ایک زمانہ تھا جب کم پڑھے لکھے بے روزگار
نوجوانوں کو کسی بھی کمپنی یا دفتر میں آفس بوائے، چپراسی، کلرک اور پیون
کی نوکری بآسانی مل جایا کرتی تھی اور چھوٹے سے چھوٹے آفس میں بھی کلرک یا
پیون وغیرہ آفس کا ایک لازمی جز ہوا کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دَور میں جدید
ترقی کے بڑھتے ہوئے اثرات جیسے کمپیوٹر ، انٹرنیٹ، موبائل فون کی سہولیات
کی بدولت مذکورہ بالا افراد کی ضرورت نے مذکورہ اسامیاں تقریباًختم سی کردی
ہیں۔ماضی میں یہ پیشے نچلے درجے کے ہونے کے باوجود باعزت تصور کیے جاتے تھے۔
لیکن مذکورہ شعبوں میں ملازمت کے مواقع کم ہوجانے کی وجہ سے اب کم پڑھے
لکھے ناخواندہ افراد پیسہ کمانے کے لیے ٹیکسی/ رکشہ چلانے، رستوں پر پتھارا
لگانے وغیرہ جیسے کمتر پیشے اپنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ہمارا یہاں یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ایس ایس سی (دسویں) میں کامیابی کے بعد
مسلم نوجوان اور والدین یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ایس ایس سی کے
بعد کیا کیا جائے، جو اچھے مستقبل کی ضمانت ثابت ہو۔ انھیں یہ سمجھ میں
نہیں آتا کہ تعلیم کی کونسی راہ اختیار کریں جس پر چل کر مستقبل میں وہ
اعلیٰ ملازمت حاصل کرسکیں اور ایک خوش گوار زندگی گزار سکیں۔ چونکہ اکثر
نوجوانوں کے والدین کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اس لیے وہ اس سلسلے میں
رہنمائی نہیں کر پاتے۔ حالانکہ آج پہلے جیسے حالات نہیں رہے۔ تعلیمی
رہنمائی کے لیے مختلف ماہرینِ تعلیم اور ادارے طلبا کی رہنمائی کا کام کرتے
ہیں۔ لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے کہ ہمارے مسلم نوجوان اور والدین اخبار
پڑھنے کی عادت نہیں رکھتے، ورنہ انہیں اخبارات کے ذریعے ہر طرح کی مفید
معلومات فراہم ہوجایا کرے۔ ہم اخبار دیکھتے ہیں تو یہ جاننے کے لیے کہ کون
سی نئی فلم لگی ہے اور کون سی نئی فلم آنے والی ہے۔
موجودہ دَور میں تعلیم کا حصول صرف اور صرف دولت کمانے سے جوڑ دیا گیا ہے۔
اس لیے ہر والدین اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان کے بچے جلد سے جلد تعلیم حاصل
کرکے زیادہ سے زیادہ کمائیں اور گھر بھر دیں۔ لیکن بچوں کو صحیح تعلیمی
رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے اکثر وہ صحیح ہدف (target) کا انتخاب نہیں
کرپاتے، اور ایسی لائن کا انتخاب کرلیتے ہیں جو شارٹ کٹ کے بجائے لانگ کٹ
بن جاتی ہے۔ پھر تعلیم کی عمر گزر جانے کے بعد سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ
نہیں آتا۔
چونکہ نوجوان مختلف قسم کی ملازمت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
اس لیے وہ اپنے کیرئیر کے لیے صحیح راستے کا انتخاب نہیں کرپاتے۔ بہت سے
نوجوان یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ
ادوار میں محدود قسم کی ملازمتیں دستیاب تھیں جن کے حصول کے لیے زیادہ
اعلیٰ تعلیم و صلاحیتوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ لیکن ترقی کی رفتار اس قدر
تیزی سے بدل رہی ہے کہ آج سے ۰۲ یا ۰۱ سال بعد یہاں تک کہ ۵ سال بعد کیا
ہوگا ہم کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ تیزی سے بدلتے ادوار میں تخلیقی
صلاحیتوں میں اضافہ بہت ضروری ہوگیا ہے۔
ہم یہاں پر والدین کی رہنمائی کے لیے ”چند پند سود مند“ تحریر کررہے ہیں،
جن پر عمل کرکے ان شاءاللہ آپ کامیابی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوسکتے
ہیں۔
ایپٹی ٹیوٹ ٹیسٹ (Aptitute Test): یعنی رجحان کی جانچ۔ ہر بچہ پیدائش سے ہی
الگ فطرت کا حامل ہوتا ہے۔ بچے کی پرورش کے دوران ہی اس بات پر نظر رکھی
جائے کہ بچے کی فطری پسند یا ناپسند کیا ہے۔یعنی بچہ کس قسم کے کھیل میں
زیادہ دل چسپی لیتا ہے، کون سے کھلونے سے کھیلنا زیادہ پسند کرتا ہے وغیرہ۔
اور ایس ایس سی پہنچنے سے پہلے ہی کسی ماہرِ نفسیات یا کاؤنسلر سے بچے کے
رجحان کی جانچ (Aptitute Test) کروائی جائے۔
اکثر بچوں کا رجحان کچھ اور ہوتا ہے اور والدین انھیں جبری طور پر اپنی من
مرضی کی تعلیم کے حصول میں لگا دیتے ہیں۔ احقر کا عملی تجربہ ہے کہ والدین
کی خواہش یہ تھی کہ مَیں ڈاکٹر بنوں، اس لیے ایس ایس سی کرنے کے بعد انہوں
نے سائنس میں میرا داخلہ کروانے کی کوشش کی، مگر پرسنٹیج (Percentage)کم
ہونے کی وجہ سے داخلہ نہ مل سکا، تو کامرس میں ایڈمیشن کرادیا گیا۔ جبکہ
میرا رجحان آرٹس کی طرف تھایعنی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور لکھنا۔ کامرس سے
گریجویشن کرنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ اکاؤنٹس کا کام کیا لیکن اس کام میں
دل نہیں لگتا تھا۔ ساتھ میں لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بالآخر
اکاؤنٹس کا کام چھوڑ کر اب مستقل لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوگیا۔ اگر ابتدا
ہی میں میرا داخلہ آرٹس میں کر دیا جاتا تو میرے کئی سال برباد ہونے سے بچ
جاتے۔ اور ہوسکتا ہے کہ احقر ایک کامیاب صحافی یا مصنف بن جاتا۔
کردار کی تعمیر: بچوں اور نوجوانوں کو اچھے اخلاق و کردار کی تربیت دیں،
بلکہ خود اس کا عملی نمونہ بن کر دکھائیں۔ کچھ صلاحیتیں نوجوانوں کو آسانی
سے کامیابی کی طرف ہمکنار کرسکتی ہیں۔ جیسے سخت کام کرنے کی عادت ڈالنا اور
زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرنا، اچھا لکھنے اور بولنے کی عمدہ
صلاحیت پیدا کرنا، خود انحصاری اور دوسروں کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت پیدا
کرنا۔
حوصلہ افزائی: حوصلہ افزائی ایک ایسا گر ہے جو جادو جیسا کام کرتا ہے اور
کمزور سے کمزور شخص کو بھی پہاڑ کی چوٹی سر کروانے جیسا کام لے لیتا ہے۔
بچوں میں اچھی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہر لمحہ انھیں حوصلہ افزائی
کریں۔ بچوں کی صلاحیت پروان چڑھانے کے لیے ان کی مدد کیجیے تاکہ وہ جو بھی
کام کریں، کامیابی اُن کے قدم چومے۔ اور ان کے لیے بہترین ملازمت کا حصول
آسان ثابت ہو۔
یوں تو آج تعلیمی شعبوں میں اتنی راہیں نکل آئی ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
ان میں سے کسی بھی فیلڈ میں اگر اچھی محنت کرکے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ
کیا جائے تو اعلیٰ ملازمت اور پُرکشش تنخواہ کا حصول کوئی مشکل کام نہیں۔
مثلا انفارمیشن ٹیکنالوجی(آئی ٹی)، بزنس مینجمنٹ، کال سینٹرس، میڈیا، سیلس/
مارکیٹنگ ایکزیکٹیو، منیجمنٹ ٹرینی / ایچ آر، ائیر لائن، ہوٹل انڈسٹری
وغیرہ چند نام ہیں، مگر ان میں سے ہر شعبے کی کئی کئی شاخیں ہیں۔ شرط ہے کہ
محنت سے عمدہ نتائج حاصل کیے جائیں۔
مزید برآں یہ کہ آج صرف تعلیمی اسناد یعنی ڈگریوں کی اہمیت نہیں رہی جب تک
آپ کے پاس کوئی ہنر نہ ہو یا کوئی پروفیشنل کورس نہ کرلیا ہو۔ اس کے علاوہ
کسی بھی میدان میں مہارت یعنی اسپیشلائزیشن کا زمانہ ہے۔ لہٰذا ہر جگہ
ماہرین کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
مزید یہ کہ جدید ترقی کا تحفہ یعنی انٹرنیٹ کی بدولت بھی روزگار کے بے شمار
مواقع نکل آئے ہیں: ٭ ملٹی میڈیا ٭ اینی میشن ٭ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ اور گھر
بیٹھے روزگار مثلاً لکھنا، ایڈیٹنگ، آن لائن سروے، ویب سائٹ ڈیولپمنٹ، سافٹ
وئیر پروگرامنگ، ڈیٹا انٹری، ڈیٹا پروسیسنگ، ڈیٹا کنورسن، آن لائن
ایڈورٹائزمنٹ پلیس مینٹ، کاپی رائٹنگ وغیرہ٭ آن لائن ٹیچنگ (مغربی ممالک کے
بہت سے کالج، یونی ورسٹیاںاور تعلیمی ادارے ہندوستان کے ٹیچرس سے بذریعہ
انٹرنیٹ تعلیم حاصل کررہے ہیں)
وہ زمانے لد گئے جب زیادہ کمانے کے لیے نوجوان دبئی، خلیجی ممالک یا مغربی
ممالک کا رُخ کیا کرتے تھے۔ آج نوجوان اگر صحیح سمت میں خوب لگن سے محنت
کریں تو ان کے لیے یہیں دبئی ہے، یہیں امریکہ، انگلینڈ جیسی اعلیٰ تنخواہیں
ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ اور مغربی ممالک کی بے شمار بڑی بڑی کمپنیوں
نے ہندوستان میں اپنے آفس کھول لیے ہیں، جو یہاں کے نوجوانوں کو ملازم رکھ
کر اعلیٰ تنخواہیں، گاڑی، فلیٹ جیسی تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں۔اس کے
علاوہ ہندوستان کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو ابتدائی طور پر
پچاس ہزار سے لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دیتی ہے ، جس میں سال بہ سال اضافہ
ہوتا رہتا ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
آخر میں نوجوان نسل سے میری گزارش ہے کہ وہ کتنی ہی اعلیٰ تعلیم حاصل
کرلیں، کتنا بھی مال و دولت کمالیںلیکن اپنے دین و ایمان کو نہ بھولیں۔
اللہ نے ہمیں دنیا میں صرف اس لیے نہیں بھیجا کہ ہم زیادہ سے زیادہ دولت
کماکر پُر تعیش زندگیاں گزاریں اور مر جائیں۔ صرف پیسہ کمانا ہی مقصدِ
زندگی نہ بنایا جائے۔ ایمان ہماری سب سے بڑی دولت ہے۔ اللہ نے رزق دینے کا
وعدہ تو کیا ہے، لیکن ایمان کے تحفظ کا وعدہ نہیں کیا۔ اس لیے ایمان کی
سلامتی کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے رہیں ان شاءاللہ دونوں
جہاں میں کامیابی و کامرانی حاصل کی جاسکتی ہے۔ |