یونیورسٹی یا سیر گاہ۔۔۔؟

تحریر:احسن چوہدری

علم ایک نور ہے جس سے انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کر کے معاشرے کے لئے زیادہ مفید اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے،تعلیم ہی کی بدولت انسان نے زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی ہے،تعلیم ہی کی بدولت انسان نے دنیا کے متعلق بہت کچھ سیکھا ہے ایک تعلیم یافتہ شخص دنیا کی بہت سے چیزوں کے متعلق علم رکھتا ہے اور دنیا میں موجود بہت چیزوں کو اپنی عقل اور علم کی بدولت استعمال کرتا ہے تعلیم ہی انسان کو تاریکی سے نکالتی ہے اور انسان تعلیم ہی کی بدولت ایک اچھا انسان بن جاتا ہے کسی برے شخص میں اگر تعلیم آ جائے یا اس کے پاس دنیاوی یا دینی علم آ جائے تو اس شخص میں بہت زیادہ تبدیلی آ جاتی ہے اور وہ شخص دنیا کے لئے مثال بن جاتا ہے یہ سب تعلیم کی ہی بدولت ہے تعلیم ہی پڑھے لکھے اور جاہل کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے ایک تعلیم یافتہ شخص کسی سے بات کرے تو دوسرا سننے والے شخص پر اس کے کافی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں ،دنیا میں تمام خزانے چوری ہوجاتے ہیں اور چھینے بھی جا سکتے ہیں ،دنیا کا ہر خزانہ لوٹا بھی جا سکتا ہے اور خزانہ خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے مگر تعلیمی خزانہ دنیوی خزانے سے کافی زیادہ درجہ رکھتا ہے کیونکہ تعلیمی خزانہ نہ تو چوری ہو سکتا ہے اور نہ اس پر قبضہ ہو سکتا ہے بلکہ اس کو خرچ کرنے سے یہ خزانہ بڑھ جاتا ہے نہ کہ کم ہوتا ہے خواہ وہ تعلیم دینی ہو یا دنیاوی نبی اکرم ﷺ نے بھی کئی مقامات پر تعلیم پر زور دیا کہ مردو خواتین علم حاصل کریں

1882میں براعظم ایشیا کی بڑی اور معروف یونیورسٹی قائم ہوئی جو کہ پنجاب یونیورسٹی ہے اور لاہور میں واقع ہے یہ یونیورسٹی دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ اولڈ کیمپس اور دوسرا حصہ نیو کیمپس کے نام سے جانا جاتا ہے نیو کیمپس کا پورا نام پنجاب یونیورسٹی قائد اعظم نیو کیمپس ہے جبکہ اولڈ کیمپس کا نام پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس ہے،پنجاب یونیورسٹی میں ہر تعلیمی شعبہ موجود ہے یونیورسٹی میں ملازمین اور طلبا ءو طالبات کے لئے تمام سہولیات ہیلتھ سنٹر،مارکیٹ اور مسجد وغیرہ موجود ہے،اس یونیورسٹی میں موجود مسجد کا رقبہ بھی کافی ہے اس میں جمعہ کے دن اور دوسرے نمازی اوقات میں ہزاروں افراداس میں نماز ادا کرتے ہیں اس میں طلبا ءوطالبات کو قرآن و حدیث کی تعلیم بھی دی جاتی ہے پنجاب یونیورسٹی تعلیم کے حوالہ سے بہت معروف یونیورسٹی ہے اس وجہ سے ہر سال اس یونیورسٹی میں لاکھوں طلبا ءو طالبات داخلہ لیتے ہیں اور یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیںلیکن بہت سے طلبا ءو طالبات یونیورسٹی میں آ کر عیش و عشرت میں پڑ جاتے ہیں اور داخلہ کے بعد خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں اور ہر قانون کو توڑنے لگتے ہیں بہت سے طالب علم طلباءتنظیموں پر زور دیتے ہیں اوران تنظیموں کے ذریعہ یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کو خراب کرتے ہیں کبھی یونیورسٹی کی سڑکیں بند اور کبھی اساتذہ کے ساتھ حد درجہ بدتمیزی کی جاتی ہے کچھ طلباءاساتذہ کو مار پیٹ بھی کرتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ یونیورسٹی میں چند دن قبل پیش آیا جس میں اساتذہ کی تضحیک کی گئی اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،ایسا تعلیمی ادارہ جہاں اساتذہ کی عزت نہیں ہو گی وہاں پر دوسرے طالب علم بھی ایک فرد کی بد نظمی کی وجہ سے صحیح طرح تعلیم حاصل نہیں کر سکتے،ہمارے ایک استاد مدثر حسین تعلیمی دور میں یہ فقرہ بہت زیادہ کہا کرتے تھے ”با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب“اور ہمیں اس فقرہ سے سمجھایا کرتے تھے کہ جو طالب علم اساتذہ کی عزت کرتے ہیں انکا مستقبل اچھا ہو گا اور جو طالب علم اساتذة کی عزت حترام نہیں کرے گا وہ تعلیم میں بھی کمزور ہو گا اور اس کا مستقبل بھی تباہ ہو جائے گا

پنجاب یونیورسٹی میں بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ دوستیاں کرنے آتے ہیں اور وہ متعلقہ شعبہ کے کلاس روم کے باہر بیٹھ کر سارا دن گپوں میں گزار دیتے ہیں وہ اس وقت اس چیز کا خیال نہیں کرتے کہ وہ اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیںاور گزرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اور نہ ہی وقت کسی کا انتظار کرتا ہے اور بعد میں طالب علم اپنے ضائع کیئے ہوئے وقت پر پچھتاتے ہیں لیکن تب قیمتی وقت گزر چکا ہوتا ہے اور وہ اپنا مستقبل تباہ کرچکے ہوتے ہیںبعض طلباءیونیورسٹی کو تدریس گاہ نہیں بلکہ حاضری گاہ سمجھتے ہیں جہاں حاضری لگوا کر سارا دن گپوں میں ضائع کیا جاتا ہے،یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے آنے والے بعض طلبا کا تعلق امیر گھرانوں سے ہوتا ہے وہ طلباءاپنی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے بلکہ غرور میں رہتے ہیں کہ اگر فیل بھی ہو گئے تو کیا ہوا کوئی کاروبار کر لیں گے بعض طلبا جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے ان کے والدین قرض لے کر یا محنت مزدوری کر کے اپنی اولاد کو تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں مگروہ بھی یونیورسٹی میں امیر زادوں کے ساتھ ملکرسیرو تفریح میں لگے رہتے ہیں اور اپنے والدین کا پیسہ،اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں بعض طلبا سمجھتے ہیں کہ ہم شروع کی کلاسوں میں اچھے نمبر لے چکے آئیندہ بھی ہم اچھے نمبر لیں گے اور وہ محنت نہیں کرتے اسی خوش فہمی میں ہی رہ جاتے ہیں اور نا لائق طلباءان سے آگے نکل جاتے ہیں ،کچھ اساتذہ بھی لایق طلباءپر توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے نارمل طالب علم اپنے تعلیمی درجہ سے نیچے گر جاتا ہے ،اب تو یونیورسٹی سیر گاہ کی طرح بن گئی ہے اس بات کا ذمہ دار جہاں یونیورسٹی انتظامیہ ہے وہیں طالب علم بھی ہیں کیونکہ اگر طالب علم محنت نہیں کرتے تو انتظامیہ کو سرزنش کرنی چاہئے اور اگر اساتذہ کہیں کوئی کوتاہی کرتے ہیں تو طلباءکو چاہئے کہ یونیورسٹی انتظامہیہ کو اس سے آگاہ رکھیں ہم اپنے روشن اور تابناک مستقبل کے بارے میں تب ہی پر امید رہ سکتے ہیں جب ہم آج اپنے نظام تعلیم کو متوازن ، فعال ، صحیح نہج اور سمت دینے میں کامیاب ہوں گے اگرہم نے اپنی ذمہ داریوں سے آج غفلت برتی تو ہمارا مستقبل تاریک اور آنے والی نسل ہمیں نااہل او ربے بصیرت گردانے گی دانشمندی اور دوراندیشی کا تقاضا ہے کہ ہم نظام تعلیم کو اوّلین ترجیح دے کر وقت کے تقاضوں کے مطابق تعمیر ،تطہیر کرکے پائیدار بنیادوں پر استوار کریں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کو سیاسی اختلافات اور تنازعوں کا شکارنہ بنایا جائے بلکہ سیاست سے بالاتر رکھاجائے تاکہ یہ نظام تعلیم آزادانہ ماحول میں خوب نشوونما اور ترقی حاصل کرسکے جس سے معاشرہ میں پائیدار زندگی کا شعور،پختہ اور تیز تر ہوجائے اور فکر وعمل میں بیداری ہوجائے۔
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 63862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.