انصاف، قانون اور انسانی شعور

میں کوئی ادیب یا لکھاری نہیں۔ ریاضی کا ایک سیدھا سادا سا طالب علم ہوں۔ریاضی میں سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں منافقت نہیں ہوتی، دو رنگی نہیں ہوتی۔اس میں دو جمع دو ہمیشہ چار ہوتا ہے اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کوشش کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں، لمبی چوڑی مشینیں اور دنیا کے تمام عظیم سٹرکچر ریاضی کی اس سچائی کی گواہی دیتے ہیں اس لئے کہ پیمائش میں ذرہ سی بھی غلطی پورے کام کو زمین بوس کر دیتی ہے۔میں جو لکھتا ہوں اس کی اساس اسی سچائی پر ہے۔ میرا لکھا غلط تو ہو سکتا ہے مگر وہ ہمیشہ میری اپنی ذہنی کاوش ہوتی ہے۔ میں اس طرح کا صحافی بھی نہیں جو رب کی عنایت کردہ لکھنے کی اچھی بری صلاحیت کو نام نہاد بڑے لوگوں کی نذر کرنے سر پر اٹھائے بازار میں لے آئے۔ میں تو پچھلے پچیس سال میں لکھنے کے دوران اپنے اخبارکے دفتر بھی کبھی نہیں گیا۔سچ یہ ہے کہ میرا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے اور میں لوئر مڈل کلاس کی مجبوریوں پر ہی جو محسوس کرتا ہوں لکھتا ہوں۔در حقیقت یہ نام نہاد بڑے نظر آنے والے لو گ بڑے بونے لوگ ہیں مگر کیا کریں اس ملک میں مالی قدریں اخلاقی قدروں پر جب تک غالب ہیں، ہمیں یہ سب برداشت کرنا ہے۔

کسی ملک کی بربادی کی وجہ وہاں انصاف کا فقدان ہوتاہے اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ یہاں عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا۔ہم تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہیں۔یہاں انصاف خریدنا پڑتا ہے۔ پھر انصاف کا پیمانہ بھی ایک نہیں۔ وہ جو اشرافیہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مادر پدر آزاد ہیں وہ کچھ کر لیں انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ہمارا قانون موم کی ناک کی طرح ا ن کے سامنے دب جاتا اور غریبوں کے لئے آہنی دیوار کی طرح ہوتا ہے۔اشرافیہ کے لوگ اپنا کیس جب چائیں ا گلے دن لگوا لیتے ہیں مگر غریبوں کے بچے کوشش کے باوجود تاریخ کے انتظار میں جیلوں میں سلگتے اور سسکتے رہتے ہیں۔ہر چیف جسٹس آتے ہوئے جو تقریر کرتا ہے وہ غریبوں کے بارے ہوتی ہے اسے ہمدردی ہوتی ہے ان لوگوں سے جن کے کیس سالہاسال سے تصفیے کے منتظر ہوتے ہیں مگر وہ کچھ نہیں کرتا اور جاتے ہوئے بھی وہی ہمدردی کے ٹسوے بہاتا چلا جاتا ہے مگر اس طبقاتی نظام انصاف کی اصلاح کے لئے کچھ نہیں کرتا۔میرے نزدیک غریب آدمی کو اس ملک میں کبھی بھی انصاف نہیں ملتا۔ وہ اچھا وکیل کرنے سے معذور ہوتا ہے۔ وہ کوئی اچھا حوالہ حاصل کرنے سے محروم ہوتا ہے اور یہی معذوریاں اور محرومیاں اسے انصاف دلانے میں بڑی رکارٹ ہوتی ہیں۔ یہی سوچ کر میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد عدلیہ کے بارے لکھتا ہوں اور اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتا ہوں۔ میرے نقاد مجھے کبھی مجھے حکومتی کبھی اسٹبلشمنٹ کا کارندہ قرار دیتے ہیں۔کیا بتاؤں میرے نزدیک موجودہ کاروباری سیاست کا ہر لیڈر لات اور منات کی طرح ہے اور اس سیاسی سومنات کو برباد کرنے کے لئے میں کسی محمود کے لئے ہمیشہ دعاگو ہوں۔کہتے ہیں ایک کسان پولیس کے ہتھے پڑھ گیا۔ پولیس نے کیس ختم کرنے کے دو ہزار مانگے۔ مگر بے گناہ ہونے کے زعم میں اس نے انکار کر دیا۔ دو دن جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت ہو گئی اور کیس چل پڑا۔ بارہ سال بعد جج نے اس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے پوچھا کہ بابا جی کیا آپ فیصلے سے مطمن ہیں۔۔ کسان نے کہا کہ فیصلہ تو ٹھیک ہے مگر میری زندگی کے بارہ سال اس نے ضائع کر دئیے ہیں ، مہینے کی تین چار تایخوں پر بھی آنے جانے اور عدالت کے اہلکاروں کی خدمت پر ہزار روپے سے زیادہ خرچ ہوتا رہا ہے، وکیل کے اخراجات علیحدہ اور بہت کچھ۔آج مجھے افسوس کہ کاش میں اس وقت تھانیدار کی بات مان جاتا تو صرف دو یا تین ہزار میں مجھے سستا اور فوری انصاف مل جاتا اور میں اس بارہ سالہ ذلت سے بچ جاتا۔

ٓاصل میں انصاف اور قانون دو مختلف چیزیں ہیں۔ انصاف وہی جج دے سکتا ہے جس کی تعلیم بہتر ہو۔ جسے شعور ہو۔ جو مثبت سوچ رکھتا ہو ۔ اچھے اور برے کے صحیح مفہوم سے واقف ہو۔ قانون تو انسان کا بنایا ہوا ضابطہ ہے اور بنانے والے چونکہ اشرافیہ کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے اس قانون میں وہ خامیاں ضرور رکھتے ہیں جو مشکل وقت میں ان کے کام آ سکیں۔اشرافیہ کے لئے قانون میں دو جمع دو ضروری نہیں کہ چار ہو۔ وہ ضرورت کے مطابق تین بھی ہو سکتا ہے اور پانچ بھی۔اسے آپ چیلنج بھی نہیں کر سکتے۔ہمارے جج حالات واقعات اور محرکات پر غور کرنے کی بجائے ملزمان کی کلاس اور ان کے مرتبے کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ملزم غریب آدمی ہو کیس لگتا ہی نہیں اور اگر لگ جائے تو جج بڑی لاپروائی سے سنتے اور بات کرتے ہیں اور فیصلے کا انداز بھی بڑا سفاک ہوتا ہے۔اشرافیہ کا کیس اوراس میں کسی بڑے وکیل کی موجودگی کیس کی کایا پلٹ دیتی ہے۔کیس فوری لگ جاتا ہے۔ اشرافیہ کے ملزم کا احترام بھی کیا جاتا ہے اور اس کے فیصلے میں دو جمع دو چار تو کبھی نہیں ہوتے مگرتین یا پانچ ہی نہیں کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

ہمارے ہر گاؤں میں روایت ہے کہ چوہدری کے ساتھ ہر وقت دو تین مخصوص لوگ ہوتے ہیں ۔ چوہدری صحیح کرے یا غلط انہیں واہ واہ ہی کرنا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ان کا چوہدری کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ ہمارے تمام با اثر اور سیاسی لوگوں نے بھی اپنے ارد گرد ایسے لوگ رکھے ہوئے ہیں جو انہیں کبھی غلط نہیں کہتے۔ یہ مراثی مزاج لوگ کسی مجرم کو مجرم قرار دینے نہیں دیتے۔ با اثر لوگ تو ٹیکنیکل بنیادوں پر بھی کیس سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ میرے خیال میں تواس ملک میں انصاف کا بول بالا اسی صورت ہو گا کہ کسی مجرم کو جرم کرنے کے بعد پناہ کی کوئی صورت نہ ملے کوئی جتنا مرضی مقدس ہو وہ جس ایجنسی کے بھی قابو آ جائے اسے سزا کے دائرے سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔سوشل میڈیا پر مغرب کے کسی کیس کی روئیداد چل رہی تھی۔ ایک چھوٹا بچہ بریڈ چرانے کے جرم میں عدالت میں لایا گیا۔ملزم نے چوری کا اقرار کیا توجج نے پوچھا کہ تم نے چوری کیوں کی۔ اس نے بتایا کہ اس کی ماں بھوکی اور بیمار تھی۔ اس نے بہت کوشش کی مگر کہیں کام نہیں ملا۔ باوجود کوشش سے کسی واقف سے قرض نہیں ملا۔ بھیک مانگی بھیک نہیں ملی ۔مجبور تھا، چوری کی۔ اس کی باتیں سن کر جج کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے کہا کہ اس چوری کا مجرم یہ لڑکا نہیں ہم سب ہیں اور یہ ریاست ہے۔ اس نے اپنے سمیت وہاں موجود ہر شخص کو دس ڈالر جرمانہ کرکے اس بچے کو دیا کہ وہ جا کر اپنے اور اپنی ماں کے کھانے اور دوا کا بندوبست کرے۔انصاف کے لئے ضروری اسی شعور اور اسی احساس کا فقدان ہمارے پورے نظام انصاف میں ملتا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500298 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More