مسکان واقعہ سے ابھرنے والے تین پہلو

قاضی کاشف نیاز

ملت اسلامیہ کی عظیم غیور بیٹی مسکان خان اور اس کی ہم نشین باپردہ مسلمان طالبات کے پردہ و حجاب کے خلاف انتہا پسند ہندؤوں نے جو مظاہرہ کیا اور جو گھناؤنا طرز عمل اختیار کیا، یہ یقینا انتہا پسند ہندؤوں کے حوالے سے انتہائی افسوسناک ہے اور مسکان خان کے کردار کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے انتہائی فخر کی بات ہے کہ ان کے دامن میں مرد تو کیا ،ایسی نازک کلیاں بھی ہیں جو دشمن کے لیے پھولوں سے زیادہ فولادی چٹان ہیں۔خنسا ء، خولہ ، صفیہ اور سمیہ رضی اﷲ عنھن جیسی اسلام کی عظیم بیٹیوں سے ٹکرا کر دشمن پہلے بھی پاش پاش ہوتا رہا ہے اور اب بھی وہ پاش پاش ہی ہو رہاہے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے

مسکان کی دلیری وبہادری اورغیرت مندانہ کردار اپنی جگہ۔۔۔اس کردار کو تو پوری امت مسلمہ غیر متنازعہ طور پر سلیوٹ پیش کر رہی ہے لیکن اس واقعہ سے کچھ نئے تین قابل غور پہلو بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پہلی بات اور وہ بھی حیرانی کی بات کہ ہندؤوں کو مسلمان خواتین کے حجاب اور برقعے پر بھی اعتراض ہو گیا حالانکہ اب تک ہم نے جو دیکھا ، سنا اور پڑھا،وہ یہ تھا کہ ہندو اسلام کے مختلف اعمال پر اعتراض کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں لیکن برقعے پر اعتراض پہلے کم ہی کیا گیا ہے بلکہ بے پردگی،فحاشی اور مادر پدر آزادی کے تو ہندو انتہاپسند بھی مخالف نظر آتے تھے۔۔۔وہ تو بے پردگی اور فحاشی کو ہندؤوں کا اور ہندوستان کا کلچر ہی نہیں مانتے۔۔۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے خلاف ہر سال پرزور مزاحمت کرتے نظر نہ آتے۔۔۔اور اب عین ویلنٹائن ڈے کے قریب ان کا فحاشی و بے پردگی کے خلاف مظاہرے کی بجائے پردے کے خلاف صف آراء ہونا ناقابل سمجھ سی بات ہے۔۔۔ہم نے پرانی روایات پر کاربند ہندو عورتوں کو انڈیا کی دستاویزی فلموں میں برقعے اور حجاب کا پابند ہی دیکھا۔۔۔خودہم نے کئی بار پاکستان میں ہندؤوں کے اکثریتی علاقے صحرائے تھر کا دورہ کیا تو ہندو عورت جہاں بھی نظر آئی ، وہ ساڑھی کے ساتھ بڑا سخت سا گھونگھٹ لیے ہی نظر آئی اوران کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔نجانے یہ کیسے انتہا پسند ہندو تھے جو مسلمان لڑکی کے پردے کے خلاف زعفرانی پگڑیاں پہن کر باہر آگئے۔۔۔پردے کی مخالفت عام طور پر صرف انتہاپسند سیکولر لوگ کرتے رہے ہیں چاہے وہ سیکولر ہندو ہوں،سیکولر عیسائی یہودی ہوں یا سیکولر مسلمان۔۔۔لیکن کوئی مذہبی انتہا پسند ہندو اس کی مخالفت کرے۔۔۔یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔۔۔

بھارت میں پردے کی سخت مخالفت صرف سیکولر لوگوں کا ایجنڈا رہا ہے ۔۔مذہبی خاص کر ہندو اور مسلمان مذہبی لوگ پردے کی کبھی مخالفت نہیں کرتے۔۔سوال یہ ہے کہ یہ سیکولر لوگ اس بار مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کیوں میدان میں آ گئے۔۔۔اس کا سب کو جائزہ ضرور لینا چاہیے اور اس میں چھپی کسی پس پردہ حقیقت کو سامنے لانا چاہیے۔۔۔اگر یہ سیکولر لوگوں کی شرارت نہیں تو پھر دوسرا آپشن یہی رہ جاتا ہے کہ شاید واقعی انتہا پسند ہندؤوں نے ہی پردے کے خلاف مورچہ لگایا ہو اور یہ مورچہ شاید اسلام کی ہر چیز کی مخالفت کے جنون میں وہ مسلمانوں کے ایک ایسے شعار کی بھی مخالفت کر بیٹھے جو صرف مسلمانوں کا ہی نہیں،بہت سے ہندؤوں کا بھی شعارنظر آتا ہے۔۔۔اگر ان انتہا پسند ہندؤوں سے محض مسلمانوں کی مخالفت کے جوش میں یہ غلطی ھوئی ہے تو انڈیا کی عدالتیں بے شک مسلمانوں کے حق میں فیصلہ نہ کریں کہ یہ عدالتیں آئین،قانون اور دلائل و شواہد کی بجائے پہلے بھی صرف اور صرف اکثریت کی خواہش کے مطابق فیصلہ دیتی ہیں جیسا کہ انہوں نے اجمل قصاب، بابری مسجد اور مسلمانوں سے متعلقہ ایسے کئی کیسوں میں مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دیا اور صاف اقرار کیا کہ وہ ہندوستان کے لوگوں کے اجتماعی ضمیر یعنی اکثریت کی خواہش کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتیں۔۔ یعنی صاف واضح ہوا کہ بے شک مسلمانوں کے خلاف ٹھوس دلائل اور شواہد نہ ہوں لیکن انڈیا کی عدالتیں ہندؤوں کی اکثریت کی امنگوں اور امیدوں کے مطابق ہی فیصلہ دے سکتی ہیں یا دینے پہ مجبور ہیں۔۔۔۔بہرحال ہندوانتہاپسندوں اور سیکولر لوگوں سے کم ہی امید ہے کہ وہ پردے کا کسی بھی پہلو سے دفاع کریں گے یا کم از کم اسے مسلمان عورت کا ایک انسانی اور جمہوری حق قرار دیں گے جس طرح کہ وہ عریانی کے دفاع میں یہ کہتے ہیں کہ یہ عورت کا حق ہے کہ وہ جیسا چاہے لباس پہنے لیکن افسوس یہ انداز وہ پردے کے معاملے میں کم ہی اختیار کرتے ہیں کہ ایک عورت اگر کم کپڑے پہننے کی بجائے برقعہ بھی پہن لے تو پھر انہیں اعتراض کیوں۔۔۔اس معاملے میں ہم نے دیکھا ہے کہ یہ سیکولر لوگ مذہبی انتہا پسندوں سے بھی زیادہ انتہا پسند ہیں جو عورت کا کم کپڑے پہننا تو اس کا جمہوری حق سمجھتے ہیں لیکن پردہ سمیت پورے کپڑے پہننے کو وہ کسی صورت عورت کا جمہوری حق ماننے اور برداشت کرنے کو تیار نہیں جیسا کہ فرانس اور دوسرے کئی یورپی ملکوں میں سیکولر جمہوری حکومتوں کا یہ طرز عمل سامنے آتا رہتا ہے اور آئے دن وہ پردہ و حجاب پر پابندیاں لگاتے رہتے ہیں۔۔

اس واقعہ سے ابھرنے والادوسرا اہم پہلو ہندوستانی مسلمانوں کی ملی غیرت ھے جس کا قیام پاکستان کے72سال بعد اب پہلی بار احیاء ہوا۔۔۔ہندوستانی مسلمان جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بالکل ہندؤوں کے غلاموں جیسا طرز عمل اپنایاہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہندؤوں کے دباؤ میں آ کر نہ صرف یہ کہ وہ ہندؤوں کے مقابل کبھی کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ لگتا تھا کہ اگر وہ اسی طرح بھیگی بلی بنے رہے تو ایک دن شاید وہ ہندؤوں کو خوش کرتے کرتے یا تو پورے دین سے دستکش ہو جائیں گے یا پھر خرگوش کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہنے سے وہ بالآخر ان کا شکار بن جائیں گے لیکن آفرین ہے مسکان کے لافانی کردار نے اس دم سحر پہ آئی شمع کو پھر سے شعلہ جوالہ بنا دیا اور ثابت کر دیا کہ ہندوستان میں "غیرت مسلم ابھی زندہ ہے۔ہندؤوں کی طرف سے اسلامی شعار پردے تک کی شدید مخالفت سے تیسرا پہلو یہ ابھرا اور یہ حقیقت ایک بار پھر ثابت ہو کر سامنے آ گئی کہ پاکستان کا قیام کتنا ضروری تھا اور دو قومی نظریہ کتنا سچا اور برحق تھا۔۔۔یہ ہندؤوں کی مسلمانوں کی ایک ایک بات سے انتہا درجے کی مخالفت اور دشمنی ہی تو تھی جس کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہندؤوں کے ساتھ رہ کر وہ اپنی جان،مال اور عزتوں کو ان سے کبھی محفوظ نہیں رکھ سکتے۔۔۔دو قومی نظریہ زندہ باد۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔علامہ اقبال اور قائد اعظم زندہ باد۔۔۔اورمسکان بیٹی زندہ باد جس نے دو قومی نظریہ کو دوبارہ سے زندہ کر دکھایا۔
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 194 Articles with 126111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.