا۔
عورت کا وجوددنیا کیلئے خوبصورتی کا باعث ہے اگر اس کا ساز زندگی میں شامل
نہ ہو تو ہمارے اندر سوز پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس کی پاکیزگی اور شرافت ثریا
سے بھی اونچی ہے جہاں شرافت پائی جاتی ہے اس کا مبلغ عورت کی ذات ہے لیکن
کیا ہم عورت کو معاشرے میں وہ مقام دیتے ہیں جس کی وہ حق دار ہے۔
ہم مرد اور عورت میں جو فرق سمجھتے ہیں وہ رکھتے بھی ہیں بلکہ ڈالتے بھی
ہیں۔ معاملہ خوراک کا ہو، معاملہ جائیداد کا ہو یا معاملہ تعلیم کا ہو، ہم
ہر جگہ عورت کو بیکار تصور کر دیتے ہیں۔ خوراک کا زیادہ اہم ضرورت مرد کو
ہوتی ہے حالانکہ بچے عورت پیدا کرتی ہے۔ جائیداد کا زیادہ حصہ اور حق مرد
کو دے دیا جاتا ہے حالانکہ کسمپرسی کی حالت عورت ہی گزارتی ہے۔ تعلیم کیلئے
زیادہ انویسمنٹ ہم لڑکوں پر کر دیتے ہیں ہمیں لڑکوں سے فائد چاہیے ہوتا ہے
لڑکیوں کو تعلیم کی ضرورت ہی نہیں تو انوسمنٹ کیسے کریں گے لیکن اگر یہی
کام کم تعلیم یافتہ عورت کسی مرد کے گھر کی زینت بنتی ہے تو کتنے مسائل
پیدا ہوتے ہیں۔
کبھی اس بات پر معاشرے میں غور کیا جاتا ہے عورت کو ایک کولہو کا بیل سمجھ
کر گھر کے کام کاج پر لگا دیا جاتا ہے اور جب نسل پیدا کرنے اور تعلیم و
تربیت کا وقت آتا ہے تو اسی عورت کو جاہل کہہ کر استحصال کیا جاتا ہے۔ اسی
عورت کو مرد بھی جاہل کہہ دیتا ہے اور اولاد بھی لیکن کیا کبھی یہ سوچا گیا
ہے کہ مرد تو صرف عورت کو سنبھالتا ہے یا ایک خاندان لیکن عورت تو ایک نسل
کی تربیت کرتی ہے اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ ہوگی تو وہ ایک نسل کی تربیت
کیسے کرے گی۔
بیٹا میٹرک پاس کرتا ہے تو باپ کا سینہ فخر سے تن جاتا ہے۔ لڑکی اگر میٹرک
میں ٹاپ بھی کر لے تو یہ کہہ کر تعلیم کی ڈگری پرے رکھ دی جاتی ہے کہ اس نے
کون سی نوکری کرنی ہے۔ تعلیم تو وہ زیور ہے جس کو کوئی چور بھی چرا نہیں
سکتا۔ چھوٹے شہروں اور گاؤں میں تو لڑکیوں کو سرے سے ہی تعلیم سے نابلد
رکھا جاتا ہے نہ تعلیم ہو گی نہ شعور ہو گا اور نہ زندگی کے حقوق کی آگاہی
عورت کو ملے گی۔ عمر کے کئی پہر بیت جاتے ہیں اسی کسمپرسی کی چکی میں پستے
پستے حالانکہ عورت کیلئے تعلیم ایک بنیادی جز ہے۔ عورت کو تعلیم کے زیور سے
بہرہ ور کرنا اپنی نسل کو بہرہ ورکرنا ہے جو عورت خود تعلیم اور تربیت اور
شعور سے بہرہ ور نہیں ہو گی وہ اگلی نسل کی تربیت کیا کرے گی۔
ضرورت ہے ہر دور کی کہ عورت تعلیم یافتہ ہو تاکہ آنے والی نسلوں کی پرورش
صحیح طریقے سے انجام دی جا سکے جو مرد خود عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہوتے
ہیں وہ خود ہی غیر تعلیم یافتہ اور جاہل عورت کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے۔
باشعور اور تعلیم یافتہ عورت ہی معاشرے کا اصل حسن اور خوبصورتی ہے۔ بیٹیوں
کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں تاکہ گھروں کے حالات اور نئی نسل کے
اطوار کو بدلا جاسکے۔
|