اٰیاتِ مُعجزات و مُعجزاتِ اٰیات

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمن ، اٰیت 78 تا 85 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد ارسلنا
رسلا من قبلک
منہم من قصصنا
علیک و من ھم لم
نقصص علیک وماکان
لرسول ان یاتی باٰیة الّا
باذن اللہ فاجاء امر اللہ قضی
بالحق وخسر ھنالک المبطلون 78
اللہ الذی جعل لکم الانعام لترکبوا منہا
و منہا تاکلون 79 ولکم فیھا منافع ولتبلغوا
علیھا حاجة فی صدورکم وعلیھا وعلی الفلک
تحملون 80 ویریکم اٰیٰت اللہ تنکرون 81 افلم
یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبة الذین من
قبلھم کانوا اکثر منھم واشد قوة واٰثارا فی الارض فما
اغنٰی عنھم ماکانوا یکسبون 82 فلماجاءتھم رسلھم بالبینٰت
فرحوا بما عندھم من العلم وحاقبھم ماکانوابهٖ یستھزءون 82
فلماراوباسنا قالوااٰمناباللہ وحدهٗ وکفرنابما کنا مشرکین 83 فلم یک
ینفعھم ایمانھم لما راوباسنا سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہٖ وخسر
ھنالک الکٰفرون 85
اے ہمارے رسُول ! ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ آپ سے پہلے ہم نے اہلِ زمین میں اپنے جو رسُول مامُور کیۓ تھے اُن رسُولوں میں سے ہم نے آپ کو جن کے حالات سناۓ ہیں اور جن کے حالات نہیں سناۓ ہیں اُن میں ہمارا کوئی ایک رسُول بھی ایسا نہیں تھا جس نے ہمارے حُکم کے بغیرخود ہی کوئی قانون بنایا ہو اور خود ہی کوئی توجہ طلب نشان دکھایا ہو اور پھر خود سے خود ہی ہمارا وہ رسُول قانون کے مُنکروں پر کوئی عذاب یا نشانِ عذاب لے کر آیا ہو بلکہ ہمارے جس رسُول کے پاس ہمارا جو حُکم اور فیصلہ پُہنچا ہے اُس نے ہمارا وہی حُکم اور وہی فیصلہ اپنی قوم کو سنایا یے ، پھر اہلِ زمین میں سے جن اہلِ زمین نے ہمارے اُس حُکم اور ہمارے اُس فیصلے کو زمین سے مٹانے کی کوشش کی ہے اُن اہلِ زمین کو ہم نے زمین سے مٹادیا ہے ، جہاں تک اہلِ زمین پر ہمارے ظاہر کیۓ ہوۓ توجہ طلب نشانات کا تعلق ہے تو ہم نے زمین میں اہلِ زمین کے کھانے کھانے اور بوجھ اُٹھانے کے لیۓ جو چو پاۓ پیدا کیۓ ہیں اُن چو پائیوں کی جسمانی بناوٹ اور ہمہ جہت کار گردگی میں بھی ہمارے ہمہ جہت نشانات موجُود ہیں ، تُم ہمارے عالَم میں ہمارے یہ نشانات اور اِس طرح کے دیگر شمار در شمار نشانات دیکھنے کے بعد آخر کن کن نشانات کا انکار کرو گے ، کیا ہماری اِن اٰیات کے مُنکر ہماری زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں اور انہوں نے ہماری زمین میں اِپنی قوم سے زیادہ طاقت ور قوموں کے اُس مال و منال پر آنے والے اُس زوال کے آثار نہیں دیکھے ہیں جن قوموں کی کمائی اِس بنا پر ہی اُن کی تباہی بن گئی تھی کہ اُن کے پاس ہمارے جو رسُول ہماری اٰیاتِ بینات لے کر آتے تھے تو وہ مُنکر لوگ اپنے جھوٹے گمھنڈ کی بنا پر اُن کے ساتھ تمسخر و استہزا کیا کیا کرتے تھے لیکن جب اُن قوموں پر ہمارا عذاب آیا تھا تو وہ پکار اُٹھی تھیں کہ ہم اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اپنے اُن سب خیالی خداؤں کا انکار کرتے ہیں جن کو ہم نے اللہ کا شریک بنایا ہوا تھا مگر اُن کا یہ اقرارِ ایمان ہمارا عذاب دیکھنے کے بعد اُن کے لیۓ نفع بخش ثابت نہیں ہوا تھا ، گزرے ہوۓ تمام زمانوں میں اہلِ زمین پر اللہ کا یہی ایک قانون جاری رہا ہے جو گزرتے ہوۓ اِس زمانے کے بعد آنے والے سارے زمانے میں بھی جاری رہے گا اور ہمارے اِس ناقابلِ تغیر قانون کے مطابق زمین کی جو قوم ہمارے اِس اَمرِ حق کا انکار کرے گی وہ جلد یا بدیر ہمارے اِس قانون کی زد میں آکر تباہ و بر باد ہو جاۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ روایت نے اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں آنے والے بائسویں لفظِ { اٰیة } سے اپنا وہ خانہ ساز مُعجزہ مراد لیا ہے جو معجزہ اُن کی خانہ ساز روایتی تعریف کے مطابق اگر اللہ تعالٰی کے کسی نبی یا رسُول سے سرزد ہوتا ہے تو وہ اُس نبی اور اُس رسُول کا مُعجزہ ہوتا ہے ، اگر اللہ تعالٰی کے کسی ولی سے سرزد ہوتا ہے تو وہ اُس ولی کی کرامت ہوتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالٰی کے کسی مُنکر و کافر فرد سے سرزد ہوتا ہے تو وہ اُس مُنکر و کا فر فرد کا استدراج ہوتا ہے ، اسی طرح عُلماۓ روایت نے اٰیاتِ بالا کی چوتھی اٰیت کے تیسرے لفظ { اٰیات } سے بھی اپنے وہی خانہ ساز خیالی مُعجزات مراد لیۓ ہیں جو اللہ تعالٰی کے کسی نبی یا رسُول سے ظاہر ہوتے ہیں تو وہ اُس نبی اور اُس رسُول کے معجزات ہوتے ہیں ، اگر اللہ تعالٰی کے کسی ولی سے ظاہر ہوتے ہیں تو وہ اُس ولی کی کرامات ہوتے ہیں اور اگر اللہ تعالٰی کے کسی مُنکر و کافر فرد سے ظاہر ہو تے ہیں تو وہ اُس مُنکر و کافر فرد کا استدراج ہوتے ہیں لیکن قُرآنِ کریم کی رُو سے مُعجزہ موم کی وہ ناک نہیں ہوتا جس کو اللہ تعالٰی کے ایک نبی یا رسُول سے لے کر ایک ولی تک اور اللہ تعالٰی کے ایک ولی سے لے کر ایک کافر و مُنکر انسان تک ہر ایک طرف گھمایاجاۓ اور جس جگہ پر وہ معجزہ رُک جاۓ اُس جگہ پر اُس کو روک کر معجزہ و کرامت اور استدراج وغیرہ کا ایک حسبِ حال دے کر روک دیا جاۓ ، تاریخی اعتبار سے اہلِ روایت کے یہ روایتی معجزے سَحر و کہانت کے اُس قدیم مُردہ زمانے کی ایک قدیم مُردہ یاد گار ہیں جس زمانے میں معجزے سے یا تو کسی جادو گر انسان کا وہ حیران کُن جادُوئی مَنتر مُراد لیا جاتا تھا جو جادُوئی مَنتر اُس ایک جادُو گر مَنتری کے سوا کوئی اور انسان اُس کے درست لفظ و تلفظ کے ساتھ ادا کرنے سے عاجز ہوتا تھا اور یا پھر مُعجزے سے کسی جادُو گر کا وہ حیران کُن جادُوئی عمل مراد لیا جاتا تھا جس جادُوئی عمل کا اُس ایک جادو گر انسان کے سوا کوئی اور انسان عملی مظاہرہ کرنے سے عاجز ہوتا تھا ، اُس معجزاتی زمانے کے یہی وہ معروف ساحرانہ مُعجزے ہی ہوتے تھے جو اُس زمانے کے جاہل حاجت مندوں کو اُن جاہل کاہنوں اور ساحروں کے تاریک آستانوں تک لے جاتے تھے جن کے پاس وہ جاہل حاجت مند خوشی سے جاتے تھے اور جن کے تاریک آستانوں سے خوشی کے ساتھ لُٹ لُٹا کر واپس آتے تھے ، عہدِ توہمات کے یہی وہ توہماتی حالات تھے جن توہماتی حالات میں اللہ تعالٰی کے جو انبیاۓ کرام کفر و شرک کے اِن تاریک توہمات سے انسان کو بچانے کے لیۓ دُنیا میں تشریف لاتے تھے تو اہلِ کفر و شرک اُن انبیاۓ کرام کا پیغامِ حق سننے کے بجاۓ اُن سے اپنی اُن توہماتی ضروریات کے مطابق یہ مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ وہ اُن کو اُن کاہنوں اور جادوگروں کی طرح اپنا کوئی معجزہ دکھائیں تاکہ وہ اُس معجزے کو دیکھ کر اُن پر ایمان لے آئیں ، قُرآنِ کریم نے اِن ساحرانہ معجزوں کو رَد کیا ہے لیکن قُرآنِ کریم نے اِن معجزوں کے رَد میں جو مضامین لاۓ ہیں اُن مضامین میں اِن معجزوں کی اِس توہماتی اصطلاح کو بھی استعمال کرنے سے گریز کیا ہے تاہم قُرآنِ کریم کے اَحکامِ نازلہ کے اُن معلوماتی مضامین سے یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ کفار کے اِس کافرانہ اور مشرکین کے اِس مشرکانہ مطالبے کے جواب میں قُرآنِ کریم نے اپنے اَحکامِ نازلہ کے بین السطور میں جابجا جو اصلاحی ہدایات دی ہیں اُن ہدایات کے مطابق انسان کے سامنے سب سے پہلا اور سب سے بڑا معجزہ تو اللہ تعالٰی کا یہ عالَم خلق ہے جس کو دیکھ کر ایک باشعور انسان عاجز ہوجاتا ہے اور عاجز ہونے کے بعد اپنے شعور سے اِس اَمر کو بھی تسلیم کرلیتا ہے کہ اِس عظیم الشان عالَمِ خلق میں اُس کی ہستی بھی اُسی ایک عظیم خالقِ عالَم کی ایک تخلیق ہے جس کے عالَم میں وہ موجُود ہے ، خالقِ عالَم کے اِس عالَمِ خلق میں خالقِ عالَم کا دُوسرا عظیم معجزہ اُس کے نبی و رُسول کا وہ وجُود ہی اُس زمانے کا وہ عظیم خُدائی معجزہ ہوتا تھا جس زمانے میں وہ نبی اور رسُول مبعوث ہوتا تھا اور جس زمانے میں جو نبی و رسُول مبعوث ہوتا تھا اُس زمانے میں اُس کا وجُود اپنے اعلٰی اخلاق و کردار اور اپنی اعلٰی سیرت و بصیرت کے اعتبار سے اُس زمانے کے ہر ایک انسان سے بلند و برتر ہوتا تھا اور اُس کا وہ اعلٰی اخلاق و کردار اور اُس کی وہ اُعلٰی سیرت و بصیرت کسی جادو گر کی سیرت و بصیرت کی طرح ایک ناقابلِ عمل و ناقابلِ اتباع سیرت و بصیرت نہیں ہوتی تھی بلکہ اُس کی سیرت و بصیرت ایک ایسی قابلِ عمل اور قابلِ اتباع سیرت و بصیرت ہوتی تھی جو انسانی رُوح و دل اور انسانی سیرت و کردار میں ایک ایسا بلند تر مُثبت انقلاب برپا کردیتی تھی کہ اُس انسان پر مُثبت اعمال کے مُثبت دروازے کُھلتے چلے جاتے تھے اور مَنفی اعمال کے مَنفی دروازے بند ہوتے چلے جاتے تھے جس کی بنا پر انبیاۓ کرام پر ایمان لانے والے انسان علمی و عملی اور اخلاقی اعتبار سے ممتاز فی الخلق ہو جاتے تھے اور تیسری معجزاتی چیز اللہ تعالٰی کی وہ نُورانی اٰیات ہیں جو اُس نبی اور رسُول پر نازل ہوئی ہیں اور وہ اٰیات رہتی دُنیا تک اپنی تمام تر تاثیر و تجلیات کے ساتھ موجُود ہیں ، زمین کی جو قوم اِن اٰیات کی پیروی کرتی ہے وہ قوم دُنیا و عُقبٰی دونوں میں بامراد ہوتی ہے اور جو قوم اِن اٰیات کی پیروی نہیں کرتی وہ قوم دُنیا سے نامراد جاتی ہے اور آخرت میں بھی نامراد رہتی ہے ، خلاصہِ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے اِس عالَمِ خلق میں اُس کی ساری مخلوق کے لیۓ قُرآنِ کریم کی یہی اٰیات قدرت کے وہ قابلِ فخر معجزات ہیں جن معجزات پر رہتی دُنیا تک کے اہلِ ایمان و اہلِ جہان بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461109 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More