”بچوں کے نامور ادیب اور کالم نگار--- ذوالفقار علی بخاری کا تہلکہ خیر انٹرویو“

" قسمت کی دیوی جب کسی پر مہربان ہوتی ہے تو اس کی زندگی ہی بدل کر رکھ دیتی ہے۔بعض لوگ سر توڑ کوشش کے باوجود وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جس کی انہیں چاہ ہوتی ہے،لیکن خوش نصیب وہ ہوتے ہیں جن کی جھولی میں سب کچھ آگرتا ہے۔نوآموز ادیب،تبصرہ نگار، کالم نگار اورمدرس جناب ذوالفقار علی بخاری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مگر اس کے پیچھے نصیب کے علاوہ ان تھک محنت اور سمجھ داری بھی کارفرما ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنا خوب نام روشن کرلیا ہے،آج نہ صرف پاکستا ن بلکہ بیرون ممالک کے نئے پرانے ادیب تک ان کا نام جانتے ہیں "۔
انہوں نے ادیبوں کوسراہنے کے لیے انٹرویوز لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ نئی نسل کو ادب سے جوڑنے اورنوجوانوں کی بھرپور رہنمائی کر رہے ہیں۔ محترم بخاری صاحب نے اپنے ادبی سفر کے دوران جن مشکلات کا سامنا کیا انہوں نے دوسروں کو اس کانٹے دار کٹھن راستے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے ہنوز یہ سفر جاری و ساری ہے۔
ان سے ہفت روزہ مارگلہ نیوز انٹرنیشنل، اسلام آباد کے لئے خصوصی گفتگو کی نشست رکھی گئی جس کا احوال پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال:ادبی کیرئیر کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟
جواب: عمروعیار، ٹارزن اوردیگر کرداروں کی کہانیاں پڑھتے پڑھتے جب احساس ہوا کہ کچھ لکھنا چاہیے تو اولین تحریر ماہ نامہ ہمدرد نونہال، کراچی کو ارسال کی وہ شائع ہوئی تولکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اس کے بعد ایک خط بھی اسی رسالے میں شائع ہوا تھاتاہم پھر لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی، برسوں بعد ادب اطفال کے لئے کچھ کردکھانے کے لئے باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا ہے۔
سوال:بطور لکھاری کیا کبھی کسی نے آپ کی حوصلہ افزائی کی جیسے آپ دوسروں کی کرتے ہیں؟
جواب:ناصر مغل صاحب نے پہلی مرتبہ داد دی تھی تو لکھنے کاسلسلہ آج تک قائم ودائم ہے اس کے بعد بچوں کے معروف رسالے ماہ نامہ پھول، لاہور کے مدیر جناب محمد شعیب مرزا کی حوصلہ افزائی نے بچوں کے لئے لکھنے پر مائل کیا ہے۔ نذیر انبالوی، محمدفہیم عالم، محبوب الہی مخمور، نوشاد عادل، محترمہ تسنیم جعفری،محمد جعفرخونپوریہ، عارف مجید عارف، اعجازاحمد نواب، پرویز بلگرامی، منزہ سہام مرزا صاحبہ، اکمل معروف، فہیم زیدی اورسرحد پار سے میر صاحب حسن، حسنین عاقب، محسن ساحل اورمحترمہ خواجہ کوثر حیات اوردیگر کئی ادیبوں نے بھی خوب حوصلہ افزائی دی ہے۔جن ہستیوں کے نام لیے ہیں یہ برسوں سے نوجوان ادیبوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اسی وجہ سے ان سے زیادہ انسیت بھی ہے۔
سوال: کوئی ایسی شخصیت جس سے بے پناہ متاثر ہو ئے اور اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہوں؟
جواب:ادبی دنیا میں نامور بھارتی ادیب ”خان حسنین عاقب“ کی ذات سے بے پناہ متاثر ہوا ہوں اوریہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ اُردو دنیا کی بڑی ہستی سے براہ راست سیکھنے کو مل رہا ہے اورخواہش بھی ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل سکوں کہ ان کے ظاہر وباطن میں کبھی تضاد نہیں دکھائی دیا ہے۔ جہاں تک مثالی شخصیت کی بات ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے، سیرت النبی ﷺ بہت کچھ سکھاتی ہے ہمیں بس سیکھنے والا بننا چاہیے۔میری ذات میں اگر کچھ اچھائی ہے تو وجہ یہی ہے کہ میں سیرت النبی ﷺ کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کا تہیہ کیے ہوئے ہوں اس لئے بہت کچھ ایسا برداشت کیا ہے جوناقابل برداشت تھا۔
سوال:ہر زاویے میں مثبت پہلو کیسے تلاش کرلیتے ہیں؟کبھی ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب:جب آپ کے اندر مثبت سوچ بیدار ہو جاتی ہے تو پھر آپ کیسے مایوسی میں گھر سکتے ہیں،جب اللہ کارساز ہے تو پھر آپ کے لئے منفی سوچنا آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔اللہ تعالیٰ پر یقین کامل ہونا سب اچھا کردیتا ہے۔مجھے کبھی نااُمیدی سے واسطہ نہیں پڑا ہے، وقتی ہو سکتی ہے لیکن مستقل نہیں رہتی ہے۔ہم فوری طور پر سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔مثبت سوچ بیدار ہو گئی تو پھر آپ کے لئے کامیابی کا در کھل جاتا ہے۔
سوال:حق پر مبنی اور سچی بات کہنے والوں کی دنیا مخالفت کرتی ہے کیا آپ کو کبھی ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑا؟
جواب:بہت بار ایسا ہوا ہے۔
سوال:ادب کے فروغ کے لیے نت نئے آئیڈیاز کیسے دیتے ہیں؟
جواب:جو اللہ کے بندوں کے لئے اچھا سوچتا ہے اُس کے پاس آئیڈیاز کی کمی نہیں ہوتی ہے۔یہ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ وہ کچھ عطا کر رہے ہیں وہی آگے بیان ہو جاتا ہے یعنی جو مل رہاہے وہی تقسیم ہو رہا ہے۔
س:آپ کی نظر میں آپ بیتی کی کیا اہمیت ہے۔ایک لکھاری کے لیے آپ بیتی کس قدر اہمیت کی حامل ہے؟
ج:ہر قلم کار اپنی تحریروں سے شناخت بناتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ اندر سے کیسا ہے، آپ بیتی اکثر اُس کااصل روپ سامنے لاتی ہے یہی وجہ ہے کہ سچ لکھا جائے تو ادیب قارئین کے سامنے عیاں ہو جائے گا یا پھراُس کی ذات پر بات ہوگی کہ وہ تضاد کا حامل ہے۔آپ بیتی کی اہمیت کے لئے اتنا کہوں گاکہ اگر کوئی کامیاب شخص لکھتا ہے تو دوسرے پڑھ کر کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔اگر قلم کارسچائی سے آپ بیتی لکھے گا تو وہ اپنے قارئین میں بعدازمرگ بھی زندہ رہے گا اورتحریروں کی اثرپذیری بھی قائم رہے گی۔
سوال:نوآموز لکھاریوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ان کا حل کیا ہے؟
جواب:بہت مسائل ہیں، حل بھی بہت سے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا تاکہ سب ٹھیک کیا جا سکے۔
سوال:ادبی دنیا میں اکثر ادیب آپ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں،اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:میں منافق اورجھوٹا نہیں ہوں، سچا ہوں اوریہی وجہ ہے کہ سب کا اعتماد حاصل ہے کہ سب کے لئے ایک جیسا جذبہ رکھتا ہوں۔
سوال:ادب میں حوصلہ افزائی کا رجحان بالکل آٹے میں نمک کے برابر ہے،آپ کو یہ خیال کیسے آیا اور اس کے پیش نظر کیا محرک کارفرما تھے؟
جواب:دوسروں کے کام آنا سیکھا ہے اوریہی وجہ ہے کہ آج سب کو وہ قوت دے رہا ہوں کہ نئے قلم کار اورشعراء اپنے خواب پورے کر سکیں۔
سوال:ادبی انٹرویوز آج سے پہلے اس قدر کثیر اور منفرد انداز میں نہیں ہوئے،آپ کا رجحان اس جانب کیسے پروان چڑھا؟
جواب:یہ محض دوسروں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ ہے جو میرے نصیب میں لکھا تھا تب ہی یہ میرے ہاتھوں سے سرزد ہو رہا ہے۔
سوال:ادب میں گروہ بندی کا رجحان کس وجہ سے ہے اور یہ کس قدر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے؟
جواب:گروہ بندی کا رجحان مفاد پرستی اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے جذبہ کی بدولت ہی ہے اورکس وجہ سے ہو سکتا ہے یہ نقصان اتنا ہوتا ہے کہ ادبی ساکھ مجروح ہو جاتی ہے اورہم سمجھتے ہیں کہ بڑی توپ شے ہیں۔ادیب ایک دوسرے پر الزامات لگائیں گے تو وہ قارئین تک پہنچ جائیں گے تو پھر پڑھنے والے بھی کم ہو جاتے ہیں اورایک وقت آتا ہے جب کچھ ادیبوں کی کتب بھی فروخت نہیں ہوتی ہیں یہ سب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ہو رہا ہے اورہوتا چلا جا رہا ہے۔اس میں ادب کا بھی نقصان ہو رہا ہے جس کا احساس بس اہل دل ادیبوں کو ہی ہے۔میری بات یاد رکھیں جب تک ہم ادیب دوسروں کے لئے نیک نیت نہیں رکھیں گے تب تک ادب کو یوں ہی نقصان پہنچتا رہے گا۔میرے لئے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادیبوں کی کتب زمین پر رکھ کر فروخت کی جاتی ہے یہ گروہ بندی مثبت ہوتی تو کم سے کم زمین پرپڑی کتب کے لئے کوئی مناسب انتظام کرایا جاتا۔ میرے خیال میں ضلعی سطح پر ڈ ی سی اوصاحبان کو اپنے شہر میں ایسی جگہ ضرور مخصوص کرانی چاہیں جہاں کتب کو باقار طریقے سے فروخت کیا جائے۔میں نے اُن نامور ادیبوں کی کتب کو بھی زمین پردیکھا ہے جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں یعنی گروہ بندی مثبت ہے تو ادب کا فروغ ہے جہاں چپقلش ہے وہاں بس خرابی ہے یہی مثال بہت ہے۔
سوال:بطور پیشہ کوئی بھی لکھاری ادب کواپناتے ہوئے کیوں کتراتا ہے؟
جواب:اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک معاوضہ حاصل نہیں کر سکتا ہے اس لئے محنت کرنی پڑتی ہے اور جب ساکھ بنتی ہے تو پھر سب ملتا ہے لیکن اس کے لئے بھی قانون ایک جیسا مرتب ہونا ضروری ہے جو بھی تحریر شائع ہو تو اس پر کچھ نہ کچھ ملنا چاہیے۔
سوال:کن موضوعات پر لکھنا پسند کرتے ہیں؟
جواب: لکھنے والے کو کوئی بھی موضوع متاثر کر دے وہ اُس پر قلم اُٹھا لیتا ہے، کہانیاں اورمسائل اردگرد ہوتے ہیں بس نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوال:کسی مصنف کے صاحب کتاب ہونے پر کیا رائے دیں گے۔ اپنی کتاب کب منظر عام پر لا رہے ہیں؟
جواب:صاحب کتاب ایک مناسب وقت پر ہونا چاہیے، وقت سے پہلے آپ عیاں ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی پبلشر مجھے اس قابل سمجھے گاکہ میری کتاب شائع ہونی چاہیے تو تب ہی یہ ممکن ہو سکے گا۔
سوال:آپ کی تحریروں کو حلقہ احباب میں کس قدر پذیرائی ملتی ہے؟
جواب:بس جتنی ملتی ہے راضی ہو جاتے ہیں۔
سوال:ادبی مصروفیات کی بناء پر نجی زندگی کس حد تک متاثر ہوئی ہے َ؟
جواب:بہت کم متاثر ہوئی ہے۔
سوال:آپ کی تحریریں کاٹ دار اور تلخ حقیقت پر مبنی ہی کیوں ہوتی ہیں؟
جواب:سچ جو بھی لکھتا ہے وہ چبھتا ہے۔
سوال:ادبی استحصال کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب:جہاں کچھ غلط ہو رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سہنے والوں کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے، سرعام سچ بولیں گے تو کون آپ کو دبا سکتا ہے۔جن کے ساتھ غلط ہو رہا ہے وہ اس کے براہ راست ذمہ دارخود بھی کچھ نہ کچھ ہیں ہم دوسروں کو قصور وار ٹھہرا کر خود فرشتہ صفت نہیں بن سکتے ہیں۔
سوال:ایک لکھاری اپنی ادبی ساکھ کیسے بنا سکتا ہے اور اسے قائم کیسے رکھ سکتا ہے؟
جواب:اپنی ذات اورکام پر توجہ رکھے تو ساکھ بنتی رہتی ہے اورمسلسل محنت سے قائم بھی رکھی جا سکتی ہے۔
سوال:کیا آج کا ادیب اپنے فرائض احسن طور پر سرانجام دے رہا ہے؟
جواب: اگرفرض ادا ہو رہا ہے تو پھر معاشرے میں اتنے مسائل کیوں دکھائی دیتے ہیں، میرے خیال میں ایمان داری کا کہیں کہیں فقدا ن ہے کہیں فرض درست پر ادا نہیں ہو رہا ہے۔
سوال:مستقبل قریب میں آپ کے کیا ارادے ہیں؟آنے والے وقت میں خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب:بہت کچھ سوچ رکھا ہے جس پر عمل وقت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ابھی ایک خواب ہے جس کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں لیکن رکاوٹیں بہت ہیں لیکن میں ہارنے والا نہیں ہوں جو چاہتا ہوں وہ کرکے دکھا دوں گا۔انشااللہ تعالیٰ
سوال:قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب:محنت،لگن کے ساتھ نماز کی ادائیگی کو معمول بنائیں آپ کامیابی حاصل کریں گے،جتنا بھی رب کا حق ادا کر سکیں وہ کرنے کی کوشش کریں،اللہ آپ کی نیت کو دیکھے گا اس لئے اپنا کام جتنا بھی ہو سکے کریں، شکر ادا کریں آپ نوازے جائیں گے یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بے صبری ہمیشہ لے ڈوبتی ہے۔
ختم شد۔
 

Fakeha Qamar
About the Author: Fakeha Qamar Read More Articles by Fakeha Qamar: 11 Articles with 5886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.