ہماراوطن ہندوستان ہے۔اس کی خوبصورتی کے لئے یہی کافی ہے
کہ یہ مختلف مذہب ومسلک اورگوناگوں تہذیب وثقافت کاحسین گہوارہ ہے۔بلاشبہ
یہ ایک دلکش گلشن ہے جواپنے ہرپھول کی امتیازی خوشبو سے مشکبارہے۔ ہندوستان
ایک ملک نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں کا ایک ایسا چمن ہے، جہاں رنگ برنگی
تہذیبی پھولوں کے پودے اپنی دلکشی بکھیر رہے ہیں اور اپنی خوشبو سے فضا میں
عطرگھول رہے ہیں۔ یہاں مختلف کلچرپروان چڑھے اور انہوں نے ایک دوسرے
پراثرڈالا۔یہاں کی زبانیں، یہاں کے لباس،کھان پان اور رسوم ورواج میں
انیکتا کے ساتھ ساتھ ایکتا نظر آتی ہے۔ یہ تمدن کسی خاص فرقے کا نہیں بلکہ
اُس ملک کا ہے جہاں بے شمار طبقات صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔بھارت
ایک بڑاجمہوری ملک ہے۔سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے مختصر لفظوں میں
جمہوریت کی تعریف کی ہے:
Goverment of the people, by the people and for the people.
یعنی جمہوری حکومت عوام میں سے ، عوام کی جانب سے اورعوام کے لئے ہوتی
ہے۔کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کی رائے کو کسی نہ کسی طرح دخل ہوتا ہے۔
دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی ماں ملک عزیز بھارت ہی ہے۔ 100 سال قبل مسیح
میں ، گوتم بدھ سے پہلے ہند میں جزئی جمہوریت نافذ العمل تھی۔ بھارت، 15/
اگست، 1947ء کو انگریزوں کے ناجائز تسلط سے آزاد ہوا۔ بھارت کی ”مجلس
دستور ساز“ نے آئین ہند کو 26/ نومبر ، 1949ء میں تسلیم کیا اور 26/ جنوری
، 1950ء کو عوام پر نافذ کیا۔ دستور ہند Government of India Act 1935 کو
بدل کر بنایا گیا تھا۔ ”پیور ریسرچ سینٹر“ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پوری
دنیا میں 96 ایسے ممالک ہیں ، جن کا نظام جمہوریہ ہے۔ ان میں سے 86 ملکوں
میں آزاد جمہوریہ ہے ، جو سیاسی اور شہری حقوق کی کسوٹی پر پورا اترتے
ہیں۔ ان میں سے ہندوستان کی جمہوریت سب سے بڑی اور مثالی رہی ہے۔ یہاں کی
گنگا جمنی تہذیب کی کئی ملکوں نے تقلید کی ہے۔آئین ہندکی تمہید یہ ہے کہ
ہم بھارت کے عوام،بھارت کوایک مقتدرسماج وادی سیکولرعوامی جمہوریہ بنانے کے
لئے اوراس کے تمام شہریوں کوسماجی،معاشی اورسیاسی انصاف،خیال،اظہار ،عقیدہ
،مذہب اورعبادت کی آزادی بہ اعتبارحیثیت اورموقع مساوات حاصل کرانے کے لئے
اوران سب کے مابین فردکی عظمت اورقوم کے اتحاداورسالمیت کویقینی بنانے والی
اخوت کوفروغ دینے کے لئے متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہوئے اپنی آئین
سازاسمبلی میں آج مورخہ :۲۶/نومبر ۱۹۴۹ کوذریعہ ہذااس آئین کواختیارکرتے
ہیں ،وضع کرتے ہیں اوراپنے آپ پرنافذکرتے ہیں۔
آئین کی اہمیت بنیادی ہے کیوں کہ یہ تمام ملکی قوانین کامنبع ومخرج ہے۔یہ
بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ آئین کی روسے مذہب وملت ،ذات پات ،علاقہ
اوررنگ ونسل سے قطع نظرہندوستان میں تمام لوگوں کوبرابرکے حقوق حاصل ہیں
اورسب کوپھلنے پھولنے کاحق ہے۔جمہوریت کے قیام کے لئے جمہورمیں خوداعتمادی
اورقانون پسندی بنیادی اجزاہیں۔ہرہندوستانی کوآئین سے واقفیت ہونی چاہیے
تاکہ وہ اپنے حقوق بھی جانے اورفرائض سے بھی آگاہ ہو۔
یہ مضمون تحریرکرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ تقریباً ڈیڑھ مہینے سے
اخبارات میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ ریاست کرناٹک کے اڈپی میں ایک
سرکاری کالج کے پرنسپل ودیگراساتذہ نے باحجاب مسلم طالبات کی مخالفت کی اور
اُنہیں حجاب اتارکرکالج میں داخل ہونے کافرمان جاری کیا،حجاب کے ساتھ کالج
کے اندرداخل ہوناممنوع قراردیاگیا،باحجاب مسلم طالبات نے اپنے حقوق کے لئے
کالج کے دروازے پربیٹھ کراحتجاج شروع کردیا۔اوریہ سلسلہ طول پکڑتاگیااوراس
مسئلہ کوحل کرنے کے لئے کرناٹک حکومت کے ذمہ داروں نے کوئی بھی دھیان نہیں
دیابلکہ اس کے برخلاف ہماری گنگاجمنی تہذیب کے مخالف اورامن وآشتی کے دشمن
،بھائی چارہ کوآتش نفرت کی نذرکرنے والے چندلیڈران نےشوشل میڈیااورپریس کے
ذریعہ مسلم دشمنی کاکھلاثبوت پیش کیا۔اورطرح طرح کی بیان بازی کے ذریعہ امن
وآشتی کے علمبرداروں کونشانہ بنایا۔اوریہاں تک کہہ دیاکہ اس ملک کی
بنیادہندوتوپررکھی گئی ہے۔جسے حجاب پہن کراسکول جانے کی خواہش ہووہ
ہندوستان میں نہیں بلکہ پڑوسی ملک میں جائیں ۔کسی نے یہ بیان دیاکہ اگرحجاب
پہن کرتعلیم حاصل کرناچاہتی ہے تواسکول نہیں بلکہ مدرسہ جائے۔اس طرح کی نہ
جانے کیاکیابیہودہ بیان بازی شروع ہوگئی۔کسی کوبھی باحجاب مسلم بچیوں کی
تعلیم کی فکرنہیں بلکہ ان کے پس پشت جوتنظیمیں مسلم دشمنی میں لگی ہوئی ہیں
وہ سب یہی چاہتی ہیں کہ مسلم بچیاں اسکول وکالج میں نہ آئیں اورتعلیم حاصل
نہ کریں۔باحجاب مسلم طالبات کے سرپرستوں نےجب سوالات کئے کہ آخرہماری
بچیوں کوحجاب پہن کرتعلیم حاصل کرنے سے کیوں منع کیاجارہاہے ؟ جب کہ
ایڈمیشن کے وقت ایساکوئی بھی قانون نہیں تھاتواب یہ تماشہ کیوں
بنایاجارہاہے؟توکالج کے ذمہ داران اوروہاں متعین پولیس افسران نے صرف
اتناجواب دیاکہ وہ سرکاری حکم پرعمل کررہے ہیں اوراس کے خلاف اپنی مرضی سے
کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
اب اس سلسلے میں ضرورت ہےکہ ہم آئین ہندکاگہرائی سے مطالعہ کریں کہ حجاب
اورپردہ کے بارے ہندوستان کاآئین کیاکہتاہے؟ کیابھارت کاآئین حجاب پہن
کرمسلم بچیوں کوتعلیم حاصل کرنےکی اجازت دیتا ہے یانہیں؟سرکاری ادارے ہوں
یاغیرسرکاری ان کے اندرباحجاب مسلم بچیاں تعلیم حاصل کرسکتی ہیں یانہیں؟اس
تعلق سے دستورِہندیعنی آئین ہندکیاکہتاہے؟
بھارت کاآئین آرٹیکل 15،میں صاف طورپرلکھاہے کہ (۱) مملکت محض
مذہب،نسل،ذات،جنس،مقام پیدائش یاان میں سے کسی کی بناپرکسی شہری کے خلاف
امتیاز نہیں برتے گی۔(۲) کوئی شہری محض مذہب،نسل،ذات،جنس،مقام پیدائش یاان
میں سے کسی کی بناپر:(الف)دکانوں ،عام ریستوران،ہوٹلوں یاعام تفریح گاہوں
میں داخلہ کے لئے ،یا(ب) کلی یاجزوی طورسے مملکتی فنڈسے قائم یاخلائق عامہ
کے استعمال کے لئے وقف کنوؤں ،تالابوں ،اشنان گھاٹوں،سڑکوں اورعام
آمدورفت کے مقامات کے استعمال کے ناقابل نہ ہوگایااس پرکوئی ذمہ داری
یاپابندی یاشرط نہ ہوگی۔اسی طرح آرٹیکل 19 ،یہ بتاتاہے کہ تمام شہریوں
کوحق حاصل ہوگاتقریراوراظہارکی آزادی کا۔یونہی آرٹیکل 25،میں یہ تحریرہے
کہ ’’تمام اشخاص کوآزادی ضمیراورآزادی سے مذہب قبول کرنے ،اس کی پیروی
اوراس کی تبلیغ کرنے کامساوی حق ہے ‘‘۔
قابل غوربات یہ ہے کہ بھارت کاآئین توتمام ہندوستانیوں کویہ حقوق دے
رہاہےکہ یہاں کے رہنے والے چاہے جس مذہب کے ماننے والے ہوں ان کے ساتھ
بھیدبھاؤ نہیں کیاجائے گا۔اور وطن عزیز کا سنودھان بھی ہمیں اس بات کی
اجازت دیتا ہے کہ اپنے مذہبی روایات پر عمل کرنے میں آزاد اور خود مختار
ہیں‘ہمارے مذہب و کلچر اور ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے کہ ہم عریانیت سے دور
ونفور رہیں اور اسی میں ایک پاکیزہ معاشرہ کا وجود متصور ہے؛ باوجود اس کے
سنگھی ذہنیت کے بے حیالوگ ہماری عزت وقار کو مجروح کرنے کے لیے کوشاں ہیں
اور ہماری آزادی، بھارتی تہذیب اور کلچر پر قدغن لگانا چاہتے ہیں‘آئے دن
ہماری مخالفت کے دردناک نظارے دیکھ کر روح کانپنے لگتی ہے لیکن حکومت کو اس
کی کوئی پرواہ نہیں اسی لاپرواہی کا نتیجہ ہے‘کہ آج وہ سب کچھ ہورہا ہے جو
کسی بھی حال میں نہیں ہونا چاہئیے اور یہ سب ایک جمہوری نظام کے لیے زہر
قاتل ہے۔ہماراآئین تویہ کہتاہے کہ مذہب ،نسل ،ذات،جنس یاجائے پیدائش کی
وجہ سے کسی کے ساتھ کوئی امتیازنہیں برتاجائے گا۔مگرچندسالوں سے بھارت کے
مسلم سماج کے ساتھ جس طرح کابرتاؤ کیاجارہاہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں
ہے۔کبھی موب لنچنگ کے نام پرمسلم نوجوان کوقتل کردیاجاتاہے توکبھی تنہاچلتے
ہوئے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کوظلم وبربریت
کاشکاربنایاجاتاہے۔ دھرم سنسدوں میں مسلم سماج کے خلاف
زہراگلاجاتاہے۔روزانہ کوئی نہ کوئی کھلے عام مسلمانوں کے خلاف بگواس
کرتاہوانظرآتاہے ۔ آج کے وہ نوجوان جن کو اپنے مستقبل کوبہتربنانے کی
فکرہونی چاہیے مگردیکھایہ جارہاہے کہ چندبے حیا،فحاش اوربیہودوں کاگروپ
شوشل میڈیاپرمسلم خواتین کے خلاف پروپیگنڈہ چلاتاہے۔اسی طرح کرناٹک میں
حجاب پرپابندیاں عائد کی جارہی ہیں اورجومسلم بچیاں حجاب میں ملبوس
ہوکرکالج میں داخل ہوناچاہتی ہیں توان کےخلاف انسانی شکل کے وحشیوں ،درندوں
کاجھونڈ دھارمک نعرہ لگاتے ہوئے کالج میں داخل ہوجاتاہے۔ پھردیکھتے ہی
دیکھتے وہ لڑکے اورلڑکیاں جوکل تک کالج میں امن وآشتی اوربھائی چارہ کے
ساتھ شریک درس ہواکرتے تھے آج دوسروں کے بہکاوے میں آکرحجاب کے خلاف
آوازاٹھانے لگتے ہیں۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ جن طلبہ کوصرف اپنی پڑھائی
اوراپنے مستقبل کی فکرہونی چاہیے تھی ان کے ذہن و دماغ میں یہ باتیں کہاں
سے آگئیں کہ حجاب نہیں پہننے دیں گے؟پورے بھارت میں جن ریاستوں کی تعلیم
وتہذیب کی مثال پیش کی جاتی تھی،ان میں سے ایک ریاست کرناٹک بھی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ نارتھ انڈیاکے بچے یہاں آکربہترین تعلیم حاصل کرتے ہیں۔کبھی
ایسانہیں سناگیاتھاکہ کرناٹک میں کالج کے طلبہ نفرت کاشکارہیں بلکہ جب بھی
سناگیاتویہی کہ وہاں کے اداروں میں کسی خاص مذہب کے تئیں نفرت وعداوت کرنے
والے نہیں بلکہ سارے طلبہ ایک ساتھ مل کرتعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ یہاں
کی تعلیم بہت بہترہے ۔لیکن اب کیاہوگیاکہ یہ طلبہ جنہیں لاک ڈاؤن کے
بعداپنی تعلیم اورامتحان کی فکرہونی چاہیے تھی وہ زعفرانی شال گلے پرڈال
کرباحجاب بچیوں کوہراساں کرنے پراترآئےہیں؟اوروہ لڑکیاں جوہمیشہ سے باحجاب
مسلم بچیوں سے مل جل کرایک ساتھ درس لیاکرتی تھیں اورایک دوسرے کے تہوارمیں
شریک بھی ہواکرتی تھیں ان کے اندراپنی سہیلیوں کے بارے میں یہ نفرت کابیج
کس نے بویا؟طلبہ چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں اس کے کالج
ویونیورسٹی میں صرف اورصرف اپنےوطن کی محبت اوروطن پرجان قربان کرنے کی
باتیں ہونی چاہیے ۔طلبہ کے اندراپنے ترنگاکی محبت ہونی چاہیے مگردیکھایہ
گیاکہ وہ طلبہ جوہمیشہ ترنگاکااحترام کرتے اوراس کوسلام پیش کیاکرتے تھے
اچانک کونسی نفرت پیداہوگئی کہ ترنگاکی جگہ پرزعفرانی رنگ
کاکپڑالہرایاجاتاہے؟۱۰،فروری روزنامہ سہارا میں بھی یہ خبرشائع ہوئی
کہ’’ریاستی وزیرکے ایس ایشورپانے چہارشنبہ کوایک اورمتنازعہ بیان دیتے ہوئے
کہاکہ مستقبل میں ترنگاکی جگہ زعفرانی جھنڈاہماراقومی جھنڈاہوسکتاہے‘‘۔یہی
وہ بیان ہے جوموجودہ نوجوانوں کے اندرنفرت کابیج بورہاہے۔ اور ایسی ہی سوچ
کا نتیجہ ہے کہ اسکول میں ترنگا پرچم کی جگہ ہندوتو ذہنیت کے وحشی درندے
بھگوا پرچم لہراتے ہیں ۔
ان سوالوں کے متعلق جب حقائق کی دنیامیں جائیں گے تومعلوم ہوگاکہ اس پورے
معاملہ کاسچ یہ ہے کہ ریاست کرناٹک میں جب سے بھارتیہ جنتاپاڑتی کی
سرکارآئی ہے تب سے لگاتار اقلیتوں کے مذہبی،تعلیمی اورثقافتی حقوق پرتیشہ
زنی کاکام کررہی ہے۔تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کامسئلہ ہویاسرکاری
کالجوںمیں مسلم طالبات کے حجاب پرپابندی کامعاملہ ہوہرجگہ ہندوتوکے ایجنڈے
کوقوت کے زورپرنافذکرنے کاعام رواج ہوگیاہے۔۱۰،فروری روزنامہ
سہارابنگلورمیں یہ خبرچھپی کہ ’’کے پی سی سی صدرڈی کے شیوکمارنے نامہ
نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ریاست میں پھیلنے والے طلبااحتجاج کے
لئے بی جے پی ہی ذمہ دارہے اورکہاکہ بچوں کے ذہنوں میں نفرت کے بیج
بوناخطرناک ہے۔انہوں نے دعوی کیاکہ سورت سے ۵۰ لاکھ شال خریدے گئے تھے‘‘۔
قارئین!اس وقت ہمارے پیارے وطن میں جس طرح کی فضاقائم کرنے کی کوشش ہورہی
ہے اس سے آنے والے وقت میں سب سے زیادہ نوجوانوں کونقصان ہونے
والاہے۔کیونکہ نوجوانوں کواس وقت بہترایجوکیشن کی جانب اپنی توجہ
مرکوزرکھنی چاہیے نہ کہ کسی مسلم مخالف تنظیم کے بہکاوے میں آکراپنے
مستقبل کوبربادکرناچاہیے۔آج سب سے زیادہ بے روزگارنوجوان نظرآتے ہیں
،سرکارکواس کی کوئی فکرنہیں ہے۔اس کاکھلاثبوت پورے بھارت میں نظرآرہاہےکہ
طلبہ اپنے حقوق کے لئے ریلیاں نکال رہے ہیں ۔اس کے لئے تمام بھارتیوں
کوغوروفکرکرنی ہوگی کہ کس طرح آنے والی نسلوں کونفرت کی آندھیوں سے
بچایاجائے۔اوراخوت وصداقت کادرس حیات ،پریم ،شانتی اوربھائی چارہ کاسبق
پڑھایاجائے تاکہ آنے والی نسل اپنے وطن کی گنگاجمنی تہذیب کوبرقراررکھ
سکیں ۔اس کے لئے حکومت کو ایسے قوانین بنانے چاہئیے جو انسان کو انسان
بنائے رکھنے میں معاون ہوں اور ملک میں بھائی چارہ امن و آشتی بحال رہے
ہمارا پیارا ملک نفرتوں کی نذر نہ ہو جائے۔دنیامیں جتنے بھی مذاہب ہیں کوئی
بھی مذہب دوسرے کے بارے میں نفرت،جلن،دشمنی،مخالفت ،بَیر نہیں
سکھاتا،اگرکوئی ایساکہتاہے کہ شری رام جی کانعرہ لگاکرمسلمانوں کے خلاف
نفرت پھیلانادرست ہے توسمجھ لیں کہ وہ بہت بڑاجاہل ،گنوارہے اسے چاہیے کہ
اپنے مذہب کے جانکارسے مذہب کی تعلیمات کوجانے ۔کیونکہ درحقیقت مذہب وہی ہے
جوایک دوسرے کے بارے میں امن ومحبت کی تعلیم دیتاہے۔شاعر مشرق علامہ
ڈاکٹراقبال نے اسی لئے توفرمایاہے:
مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیررکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا |