پاکستان میں ’’توہین مذہب یا توہین رسالتؐ‘‘کے الزام میں
کتنے ہی لوگوں کو صفائی کا موقع دئیے گئے بغیر سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر
قتل کرنے کا ایک ایسا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ جہاں جس کا دل چاہتا ہے
وہ کسی بھی بے گناہ انسان پر توہین مذہب یا توہین رسالتؐ کا الزام لگا کر
اس کی جان لے لیتا ہے ۔سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر پر تشدد کرکے اسے مارنے
اور بعد ازاں اس کی لاش کو جلا ڈالنے کے واقعے کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں
گذرا کہ گذشتہ روز خانیوال (تلمبہ) میں ایک 50سالہ مخبوط الحواس شخص مشتاق
احمدکو مقدس اوراق نذر آتش کئے جانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،اسے قتل
کرکے اس کی لاش کو درخت سے لٹکا دیا گیا ۔موقع پر ایک ہجوم تھا ، اس عمل
میں سینکڑوں لوگ شریک ہو گئے ۔ظلم کی انتہاء یہ ہے ایسے مواقعوں پر پولیس
بھی بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے یا منظر سے غائب ہونے میں ہی عافیت
سمجھتی ہے ۔اسی طرح اسی طرح رواں ہفتے فیصل آباد کے علاقے تندلیاں والہ میں
ایک پْرتشدد ہجوم نے مبینہ طور پر قرآن پاک کے صفحات نذرِ آتش کرنے پر ایک
شخص کو حملہ کر کے زخمی کردیا۔
ان دو واقعات کی روشنی میں دارالعلوم جامعہ نعیمہ لاہور کے ناظم اعلیٰ
علامہ ڈاکٹر مفتی راغب حسین نعیمی نے توہین مذہب سے متعلق اہم شرعی فتویٰ
جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین قرآن کا الزام لگا کر کسی انسان کا قتل
جائز نہیں ،خود قانون کو ہاتھ میں لے کر یاسے گھناؤنے فعل کی اسلام میں
قطعاًاجازت نہیں ،قوانین کی پاسداری میں معاشرے کا امن اور انسانی زندگی کا
تحفظ ہے ۔
ادھرچیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ان دو واقعات پر سخت تشویش کا
اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ’’قانون کو ہاتھ میں لینا اور خود ہی مدعی،
گواہ اور جج بننا کسی طور پر ایک شہری کے لیے قانوناً اور شرعی طور پر درست
نہیں‘‘۔اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایازکی
اپیل پر آئمہ مساجد اور خطبائے کرام نے خطبہ جمعہ میں خانیوال اور فیصل
آباد میں توہین مذہب اور توہین قرآن کے الزامات میں ہجوم کی طرف سے قانون
کو ہاتھ میں لینے کے واقعات کی بھرپور مذمت کی ۔اور لوگوں کو اسلامی
تعلیمات کی روشنی میں معاملات سے آگاہ کیا ۔
توہین مذہب کے نام پر ظلم ڈھاتے وقت یہ لوگ ’’احترام انسانیت ‘‘ بھی بھول
جاتے ہیں ۔خانیوال (تلمبہ) کے واقعہ میں ملوث 128کے قریب لوگوں کو گرفتار
کیا گیا ہے ۔لیکن اس اقدام کا بھی کوئی فائدہ نہیں ۔جب تک چند ایک لوگوں کو
سرعام نشان ِ عبرت نہیں بنایا جاتا۔المیہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے ایک وطیرہ
بنا لیا ہے کہ کسی بھی مخالف یا غریب پر ’’توہین ‘‘کاالزام لگا کر اسے
مارڈالتے ہیں ۔ ایسے مظلوم کو بچانے کے لئے کوئی آگے نہیں آتا اور نہ ہی
کسی مظلوم کی جان لینے پرحکومت ،انتظامیہ اورپولیس ظالموں کے خلاف کوئی
کارروائی کرنے کی زحمت گوارا کرتی ہے ۔اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کو
ہماری عدالتیں بھی نشان عبرت بنانے کی کوشش نہیں کرتیں ۔وقتی طور پر ادارے
حرکت میں آتے ہیں ،پکڑ دھکڑہوتی ہے جونہی معاملہ ٹھنڈا ہوتا ہے ،اوّل تو
پولیس ہی سارا کیس خراب کر دیتی ہے ،رہی سہی کسر مجرموں کو بّری کرکے نکال
دی جاتی ہے ۔ اگر کسی ایک کیس میں بھی ایسے ظالموں میں سے دو چار کو ہی
پھانسی پر چڑھا دیا جائے تو آئندہ کے لیے لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے سے
پہلے ہزار بار سوچیں ۔لیکن ظالم اچھے سے جانتے ہیں کہ عدالتیں یا پولیس ان
کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔’’چمک ‘‘اور’’سفارش ‘‘کے ساتھ اکثر ’’شک‘‘ کا
فائدہ دے کر مجرموں کو بّری کر دیا جاتا ہے ۔سری لنکن مینجر کے قتل میں
ملوث عناصر نشان عبرت بنانے کی بجائے بیشتر افراد کو بے گناہ قرار دیا جا
چکا ہے ۔بسا اوقات ورثا ء کو قصاص کی ادائیگی کرکے مجرموں کو رہائی دے دی
جاتی ہے ۔کس قدر المیہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر لوگ خود قانون ہاتھ
میں لے لیتے ہیں ۔اورچونکہ ہجوم کی وجہ سے کسی ایک بھی ظالم کو سزا دینا
قرین انصاف نہیں سمجھا جاتا ہے ۔اس لئے عدالتیں بھی ایسے مجرموں کو بّری کر
دیتی ہیں ۔
اسلام تو امن کا دین ہے ،اسلام کسی انسان حتیٰ کہ جانور کی بھی یوں جان
لینے کی اجازت نہیں دیتا ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دین اسلام سے کوسوں دور
ہیں ۔سال ہا سال ہمیں اﷲ تعالیٰ قرآن پاک پڑھنے کی توفیق دیتا ہے اور نہ ہی
ہم قرانی تعلیمات اور فرامین رسول ؐ کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔ہمارا مرکز و
محور یو ٹیوب ،فیس بک اورواٹس ایپ کی صورت ’’سوشل میڈیا ‘‘بن چکا ہے ۔اگر
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم دن رات یعنی 24گھنٹے سوشل میڈیا میں
کھوئے رہتے ہیں ۔موبائل ہمارے پاس ہوتا ہے ۔ہم جہاں کہیں ظلم ہوتا دیکھتے
ہیں وہیں ظالم کا ہاتھ روکنے کی بجائے ’’وڈیو‘‘بنانے میں لگ جاتے ہیں
۔ہماری یہ بے حسی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہے ۔اور ہم ظلم کی
وڈیوبناکر سوشل میڈیا پر ایک تماشا لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔اور یہ سمجھتے
ہیں کہ ہم نے تو ظلم کی نشاندہی کرکے اپنا حق ادا کر دیا ہے ۔حقیقت تو یہ
ہے ظلم کرنے والا تو ٹھہرا ظالم ،لیکن ہم وڈیوز بناکر اسے سوشل میڈیا پر اپ
لوڈ کرکے عملی طور پریہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ظالم ایک مظلوم پر ظلم کے
پہاڑ توڑ رہا تھااور ہم مظلوم کی مددکرنے کی بجائے اس کی بے توقیری کواپنے
موبائل فون میں محفوظ کررہے تھے۔ہم کمزور ایمان کی اس منزل پر کھڑے ہوتے
ہیں کہ جہاں ہم ظالم کا ہاتھ روکنے کی جرات نہیں کر سکتے ۔لیکن انسانیت کی
ذلیل کے واقعہ کو وڈیو کی صورت محفوظ کر لیتے ہیں ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کر
لینا چاہئے کہ ہم جہاں مظلوم انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے دنیا میں
گواہ اور مجرم ہیں وہاں ہم روزمحشر بھی’’ مجرم‘‘کی صورت اﷲ کے دربار میں
پیش ہوں گے ۔اور یہ وہ دن ہوگا جب ہمیں ہمارا ربّ بھی ’’قتلِ ناحق ‘‘پرمعاف
نہیں کریگا ۔کیونکہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک مظلوم کو قتل کردیا گیا ۔اس
کی لاش کو جلا دیا گیا لیکن ہم نے مظلوم کی مدد نہ کی ۔اس واقعہ پر یہاں
کسی ایک شخص کو مجرم نہیں ٹھہرایاجا سکتا ۔موقع پر موجودہر شخص ہی مجرم ہے
۔اور اس ظلم کی عکس بندی کرنے والے ’’خدائی خدمت گار ‘‘سب سے بڑے مجرم ہیں
کہ جو وڈیو بنا کراس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک بے گناہ قتل
کر دیا گیا لیکن انہوں نے اس کو بچانے کی کوشش ہی نہ کی ۔
بلاشبہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت اور ظلم و زیادتی کی اس حد سے گذر رہا ہے
کہ جہاں ہم اخلاقی قدریں فراموش کرچکے ۔ہم دنیا بھر میں امن چاہتے ہیں لیکن
اپنے دیس کاامن تباہ کرنے میں پیش پیش ہیں ۔’’توہین مذہب ‘‘سمیت کسی بھی
جرم میں ملوث افرادکو حقائق جانے بناء یا ملزم کو صفائی کا موقع دئیے
بغیرسرعام تشدد کا نشانہ بنانے،اس کی جان لینے یا لاش کو زندہ جلانے جیسے
واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت کو ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہئے ۔اس قسم کی
واقعات میں ملوث افراد کو طویل عدالتی سسٹم سے گذارنے کی بجائے فوری طور پر
ایک یا دو ہفتے کے اندراندرپھانسی پر چڑھا دینا چاہئے ۔تاکہ لوگ مجرموں کے
عبرتناک انجام سے سبق حاصل کریں اور کسی مظلوم پر ظلم ڈھانے سے قبل ہزاربار
سوچیں کہ آنے والے کل کو ان کے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے ۔
|