21فروری مادری زبان کا عالمی دن

پاکستان میں کم و بیش 50 زبانیں بولی جاتی ہیں اور جو زبانیں الگ ہیں ان کی ثقافت بھی الگ ہے اور ہر ایک قوم کا الگ کلچر بہت پیارا ہے چاہے وہ سرائیکی ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو، پختون ہو، بلوچی ہو، بلتی ہو یا کوئی بھی کلچر ہو سب کلچر اس گلشن میں مختلف رنگ کے پھول ہیں جو کہ اس گلشن میں لہلاتے نظر آتے ہیں یہ سبھی دلکش اور خوبصورت ہیں ان کو صرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے کی ضرور ت ہے نہ کہ تعصب کی عینک لگا کر دیکھنے کی۔دور حاضر میں جب ہم زبانوں کی دیکھتے ہیں توان میں ہرزبان کا ستیاناش ہوگیا ہے اس کی وجہ صرف ہماری دوسری زبانوں میں دلچسپی یا زبردستی ہے جیسے کہ ہم اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکول میں داخل کرواتے ہیں مگردفتری زبان اردوہے گھرمیں سرائیکی بولی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچا کفیوز ہوجاتا ہے اور کچھ اردوکچھ انگلش اورکچھ سرائیکی کو مکس کرکے جملے بناتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ ڈوڈرکاں بن جاتا ہے مقصدیہ کہ وہ اپنی مادری زبان کو آہستہ آہستہ کھوبیٹھتا ہے یعنی اپنی شناخت ۔مادری زبان ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ جس زبان کے وارث اس امانت میں خیانت نہیں کرتے وہی زبان ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔انسان کوترقی یافتہ مخلوق سے ترقی یافتہ انسان بننے کا درجہ حاصل کرنے میں مختلف مراحل اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔حقیقت ہے کہ ماں کی گود بچے کی کل دنیا ہوتی ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے پرورش پاتا ہے وہیں اس کی ذہنی نشوونما بھی بتدریج بڑھتی ہی جاتی ہے۔ انسان کی ذہنی نشوونما میں ’’مادری زبان‘‘ کا اہم کردادر ہے۔ اس لیے فطری طور پر بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو ماں بولتی ہے۔ ماں بچے کو ہنساتی ہے، لوریاں دیتی ہے، کبھی غصے میں ہوتی ہے توکبھی رلاتی بھی ہے۔ بچہ گوکہ ابھی گفتگو کرنے اور سمجھنے کے لائق نہ ہوا ہو لیکن قدرت نے انسان کے اندر ایک ایسا جذبہ رکھا ہے جو جذبہ ماں کو یک طرفہ بچے سے ہم کلامی پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں بچے پر اثرانداز ہوتی رہتی ہیں حتی کہ جب وہ گفتگو کا اہل ہوتا ہے تو یہی ماں کی گفتگو لاشعور سے کام کرتی ہے۔ اس کی نفسیات اور بصری حافظے میں غیر محسوس طور پر ماں کی گفتگو اور اس کے اثرات محفوظ ہوتے رہتے ہیں۔اسلامی نقطہ نظر میں اسی مناسبت سے ماں کو بہت محتاط رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فنی حوالے سے بھی یہ بات جاننے کی ہے کہ ’’مادری زبان‘‘ کا اطلاق صرف ’’ماں‘‘ تک نہیں ہے بلکہ ماں جس گھر میں رہتی ہے اس گھر میں جو زبان بولی جاتی ہے ’’مادری زبان‘‘ ہے۔بدلتے سماجی حالات اور ہجرتوں والی اس نئی دنیا میں مادری زبان کے اطلاقات مزید وسعت اختیار کرگئے ہیں۔ ماں باپ کی آبائی زبان جو بھی ہو لیکن جو زبان شہر اور محلے میں، گھر میں برتی جاتی ہو وہ زبان بھی مادری زبان کہلائے گی۔ بلکہ تعلیمی اعتبار سے یہی زبان مادری ہوگی۔زبان کا انسانی زندگی کے ارتقاء سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ زبان علم کے پھیلاؤ کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔انسانوں نے آپسی رابطے اورخیالات و معلومات کی ترسیل و تبادلہ کے لیے زبان کے نظام کو فروغ دیا۔مادری زبان کسی بھی انسان کی شخصیت کی تعمیر، تعلیم اور ہمہ جہت ترقی میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔زبانوں کی اہمیت صرف بول چال اور فہم کی حد تک نہیں ہوتی بلکہ مادری زبان کا علاقائی ادب و ثقافت کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی زبان کا ادب انتہائی ہمہ گیر ہوتا ہے اور سماجی ذہن پر اس کے اثرات انتہائی لافانی قسم کے ہوتے ہیں۔ ادب کا رخ دراصل لوگوں کے ذہنوں کا رخ متعین کرتا ہے۔ اس میں مزاح، انشائیہ، خاکہ نگاری، مضمون نگاری، خطوط، ڈرامہ، داستان، ناول اور افسانوں کو شامل رکھنے کا عام رجحان ہے۔ اجنبی زبان ایک طرح کا احساس کمتری پیدا کرے گی اور اگر فخر کی نفسیات پیدا بھی ہوئی تو وہ کسی دوسری تہذیب پر فخر ہوگا اور یہ عین ذہنی غلامی ہے۔ہم کثیرلسانی سماج میں رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے علاقے کی زبانوں، مقامی زبان اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کریں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسکولوں کا معیار تعلیم بلند کرنے اور دیگر زبانوں کو سیکھنے میں مددگار ماحول تیار کرنے کی بجائے پرفریب پروپیگنڈہ پر بھروسہ کیا اوراپنے بچوں کو انگریزی اور دیگر زبانوں کے پیچھے لگا کر اصل وراثت سے دور کر دیا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبان کے توسط سے تمام زبانیں اور علوم سکھائیں۔اپنی اولاد کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ان کے حال کو قربان کرنا عقلمندی تو نہیں ہے۔ پاکستان میں کم و بیش 50 زبانیں بولی جاتی ہیں اور جو زبانیں الگ ہیں ان کی ثقافت بھی الگ ہے اور ہر ایک قوم کا الگ کلچر بہت پیارا ہے چاہے وہ سرائیکی ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو، پختون ہو، بلوچی ہو، بلتی ہو یا کوئی بھی کلچر ہو سب کلچر اس گلشن میں مختلف رنگ کے پھول ہیں جو کہ اس گلشن میں لہلاتے نظر آتے ہیں یہ سبھی دلکش اور خوبصورت ہیں ان کو صرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے کی ضرور ت ہے نہ کہ تعصب کی عینک لگا کر دیکھنے کی۔ تمام زبانوں کی آبیاری کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ترویج پر خصوصی توجہ دے انکی ثقافت کو اجاگر کرے۔ پورے ملک میں پوری دنیا میں تاکہ باہر کی دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستان میں رہنے والے سبھی لوگ اس ملک سے محبت کرنے والے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے پاکستان کو اپنے کلچر، زبان اور تہذیب سے خوبصورت بنا دیا ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً 2500سے زائد زبانیں ایسی ہیں جو کہ دنیا سے ختم ہونے جارہی ہیں جبکہ پاکستان میں بھی ایسی 7زبانیں شامل ہیں جو کہ خطرے سے دو چار ہیں ۔ جن میں بروشسکی،بلتی، بروہی، خوور، مائیا، پیورک، سپائتی شامل ہیں ۔ دنیا میں 228ایسی بھی زبانیں ہیں جو کہ بالکل ختم ہو گئی ہیں۔ حکومت پاکستان کو پاکستان کی ثقافت، اس خطہ کے لوگوں کے ثقافت زبانوں کی ترویج کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ کیونکہ جس طرح ایک باغ میں مختلف رنگ کے پھول اچھے لگتے ہیں ٹھیک اسی طرح مختلف زبانیں، کلچر بھی اس گلشن کو خوبصورت بناتے ہیں۔انیسویں صدی کے شروع میں بولی جانیوالی ہندوستانی زبان بھی اردو ہی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور وہاں سے ہی پاکستان آئی میری اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے کے شعرا ء کرام کا کلام دیکھ لیں وہ کس زبان میں شاعری کرتے آئے ہیں۔ اردو کا ذکرنہ کرنا نہایت جاجائزی ہوگی کیونکہ کہ اردو ہی ہماری قومی اور رابطہ کی زبان ہے اسلیے ایک دوسرے سے رابطہ میں رہنے اورتعلق کیلئے ہم اردو کو بھی پس پشت نہیں ڈال سکتے اردو زبان کی تحریک کے دوستوں کوبھی سلام پیش کرتی ہوں۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 25334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.