کچھ لوگوں کو مولویوں سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے. میں
بھی مولوی، مدارس و جامعات کے نظام اور نصاب پر سخت تنقید کرتا رہتا ہوں
لیکن واللہ مجھے مولویوں سے نفرت نہیں محبت ہے.. مدارس و دینی جامعات کے
نظم و نسق پر تنقید کے باوجود دنیا کے سب سے بڑے این جی اوز سمجھتا.
جن لوگوں کو مولویوں کے چندہ پر اعتراض ہوتا ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ
وہ بھی چندہ پر ہی پلتے ہیں بلکہ ان کا زبردستی چندہ مکروہ ترین چندہ ہوتا
ہے.
ایسے ہی اک گورنمنٹ ملازم سے مکالمہ ہوا. وہ بڑے گریڈ میں سرکاری نوکر ہیں.
کہنے لگے مولویوں کا کام چندہ کے سوا کیا ہے؟
ان سے کہا
بھائی آپ بھی تو چندہ پر پل رہے ہیں، بلکہ عیاشیاں اُڑا رہے ہو، کونسا خود
کما کر کھاتے ہو؟
وہ پہلے تو خوب برانگیختہ ہوا پھر کہا وہ کیسے؟
عرض کیا! جناب مولوی تو ان لوگوں سے چندہ کررہا ہے جو امیر ہیں، خود رضامند
ہوکر بڑی عزت سے چندہ دیتے بلکہ خود لاکر مدارس و مساجد اور دیگر فلاحی
اداروں میں دے جاتے ہیں. ان پر کوئی جبر بھی نہیں ہوتا.
مگر سرکاری ملازم تو قوم کی ٹیکس پر پلتے ہیں.مہنگائی کے عالم میں غریب قوم
ٹیکس نہیں دینا چاہتی مگر زبردستی لی جاتی ہے. ہر قسم کا ٹیکس دینا ہوتا
ہے. انتہائی مستحق اور غریب آدمی بھی مختلف مدوں میں ٹیکس ادا کررہا ہوتا
ہے اور سرکاری ملازم کی تنخواہ، گھر،مراعات، گاڑی اور ٹی اے ڈی اے وغیرہ ان
غریب انسانوں کی ٹیکس سے برابر کیا جاتا ہے. اوپر سے رشوت اور غبن الگ کرتے
ہیں. یہ سب چندہ سے کئی گنا بدتر ہے.
یقین جانیں!
بڑے صاحب کی بولتی بند ہوتی جارہی تھی اور لال پیلا ہورہا تھا.
بھائی آپ کو مولویوں سے کیا تکلیف ہے. اگر چندہ کرکے غریب کے بچوں کو جیسے
تیسے پڑھا رہے اور کھلا رہے ہیں تو آپ ان کا معاون بنیے، ان کو سمجھائیں.
جدید دنیا کیساتھ چلنے کی تراکیب بتائیں.
ویسے ہی خدا واسطے کی نفرت بھی تو ٹھیک نہیں. غریب عوام کی ٹیکس پر پلنی
والی مخلوق دنوں کا کام ہفتوں میں، ہفتوں کا مہینوں میں اور مہینوں کا
سالوں میں کرتی ہے اور تنخواہیں اور مراعات کام سے 100 گنا زیادہ ہیں ایسے
میں اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پر کیچڑ اچھالنا یقیناً دانشمندی نہیں.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|