اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے رجب
ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم(حرمت) کرنا ہے۔ یہ حرمت والا
مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم رجب"
کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو "اصب"
بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے
خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں رجب
ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے :ترجمہ
:۔"بے شک مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اﷲ کی کتاب میں جب سے
اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو
ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو"۔ (کنز الایمان)آپ ؐ نے ارشاد فرمایا
:۔ رجب اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے ، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا
مہینہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ
ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا
اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری امت پر
خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی
عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی
ہے۔ جیساکہ آقادوجہاںؐ کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ
بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور
اس مہینے میں کافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ
ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میں ایک روزہ
رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور
ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔
امام موسٰی کاظم فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میں ایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ
ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے
رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے رجب بہشت میں ایک نہر ہے جس کا پانی
دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک
دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ
رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے
محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ
گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین
خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی
کاپروانہ عطا ہوگا۔علامہ ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ
قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ
نبی اکرمؐ کے حق میں لیلۃ المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلۃ القدر ،
اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم ؐ کو مختص کیا گیا وہ ان
(انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ ؐکو) شبِ قدر میں نصیب
ہوئے،اور امت کو جو حصہ (انعامات) شبِ قدر میں نصیب ہوا ،وہ اس سے کامل ہے
جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں
بھی بہت بڑا اعزاز ہے؛ لیکن اصل فضل ،شرف اور اعلیٰ مرتبہ اْس ہستی کے لیے
ہے جِس کو معراج کروائی گئی(مجموع الفتاویٰ،کتاب الفقہ ، ) علامہ ابن قیم
الجوزیہ رحمہ اﷲ نے بھی اسی قسم کا ایک لمبا سوال و جواب ابن تیمیہ رحمہ اﷲ
کا نقل کیا ہے ،اور اس کے بعدلکھا ہے کہ ’’اِس جیسے اْمور میں کلام کرنے کے
لیے قطعی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن کا علم ’’وحی کے بغیر ممکن نہیں‘‘
اور اِ س معاملے میں کسی تعیین کے بارے میں وحی خاموش ہے؛ لہٰذا بغیر علم
کے اِس بارے میں کلام کرنا جائز نہیں ہے‘‘۔(زاد المعاد، التفاضل بین لیلۃ
القدر)چنانچہ ! جب اتنی بات متعین ہو گئی کہ امت کے حق میں شبِ معراج کی
کوئی فضیلت منصوص نہیں، علاوہ اس بات کے کہ اس رات کا ۷۲/ رجب کو ہی ہونا
بھی قطعی نہیں ہے تو اِس رات کو یا اِس کے دن کو کسی عبادت کے لیے جداگانہ
طور پر متعین کرنا کسی طرح درست نہیں ہے،اب ذیل میں شبِ معراج کے وقتِ وقوع
کے بارے میں جمہور علماء کی تحقیق پیش کی جائے گی۔ایک اور جگہ نبی کریم صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت
تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر
ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور
تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اﷲ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوق
بندوں پر ہے۔حدیث شریف کے مطابق "رجب المرجب" اﷲ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ؐ کواسی مہینے میں معراج شریف" سے مشرف فرمایا۔
ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اﷲ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب
کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل
امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ
السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اﷲ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ
میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا
اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ
علیہ نے لکھا ہے، " حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا
عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ
الرحمہ نے جامع الاصول کے حوالہ سے یہ حدیث نقل کی ہے " حضرت انس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم
نے "لیلالرغائب" کا تذکرہ فرمایا وہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات ہے (یعنی
جمعرات کا دن گزرنے کے بعد)اس رات میں مغرب کے بعد بارہ رکعات نفل چھ سلام
سے ادا کی جاتی ہے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ القدر تین دفعہ اور
سورۂ اخلاص بارہ بارہ دفعہ پڑھے۔ رجب کی راتوں میں بیدار ہوں اور ان تینوں
راتوں میں ہر شب سو سو رکعات نماز ادا کریں (یعنی تینوں راتوں میں مجموعی
طور پر تین سو رکعات ادا کریں) ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ اور سورہ
اخلاص دس مرتبہ پڑھیں جب نماز سے فارغ ہوں تو ایک ہزار مرتبہ استغفار
پڑھیں۔ انشاء اﷲ تعالیٰ عزوجل زمانے کی جملہ بلاؤں اور آسمان کی آفتوں سے
محفوظ رہیں گے اور فلکی شر اور زمینی خرابیوں سے سلامت رہیں گے اور اگر ان
راتوں میں موت واقع ہو جائے تو شہید کا درجہ پائیں گے۔ (لطائف اشرفی )اﷲ
پاک ہمیں اس حرمت والے مہینے کی تعظیم کرنے کی توفیق عطافرمائے تاکہ آخرت
کے روز سرخروہوکے آقادوجہاں کے سامنے ہونٹوں پرمسکان سجائے کھڑے ہوں۔
|