کامران وہی جو دوسروں کی بہتری کا سوچے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ بھی بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ تعالی عمران اسد جیسے نوجوانوں سے کام لے رہا ہے حالانکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں نوجوان سوشل میڈیا پر کیا سے کیا بنا رہے ہیں لیکن مثبت سوچ اور دوسروں کی مدد نے آج عمران اسد کو نہ صرف سب سے منفرد کردیا ہے بلکہ وہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں بھی لے رہا ہے جس کی وجہ سے آج بہت ساری غریب بچیوں کے گھر بس گئے ہیں ' مالی طور پر کمزور افراد کو مالی امداد مل رہی ہیں . |
|
اوسط گھرانوں میں بڑا بھائی ہونا ایک طرح سے زحمت بھی ہے ' کیونکہ گھر والوںاور خاندان کی نظریں اس بھائی پر ہوتی ہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کیلئے کیا کرتا ہے غربت ' روزگار کے مواقع نہ ملنے الگ بات ہے کہ لیکن ایسے حالت میں جب آٹھویں جماعت کا طالب علم بھائی بیمار ہو 'اور بیمار ی بھی گردوں کی ہو جو نہ صرف مریض بلکہ اسکے گھر والوں کو بھی ہر طرح سے بیمار کردیتی ہیں 'اور یہ بیماری ذہنی ہوتی ہے کیونکہ وسائل نہ ہونا اور وسائل پیدا کرکے علاج کرنا بھی بڑا مشکل ہے کیونکہ جب وسائل پیدا ہوتے ہیں تو بیمار اس سٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا علاج کرنا بھی ناممکنات میں ہو جاتا ہے. لیکن پشاور کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے اس عام سے لڑکے نے وہ کام کر دکھایا ہے جو اب تک بقول اس کے اپنے علاقے کے لوگوں کے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا. تیز قدموں سے چلنے والا وہ بھی گائوں کا ایک عام سا لڑکا ہے جسے مل کر احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ اتنا متحرک بھی ہوسکتا ہے کہ کئی شعبوں میں کام کررہا ہے. بخشی پل کے علاقے سے تعلق رکھنے والا محمد عمران اسد جس نے علاقے کے سکول سے بنیادی تعلیم حاصل کی اور پھر میٹرک کیلئے پشاور کا رخ کیا ' گائوں سے پشاور سکول جاتے ہوئے وہ اپنے علاقے و راستے میں پڑے افراد کو دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتا کہ کاش کچھ ایسا ہو کہ وہ ان بندوں کی خدمت کرسکے لیکن اپنی غربت اور بے مائیگی کا احساس اسکا دامن روکے رکھتا . بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر کے حالت کے پیش نظر اس نے میڈیکل کی شعبے سے وابستہ تربیت حاصل کی تاکہ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھ سکے اور اپنے اخراجات بھی خود اٹھا سکیں. تاکہ کم از کم اتنا احساس ہو کہ میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں. یوں زندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی لیکن پھر شائد اللہ کومحمد عمران اسد اور اس کے گھر والوں کا امتحان لینا مقصود تھااور اسی امتحان نے محمد عمران اسد کیلئے نئے راستے بھی کھول دئیے.اس کے چھوٹے بھائی کو بیماری نے آگھیرا مقامی طور پر علاج کے بعد پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں علاج کیلئے لے جاتا رہا.جہاں اسے احساس ہوا کہ غریب آدمی کیلئے اس معاشرے میں بیمار ہونازندگی کتنی مشکل سے دوچار کردیتا ہے . اس کے بھائی کو گردوں کی بیماری کا پتہ بھی اس وقت پتہ چلا جب وہ اپنے بیماری کے اختتام تک پہنچ چکا تھا ڈاکٹروں نے اس کی کسی حد تک مدد بھی لیکن ایک معمولی سا لڑکا جس کی تعلیم بھی بنیادی ہو ' گھر کے اخراجات بھی اس کے ذمے ہو ساتھ میں بھائی کی بیماری بھی ہو ' ان سب نے حساس دل محمد عمران اسد کو مزید حساس کردیا ' بیمار بھائی کی آخری سٹیج ڈائیلائسز تھی لیکن وہ اس میں بھی بچ نہ سکا اور یوں اس کا آٹھویں جماعت کا طالب علم بھائی تین سال تک زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ہار گیا. بھائی کی موت نے اسے بے حال کیساتھ مالی طور پر کمزور بھی کردیا تھا کیونکہ جو کچھ وہ کماتا تھا وہ اس کے اپنے اخراجات کیلئے بھی پورا نہیں ہوتا تھا لیکن بھائی کی بیماری اور پھر المناک موت نے اس کے حساس دل کو اتنا پریشان کیا تھا کہ وہ سوچتا تھا کہ اس کا تو بھائی تھا جس کیلئے اس نے آخری دم تک کوششیں کی لیکن ایسے لوگ بھی اس جہاں میں ہیں جن کا کوئی نہیں ایسے افراد کیلئے کون آواز اٹھائے گا.یہی سوچ اسے نوکری کے دوران بھی پریشان کئے رکھتی . پھر اس کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ آیا اسے رنگ روڈ کے قریب ایک بچہ ملا جو کباڑ چن کر اپنے گھر کے اخراجات پوری کرتا تھا ' جس کی کہانی سن کر محمد عمران اسد کو احساس ہوا کہ اس معاشرے میں بے کسوں کیلئے کچھ کرنا ضروری ہے ' معصوم بچے نے بتایا کہ اس کا والد نابینا ہے اور والدہ کچھ عرصہ دوسروں کے گھروں میں کام کرکے اخراجات چلاتی تھی اوروہ سکول جاتا تھا لیکن پھر والد ہ کی موت نے اس معصوم بچے میں یہ احسا ذمہ داری پوری کی کہ وہ اپنے نابینا والد کی خدمت کرے اوریوں اس بچے نے کباڑ چن کر گھر کی ذمہ داری پوری کرنے شروع کردی . اسکی کہانی نے محمد عمران اسد نے متاثر کیا کہ اگر اتنا معصوم بچہ اپنے نابینا والد کی خاطر اتنا کچھ کرسکتا ہے تو وہ خود کیوں نہیں کرسکتا . اور یوں.. اس معصوم بچے کی خاطر اس نے اپنے جاننے والوں سے ایک ایک سو روپے لیے اور اس کو سکول میں داخل کروایا اورپھر یہ کوشش کی کہ ا س کے گھر کے اخراجات کسی طرح پوری ہو تاکہ بچہ پڑھ سکے . اور یوں محمد عمران اسد نے سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم بچے کیلئے مہم شروع کردی اس مہم سے اتنا اسے معلوم ہوا کہ ہمت مرداں مدد خدا ' ' اللہ تعالی کا کرنا پھر یوں ہوا کہ اس بچے کے گھر کے اخراجات کیلئے متعدد افراد نے یقین دہانی کروائی اور یوں محمد عمران نے سوشل میڈیا کی مہم نے ایک معصوم بچے کو کباڑ چننے سے اٹھا کر تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے پر لگا دیا . اس کاوش نے محمد عمران کی حوصلے کوبڑھا دیا ' کہ اگر یہی مہم اس طرح چلائی جائے تو پھر اس کے ذریعے علاقے میں بہت ساری بیوائیوں ' یتیموں اور جہیز کے انتظار میں بیٹھی بچیوں کی ذمہ داریوں سے بہت سارے افراد کو نکالا جاسکتا ہے . کم و بیش دس سال قبل شروع کئے جانیوالے اس مہم میں محمد عمران اسد کے بہت سارے دوست بن گئے جو اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ' انتظامات بھی رضاکارانہ طور پر ہوتے گئے ' اور یوں اسی سبب بہت سارے ایسے لوگوں سے ملاقات ئھی ہوئی جنہوں نے صرف اللہ کی مخلوق کی خاطر اپنی زندگی وقف کی تھی اور بعض ایسے نیک دل لوگ بھی ملے جو اپنے کمائی کا ایک حصہ فلاحی کاموں میں دینا چاہتے تھے.بخشی پل کے اس نوجوان نے رمضان میں لوگوں کے گھروں سے راشن دینے کا دوسرا سلسلہ شروع کیا جو ابتداء میں صرف تین گھرانوں تک محدود تھا ' وقت کیساتھ اس میں تیزی آتی گئی اور یوں سوشل میڈیا کی طاقت سے اس نے اپنی چھوٹی سی تنظیم بھی بنا ڈالی جس میں وہ اور بیشتر افراد رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں . تین سال قبل بننے والے تنظیم کے باعث اب تک کئی بچیوں کو جن کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے جہیز کی مد میں لاکھوں روپے ملے ' سینکڑوں ایسے افراد جنہیں مختلف بیماریوں کا سامنا تھا کو ادویات اور دیگر مدوں میں لاکھوں روپے ملے ' جو مختلف صاحب حیثیت لوگوں نے تنظیم کے ذریعے دئیے ایسے کئی گھرانے ہیں جو غربت کے باعث اپنے معذور بچوں کیلئے وھیل چیئر نہیں لے سکتے تھے اسے بھی محمد عمران کی تنظیم نے وھیل چیئر لیکر دئیے اور یہ سب کام سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانیوالی مہم کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے آج اس چھوٹی سی تنظیم ہر ہفتے تین ہزار سے زائد مزدوروں کو کھانا کھلاتی ہیں اور یہ بھی صاحب حیثیت لوگوں کی مدد سے دی جاتی ہیں. اللہ تعالی کی رضا کی خاطر شروع کی جانیوالی اس مہم نے پشاور کے اس نوجوان کو ایک وقت میں اتنا بیمار کردیاکہ اس پر فالج کا حملہ ہوا ' جس کے اثرات سے وہ کسی حد تک نکل سکا ہے کیونکہ بعض اوقات یہ احساس کہ دوسروں کی اس طرح مدد نہیں کرسکا جتنا کرنا چاہئیے تھا ا لیکن یہ بھی اللہ تعالی کا کرم ہے کہ نوجوان محمد عمران اسد نے ہمت نہیں ہاری .کیونکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی اسے نبھانی پڑتی ہے گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں الگ ہیں لیکن ان سب کے باوجود آج امید ویلفیئر آرگنائزیشن کی تنظیم کا چھوٹا سا پوداس حد تک پہنچ گیا کہ یتیموں کیلئے صاحب حیثیت لوگوں اور دوستوں کے تعاون سے ایک سکول بھی شروع کردی ہے جہاں پر نرسری سے پانچویں کلاس تک معصوم بچوں کو مفت تعلیم دی جائیگی جس کا آغاز ہو چکا ہے اور اس ادارے میں یتیم بچوں کو مفت کتب ' یونیفارم بھی فراہم کی جائیگی . یہ بھی بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ تعالی عمران اسد جیسے نوجوانوں سے کام لے رہا ہے حالانکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں نوجوان سوشل میڈیا پر کیا سے کیا بنا رہے ہیں لیکن مثبت سوچ اور دوسروں کی مدد نے آج عمران اسد کو نہ صرف سب سے منفرد کردیا ہے بلکہ وہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں بھی لے رہا ہے جس کی وجہ سے آج بہت ساری غریب بچیوں کے گھر بس گئے ہیں ' مالی طور پر کمزور افراد کو مالی امداد مل رہی ہیں .
|