|
کرکٹ لیگز تو دنیا بھر میں ہو ہی رہی ہیں
مگر پی ایس ایل میں کچھ ایسا ہے جو ان سب سے الگ ہے۔ اور ’کچھ الگ‘ ہونا
ضروری بھی ہے اگر کسی ایونٹ کو ایک ایسے کیلنڈر میں اپنی جگہ بنانا ہو جہاں
سال کے مہینے کم ہیں اور لیگیں زیادہ۔
ایک لمحے کو تو یہ یقین کرنا ہی دشوار ہوتا ہے کہ وہ پی ایس ایل جس کی فائل
سالہا سال پی سی بی کی الماریوں میں ’رُلتی‘ رہی، جس کے پاکستان میں کبھی
انعقاد کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا اور جو پہلے تین سیزنز متواتر
خسارہ برداشت کرتی رہی، وہی لیگ اب سات برس کی ہو گئی ہے۔
کسی اور لیگ کے لیے شاید اتنے سال ’سروائیو‘ کرنا اس قدر بامعنی نہ ہو جیسا
یہ پی ایس ایل کے لیے ہے۔ کیونکہ ایک ایسی مارکیٹ جہاں بی سی سی آئی اور
کرکٹ آسٹریلیا جیسے بورڈز کی اجارہ داری تھی، وہاں ایسی بے رنگ و کیف
کنڈیشنز میں بھی نہ صرف اپنے قدم جما جانا، بلکہ متواتر افزائش ہی پاتے
جانا لگ بھگ کسی معجزے کا سا ہے۔
اور اس کی اہمیت اس امر سے بھی سوا ہے کہ پی سی بی جیسے انتظامی ادارے سے
ایسا عزم اور تسلسل شاید کم ہی لوگوں کو متوقع تھا۔ بالآخر یہ وہی کرکٹ
بورڈ ہے جس کے ایک چیئرمین صاحب تو آئی سی سی کی میٹنگز میں باقاعدہ قیلولہ
فرماتے پائے جاتے رہے ہیں۔
اور پھر نہ تو اس لیگ کے پاس آئی پی ایل کے جیسا پیسہ تھا کہ بس پھینکتی
اور تماشہ دیکھتی جاتی، نہ تو یہاں کریبئین پریمئر لیگ کے جیسا گلیمر تھا
اور نہ ہی بگ بیش جیسی ہائی کوالٹی کرکٹ کنڈیشنز میسر تھیں کہ اپنا نام بنا
پاتی۔
مگر ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف یہ لیگ پاکستان کرکٹ کو
جواں خون کا تحفہ دینے میں کامیاب رہی بلکہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی
بحالی جیسا ناممکن کام بھی ممکن کر دکھایا۔ اس کا کریڈٹ پی سی بی کے ان
سبھی جواں ذہنوں کو جاتا ہے جنھوں نے اس عمارت کی تعمیر میں اپنے اپنے حصے
کی اینٹیں جوڑیں۔
اور تحسین کے خصوصی مستحق نجم سیٹھی بھی ہیں جنھوں نے چہار سمت سے تنقید کے
باوجود یہ داؤ کھیلنے کا خطرہ مول لیا۔
اب کی بار پی ایس ایل البتہ اپنے روایتی موسمی ’ونڈو‘ سے ہٹ کر ہے اور
کیلنڈر میں، متوقع دورۂ آسٹریلیا کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے جنوری میں ہی
شروع ہو رہی ہے، سو اسے بنگلہ دیش پریمئر لیگ کے کیلنڈر سے بھی ٹکرانا پڑ
رہا ہے اور ماضی کے کچھ بڑے نام بھی اسے میسر نہیں ہوں گے۔
مگر اس بار دلچسپی کے پہلو کچھ اور ہوں گے۔ پاکستان بھر کے متفقہ فیورٹ
بابر اعظم پہلی بار پی ایس ایل میں کپتانی کرتے نظر آئیں گے۔ دوسری طرف
شاہین شاہ آفریدی اپنے کرئیر میں پہلی بار کپتانی کا بوجھ اٹھائیں گے۔ اور
یہ دیکھنا خوب ہو گا کہ ان دونوں بڑی تبدیلیوں سے متعلقہ فرنچائزز کی قسمت
میں کیا بدلاؤ آتا ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ دلچسپی کا پہلو ہو گا، انگلش کرکٹرز کا پی ایس ایل پر
راج۔ وہی انگلش کرکٹ جس نے چند ماہ پہلے پلئیرز کے تحفظ اور ذہنی صحت کی
خاطر دورۂ پاکستان منسوخ کیا تھا، اب اس کے دو درجن کھلاڑی آج سے پاکستان
سپر لیگ میں جلوہ گر ہوں گے اور ہر ٹیم کو انگلش کرکٹ کی نمائندگی میسر ہو
گی۔
مالی کامیابی کی اپنی اہمیت ہے مگر ساکھ کے اعتبار سے یہ پی ایس ایل کی
زیادہ بڑی کامیابی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ برانڈ نہ صرف پاکستان کرکٹ
بورڈ بلکہ دیگر کرکٹ بورڈز کے لیے بھی ایک نرسری بنتا جا رہا ہے اور اسی
حقیقت کا اعتراف ڈیوڈ میلان اور لیوس گریگری بھی کر چکے ہیں۔
امید صرف یہ رکھنی چاہیے کہ گذشتہ دو سیزنز کے برعکس اس سال پی سی بی کے
انتظامی معاملات بہتر رہیں اور کووڈ کے ہنگامے میں محفوظ و متواتر کرکٹ کا
انعقاد یقینی رہے کیونکہ اگر اب کی بار پی سی بی سے ذرا سی چُوک بھی ہوئی
تو سارا ایڈیشن ہی ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
|