تحریر: صبا شاہد
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آرہی ہے
حوا کی بیٹی، گلاب کی شگفتہ کلی، شفاف پانی کا شفاف، عورت کا دنیا میں پہلا
روپ ہی رحمت ہے عورت کے متعلق مفکرین نے اپنی اپنی مختلف رائے پیش کی ہیں
لیکن عورت کو یہ مقام عزت اسلام کی مرہون منت عطا کیا مختلف مذاہبِ عالم
میں عورت کو ہمیشہ خاندان پہ بوجھ گردانا جاتا تھا یا پھر اک ناکارہ چیز جس
کو ہمیشہ اپنے شانوں سے پھینک دینے کو ترجیح دی جاتی رہی براعظم ایشیا کو
مدنظر رکھا جائے تو بھارت میں سب سے زیادہ ناروا سلوک عورتوں کے ساتھ
کیاجاتا ہے تو وہاں مسلمان عورتیں کیسے آزاد سانس لے سکتی ہیں ہندوستان میں
جس عورت کو ستی کردیا جاتا ہے اس بیحس ماحول میں صنف نازک کیسے پروان چڑھ
سکتی ہے ستی کو ہندوستان میں پاکیزہ اور مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے ایک
انگریز مجسٹریٹ نے ہندو عورت کو قائل کرنے کی بڑی کوشش کی اسے روپے پیسے کا
بھی لالچ دیا لیکن اس عورت کی ایک ہی بات تھی اگر تم مجھے پتی کی چتا کے
ساتھ جلنے مرنے نہیں دو گے تو میں تمہاری عدالت میں خود کو پھندا ڈال لوں
گی یہ ایک ہندو بیوہ کے الفاظ ہیں جس کی ستی کے رسم کا احوال ایک انگریزی
خاتون فینی پارکس نے لکھا ہے جو اپنے خاوند کی ملازمت کے دوران 19ویں صدی
کے ابتدائی عشروں تک ہندوستان میں مقیم رہیں چونکہ خاوند کی موت اور ستی کی
رسوم ادا ہونے تک بیوائیں کچھ کھا پی نہیں سکتی اس لیے انگریز مجسٹریٹ نے
48 گھنٹوں کے اندر رسومات ادا کرنے کا حکم دیا کہ عورت رسومات ادا ہونے کے
بعد کچھ کھا پی سکے اور ہمت جرآت برقرار رکھ کر اپنا فیصلہ بدل لے ابتدا
میں عورت کو مجبور تو نہیں کیا جاتا تھا لیکن روایت ایسی ہے کہ عورت خود
بھی مجبور ہوجاتی ہے مغلیہ دور میں اکبر نے ستی جیسی رسم پہ پابندی لگائی
اور بعض دفعہ خود جاکر بھی ستی ہوتی ہوئی عورتوں کو بچایا 1829 کے بعد اس
رسم پر انگریزوں نے مکمل پابندی لگادی تھی لیکن ابھی بھی ہندوستان کے
دوردراز علاقوں میں یہ رسم ابھی بھی زندہ ہے تو وہیں پر اگر مسلمانوں کو
ہندوستان میں چلی بھر آزادی حاصل ہے تو انہی مسلمان عورتوں کو نیلام کرنے
کی بھی کوشش کی گئی بھارت میں پولیس نے مسلمان عورتوں کو آن لائن فروخت
کرنے کے واقعہ کی جانچ پڑتال کا آغاز کیا ہے متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ
ان کی نیلامی کی بڑی وجہ دنیا میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا ہے بھارتی نیوز
ویب سائٹ دا پرنٹ کے مطابق حالیہ ہفتوں میں 90 مسلم خواتین کی تصاویر ایک
سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ پلیٹ فارم گٹ ہب پر سلی ڈیل آف دا ڈے کے نام سے اپلوڈ
کی گئیں تھیں سلی مسلم خواتین کے لیے طنز کے طور پر استعمال ہونے والی
اصطلاح ہے
ویب سائٹ جو خود کو کیمونٹی ڈرائیون اوپن سورس کے نام سے بیان کرتی ہے پر
نیلامی کے لیے پیش کی جانے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق بھارت سے تھا جب
کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی خواتین کی پروفائلز بھی اس پر اپلوڈ کی گئی
تھیں متاثرہ خواتین صحافت، فنون سماجی کارکن، ریسرچر اور دیگر شعبوں سے
منسلک تھیں ایک ائیر لائن میں بطور پائلٹ کام کرنے والی حنا محسن خان کو
گزشتہ ہفتے اپنی پروفائل اس ویب پر موجود ہونے کی اطلاع ملی جہاں انہیں
بطور غلام نیلام کیا جارہا تھا اور اب حال ہی میں کرناٹک کالج کی مسلم
طالبہ مسکان کو اﷲ اکبر کے نعرے لگاتے بی جے پی کے مشتعل ہجوم سے دلیرانہ
نپٹتے ہوئے دیکھا جارہا ہے جن کو محض حجاب پہننے پر ہراساں کیا جارہا تھا
اس واقعہ سے ایک ہی دن قبل زعفرانی رنگ (ہندوؤں کا علامتی رنگ)کی چادریں
اوڑھے نوجوانوں کے گروہ نے اس کالج میں آکر مسلمان خواتین کے حجاب اوڑھنے
پر احتجاج کرکے گئے تھے کرناٹک ریاست کے دیگر تین کالجز میں ایسے ہی احتجاج
ہوچکے ہیں
نگیش بی سی جو کرناٹک کے وزیر تعلیم ہیں وہ ایسے کالجز کی حمایت کررہے ہیں
کہ زعفرانی رنگ اور حجاب دونوں پر ہی پابندی لگنی چاہیے پی سی بی ہندی سے
بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کرناٹک ہائیکورٹ میں حکومت اپنا موقف پیش
کرے گی اور آئندہ ہفتے دو مختلف درخواستوں کی سماعت ہوگی انڈین ریاست
کرناٹک میں ہراساں کیے جانے والی مسکان کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح
تعلیم ہے اور یہ لوگ کپڑے کے ایک ٹکڑے کے پیچھے ان کو تعلیم سے مرحوم کررہے
ہیں مسکان کے مطابق وہ ہمیشہ سے برقع پہن کر آتی ہیں لیکن کلاس میں جانے سے
پہلے برقع اتار کر حجاب پہن لیتی ہیں اور ان کے پرنسپل نے کبھی اعتراض نہیں
کیا یہ ہنگامہ آرائی گزشتہ ہفتے سے شروع ہوئی ہے مسکان کے مطابق ان کے کالج
کے پرنسپل اور پروفیسرز نے ان کی حفاظت اور حمایت کی ہے انہیں ہراساں کرنے
والوں کی اکثریت باہر سے تھی اور دس فیصد لوگ کالج کے طلبا تھے اداکارہ
پوجا بھٹ اور دیگر اس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس واقعے کی مذمت
کی ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کی
ہے کہ دن دہاڑے کسی مسلمان لڑکی کو بنا خوف کے ہراساں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے
کہ ایسے غنڈوں کو کسی کی سرپرستی حاصل ہے کیونکہ یہ واقعات یو پی کے
انتخابات جیتنے میں مدد کریں گے بہرحال انڈیا میں حجاب اوڑھنے اور اس کی
حفاظت کا قانون موجود ہے جس کی پاسداری انڈین شہریوں کی ذمہ داری ہے جو اس
کے منافی ہے وہ سخت سزا کا حقدار ہے
|