ٹریفک پولیس کے بارے میں ایک لمبے عرصے سے سنتے اور
دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ اس میں فرائض انجام دینے والے اہلکار بہت اچھے اور
خوش اخلاق ہوتے ہیں وہ کسی سے بھی کوئی بداخلاقی نہیں کرتے ہیں نہ کسی کے
ساتھ کوئی زیادتی کرتے ہیں ٹریفک پولیس کے زیادہ متعقد ہونے کی بڑی وجہ یہ
تھی کہ کلرسیداں میں پچھلے کئی سالوں سے ایک ایسی ہی ٹیم کام کر رہی تھی جو
واقع ہی دیانتدار خوش اخلاق، اور ایک اچھی شہرت رکھنے والے اہلکار وں پر
مشتمعل رہی ہے جن میں سر فہرست عمران نواب خان، عنصر قریشی،ماجد حسین، واصف
محمود، محمد عادل جیسے اہلکاران شامل تھے انہوں نے کلرسیداں میں اپنی
تعیناتی کے دوران کبھی بھی کسی قسم کا کوئی نا خوشگوار واقعہ کلرسیداں کے
قریب سے بھی نہ گزرنے دیا ہے اس ٹیم نے بڑی مہارت کے ساتھ تمام معاملات
سنبھالے رکھے ہیں خاص طور پر انچارج عمران نواب خان نے تو کلرسیداں میں
نہایت ہی احسن طریقے سے اپنے فرائض نبھائے رکھے ہیں ان کی پوری ٹیم نے
ٹریفک رولز کی خلاف کرنے والوں کے ساتھ بھی نمٹا عوام کو بھی مطمئن کیئے
رکھا شکایت کنندگان کی شکایات پر بھی زبردست کاروائیاں کیں اور کوئی مسئلہ
بھی پیش نہیں آنے دیا ان تمام تر کاموں میں ان کی اور ان کی پوری ٹیم کی
زہانت اور اعلی حکمت عملی کا کردار کار فرما رہا ہے انہوں نے نظام کو بہت
احسن طریقے سے چلایا اور اسی وجہ سے کلرسیداں کے عوام آج بھی ان کو یاد کر
رہے ہیں اور ان کی یہاں دوبارہ تعیناتی کا بھی انتظار کر رہے ہیں اب یہ
ساری ٹیم یہاں سے ادھر ادھر کر دی گئی ہے اس ٹیم کے اعلی اخلاق کی وجہ سے
عوام پورے محکمے کو اچھا سمجھ رہے تھے اب یہ تاثر ذائل ہوتا جا رہا ہے جس
وجہ سے ٹریفک کے بے پناہ مسائل پیدا ہو چکے ہیں بہر حال بات ہو رہی تھی
ٹریفک پولیس کی اچھائی برائی کی یہ تمام باتیں اس وقت دم توڑ گئیں اور
ٹریفک پولیس کے بارے میں جو ایک اچھی رائے تھی اس وقت چکنا چور ہو گئی جب
گزشہ جمعہ کو میں کلرسیداں سے شاہ باغ پہنچا تو اسوقت پورے 3بجے تھے لوگوں
کا ایک بڑا ہجوم دیکھا قریب جا کر دیکھنے پر پتہ چلا کہ ایک ٹریفک وارڈن کی
گاڑی کھڑی تھی جس کے آس پاس 4وارڈن اہلکار کھڑے تھے ان میں سے دو اہلکار
ایک بزرگ شخص کو دھکے مار کر گاڑی میں ڈال رہے تھے اور ایک نوجوان لڑکا
وارڈن اہلکاروں کی منت سماجت کر رہا تھا کہ میرے باپ کو چھوڑ دو اور ہمارا
سامان واپس کر دویہی کشمکش جاری تھی کہ اسی دوران وہاں پر ایک نا معلوم شخص
آیا اس نے تمام وارڈن اہلکاروں کو اپنی طرف مخاطب کیا اور بڑے مہذب انداز
میں بولا کہ یار آپ لوگ اس شخص کو دھکے کیوں مار رہے تھے اور اس کو گالیاں
کیوں دے رہے تھے اگر اس نے کوئی غلطی کی ہے تو آپ اس کو تھانے میں بند کروا
دیں باقی وارڈن تو خاموش رہے ان میں سے ایک لمبی داڑھی والے اہلکار جس کی
داڑھی میں بے شمار سفید بال بھی دکھائی دے رہے تھے نے اس شخص کو جواب دیا
کہ گالی دینا ہمارا روز کا کام ہے تم جاؤ اپنا کام کرو اس شخص نے اپنا سوال
دہرایا کہ گالیاں دینا آپ لوگوں کا روز کا کام ہے مذکورہ اہلکار نے اپنے
جواب میں مزید اضافہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ گالی دینا ہمارا روز اور روٹین
کا کام ہے وہ شخص جو بظاہر پڑھا لکھا نظر آ رہا تھا نے انتہائی مایوس ہو کر
کہا کہ ٹریفک پولیس کا گالیاں دینا روز کا کام ہے تو پھر اس پولیس کا اﷲ ہی
حافظ ہے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے وہ نا معلوم شخص مجمے سے باہر نکل گیا ،
اسی دوران وہاں پر ایک اور یعنی پانچویں سہیل نامی وارڈن بھی پہنچ گے زیادہ
تفصیل بیان نہیں کروں گاان کا کردار بھی قابل افسوس تھا اہلکاروں نے اس
بزرگ شخص جس کو وہ پہلے ہی دھکے دے کر گاڑی میں ڈال چکے تھے ساتھ ہی اس کے
بیٹے جو اپنے والد کو چھڑانے کیلیئے ان کی منتیں کر رہا تھا کو بھی دھکے
مارتے ہوئے زبردستی گاڑی میں ڈال دیااور وہاں سے نکل گئے ان کے جانے کے بعد
وہاں پر کھڑے افراد سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہوا ہے پتہ چلا کہ وہ بزرگ شخص
جس کو وارڈن والے لے کر گے ہیں اس نے مچھلی کی ریڑی لگا رکھی تھی انہوں نے
اس کا سامان اور دونوں باپ بیٹوں کو پکڑ کر تھانے لے گے ہیں بعد میں کیا
ہوا علم میں نہیں ہے سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر اس بزرگ شخص نے ریڑھی روڈ
میں لگا رکھی تھی تو اس کو وارننگ جاری کرتے اس کو تھانے میں بند کروا دیتے
اس پر کوئی مقدمہ بنوا دیتے کوئی اور سزا دیتے ٹریفک پولیس کو یہ اختیار کس
نے دیا ہے کہ وہ سامان ضبط کرے دھکے اور گالیاں دے اور اوپر سے بجائے
شرمندگی کے اظہار کہ بلکہ یہ فخر سے کہے کہ گالیاں دینا ہمارا روز کا کام
ہے سب سے بڑھ کر کیا ٹریفک پولیس خود سے کسی کو گرفتار کر سکتی ہے ایسا ہر
گز نہیں ہے کوئی قانون کسی کو گالیاں دینے اور دھکے مارنے کی اجازت نہیں
دیتا ہے یہ چند اہلکار پورے محکمے کی بدنامی کا باعث بنے ہیں یہ سارا واقعہ
دیکھتے ہوئے سخت شرمندگی اور ندامت محسوس ہو رہی تھی یہ اہلکار اپنے پورے
محکمے کی بدنامی کی وجہ تو بنے ہی ہیں انہوں نے اپنی اس غیر قانونی حرکت سے
کلرسیداں ٹریفک سرکل کو بھی بدنام کر دیا ہے کلرسیداں جو پر امن عوام کا
علاقہ ہے اس میں اس طرح کے اہلکار ان کی تعیناتی سمجھ سے بالا تر ہے مقصد
کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ اصلاح ہے پولیس اہلکار اس بات کو مد نظر
کیوں نہیں رکھتے ہیں کہ محکمے میں تو آپ سفارش سے کام چلا لیں گے لیکن ایک
دن ایک ایسے محکمے میں بھی پیش ہونا پڑے گا جہاں پر کوئی سفارش نہیں چلے گی
ہاں البتہ کسی غریب ریڑھی والے کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو گی تو اس کی دعا
شاید کام آ جائے نوکری بھی ایک دن ختم ہو جائے گی پھر گھر میں بیٹھ کر
لوگوں کی ساتھ کی گئی زیادتیوں پر پچھتانے کے بجائے دوران سروس ایسے کام
کریں جن سے کسی غریب کی بھلائی ممکن ہو سکیامید ہے محکمہ کے افسران مذکورہ
اہلکاروں کو اپنے پاس بٹھا کر ان کو خوش اخلاقی کا درس ضرور دیں گے اور ان
کو اس حوالے سے اہم ہدایات بھی جاری کریں گے بہر حال صرف چند اہلکاروں کے
رویئے کی وجہ سے سارے محکمے کا کوئی قصور نہیں ہے بہت اچھے اچھے اہلکار بھی
اس پولیس کا حصہ ہیں کلرسیداں والوں کو بھی ایسے ہی اہلکاروں کی شدید ضرورت
محسوس ہو رہی ہے
|