چنگاری
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
میری ہر کوشش ناکام ہو چکی تھی۔
میں نے ہر ممکن حد تک دیکھ لیا تھا کہ میری کہانی مجھے مل جائے مگر وہ نا ملنی تھی،نہ ہی مل پائی۔دراصل میں نے سوشل میڈیا پر ایک ادبی محفل میں اپنی کہانی ارسال کی تھی۔
یہ مقابلے میں شرکت کے لئے شامل کرائی تھی مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ ہٹا دی گئی۔یہ ایک مشہور ادبی محفل تھی جہاں مقابلے کے لئے کہانیاں خاص موضوع پر لکھنی تھیں۔
میں نے اُن کی تمام شرائط کو ملحوظ خاطر یوں رکھا تھا کہ ایک پرستار نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میری کہانی”اُن شرائط کے سر پر ناچ رہی ہے“۔
سب اپنی من مرضی سے وہاں رائے دے رہے تھے،لگ بھگ نو گھنٹوں بعد وہ ہٹادی گئی تھی۔ابھی مقابلے کی شروعات ہوئیں تھیں، نتیجے سے قبل یہ کاروائی کوئی عناد ظاہر کر رہی تھی۔
مجھے کسی نے اطلا ع دیناگوارہ نہیں کیا تھا کہ کس وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے۔یہ کہانی مقابلے کی اولین کہانی تھی جو میری طرف سے لکھی گئی تھی۔
پہلے پہل تو غصہ آیا کہ میں سوشل میڈیاپر مقابلوں سے ہی دستبردار ہو جاؤں، پھر میں نے احتجاجاََ اُس ادبی محفل کو چھوڑدیا۔
اگرچہ ایک صاحب نے رائے بھی دی تھی کہ مجھے ادبی محفل کے منتظم سے بات کرنی چاہیے مگر میں نے اس بات کو اپنی بے عزتی سمجھا، کہانی کو بغیر اجازت ہٹائے جانے پر میں کیسے اُن کی رائے سنتا،اب ایک سینئر لکھاری کی کوئی عزت نفس بھی تو ہوتی ہے۔ ادب سے وابستہ افراد کی یوں کھلے عام تذلیل بے ادبی تھی اور بے ادب لوگوں سے پھر کون بات کرتا ہے۔میرے پرستار میری کہانی کے حوالے سے پوچھ رہے تھے،اب میں کیا جواب دیتا کہ کہانی نظر کیوں نہیں آرہی ہے۔
میرا جرم یہی تھا کہ میں نئے لکھاریوں کے حقوق کے لئے بہت سرگرم ہو رہا تھا۔مجھے بعد میں اندازہ ہو گیا تھا کہ کس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، دراصل کہانی کو نہیں ہٹایا گیا تھا مجھے ہی وہاں پر”بلاک“ کر دیا گیا تھا۔
پھر میں نے اپنے خلاف ہونے والی محاذ آرائی کی پہل کو یہ سوچ کر اپنی ”طاقت“ بنالیا کہ ابھی اور بھی آگے جانا ہے۔
میں نے احتجاج کے طور پر اپنا ردعمل لکھاجو میرا حق بنتا تھا۔ اور پھر نئے عنوان کو منتخب کرکے لکھنے بیٹھ گیا۔ اب جو سامنے آنا تھا وہ میرے سلگتے دل کی چنگاری تھی جس نے آگ کا روپ اختیار کرنا تھا۔ ۔ختم شد۔
|