بڑھاپا دیکھ کر رویا -------
(Munir Bin Bashir, Karachi)
|
بڑھاپا دیکھ کر رویا -------- یہ تھا ںغمہ ایک بھارتی فلم 'تیسری قسم ' کا -- زمانہ تھا ساٹھ کی دہائی کا --- بھارت کے ریڈیو سے تواتر سے نشر ہوتا تھا اور گلی کوچوں میں خوب گونجا کرتا تھا --
ہم اس وقت عمر کے لا ابالی دور سے گزر رہے تھے اس لئے اس نغمے میں پوشیدہ پیغام سے بے خبر تھے- ہاں یہ یاد ہے جب یہ نغمہ لہروں کی صورت میں کانوںسے ٹکراتا تو کونے پر موجود شکور - راشن والے چچا بھی ایک شعر پڑھ د یا کرتے تھے ؔ جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی --جو آکر نہ جائے وہ بڑھا پا دیکھا -- اس کے بعد وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرا کرتے تھے -- وہ کیوں آہ بھرا کرتے تھے اس سے بھی اس زمانے میں لا علم تھے - کہا نا لا ابالیت کا دور دورہ تھا -ان چیزوں پر غور کرنے کی فرصت نہیں تھی -
لیکن ابھی کچھ ہی عرصہ قبل گڈو خان کو ایک ویڈیو میں پاکستانی فلموں میں رقص کا مظاہرہ کرنے والی ماضی کی فن کارہ -- محترمہ رخشی کا انٹرویو کرتے دیکھا تو پتہ چلا کہ رخشی نے اپنی فلمی زندگی کے دوران ہی اس قسم کے پیغامات سے سبق حاصل کرلیا تھا اور منصوبہ بندی کر لی تھی - نتیجہ یہ نکلا کہ اب جبکہ بڑھاپا ان کی زندگی میں داخل ہو چکا ہے تو اب بھی وہ ہشاش بشاش اور مالی طور پر آسودہ ہی ہیں - وہ کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وقت ڈھلنے کا ساتھ ان کا جسم رقص میں ان کا ساتھ نہیں دے سکے گا اور آمدنی کا متبادل ذریعہ ڈھونڈ نا پڑے گا - اس کے بعد انہوں نے تفصیل سے سارا تذکرہ کیا کہ انہوں نے کیسی منصوبہ بندی کی وغیرہ وغیرہ -ایک بات جو ذ ہن کو لگی وہ یہ تھی کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے عام قسم کی گاڑی سوزوکی ہمیشہ اپنے تصرف میں رکھی کہ جب کہ وہ اچھی گاڑی رکھ سکتی تھیں - اس کا سبب انہوں نے بتا یا کہ جب میرا مقصد حل ہو رہا ہوتو لوگوں کے سامنے کیا نمائش کر نا - گڈو نے بھی تسلیم کیا کہ وہ فلمی صنعت کے مختلف افراد سے انٹرویو لیتے رہتے ہیں لیکن اکثر افراد کو صحیح قسم کی پلاننگ نہ کرنے کے سبب پریشان ہی پا یا - لیکن رخشی اس سے مبرا تھیں - اللہ انہیں خوش ہی رکھے
بڑھا پا ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف افراد کالم لکھتے ہی رہتے ہیں اور آنے والے وقت سے کیسے نبرد آزما ہوں ، اس بارے میں بتاتے ہی رہتے ہیں - ایسا کیا کریں کہ یہ نوبت نہ آئے کہ ہم پچھتائیں اور روئیں- ان سب کو چھوڑئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے رہنمائی کرنے والی کتاب بھی سورہ النحل آیت 70 میں کچھ گا ئڈ لائن دے رہی ہے - اللہ تعالیٰ کہتا ہے " تم میں سے کچھ کو ایسی خواری والی عمر کو پہنچا دیتا ہے تاکہ جانے کے بعد نہ جانے ( یعنی اس کی یادداشت کم ہوجاتی ہے - اس کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں - بینائی بھی متاثر ہو تی ہے - چلنے پھرے سے معذور ہو جاتا ہے - دماغ اس نہج کو پہنچ سکتا ہے کہ بری یا افسوس ناک خبر سنتے ہی صدمے سے دوچار ہو جا ئے -
ایک صاحب نے رخشی صاحبہ وڈیو پر تبصرہ کرتے لکھا کہ میں خود ریٹائرڈ لائف گزار رہا ہوں -- ریٹائرڈ ہونے سے پہلے ہی خوب اپنے کو سمجھا دیا تھا کہ اب مراعات اور اختیارات ختم ہو جائیں گے - اس لئے زیادہ پریشانی کا شکار نہیں ہوا انہوںنے کہا کہ ریٹائر ہوتے وقت ایک صاحب نے بہت صحیح مشورہ دیا تھا کہ گھر کے معا ملات میں زیادہ دخل نہیں دینے لگ جانا --- تمہاری بیگم پچھلے تیس برس سے گھر چلارہی تھی -اس میں قباحتیں تھیں یا نہیں چل ہی رہا تھا -تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا تو اب تم کیڑے نکالنے جاؤگے تو مسئے اٹھیں گے اس لئے اس پہلو کو مد نظر رکھنا - یہ بات گرہ میں باندھ لی اور آرام سے ریٹائرڈ زندگی کے پندرہ برس گزار دئے اور گزر رہے ہیں - میرے ایک ماتحت تھے --ثاقب صاحب - انہوں نے ایک مرتبہ ایسے ہی برسیل تذکرہ ریٹائر ہونے سے بیس پچیس برس قبل کہی تھی کہ آدمی کو چاہیئے کہ ریٹائر ہونے کے بعد کوئی مشغلہ ضرور ڈھونڈ لے تاکہ اپنے بے مقصد ہونے کا احساس ختم ہو جائے - اگر سماجی بہبود یعنی ویلفئر کا کام سنبھال لے تو اچھا ہے - ثاقب صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ شغل نہ ملے تو تبلیغ کے کام میں ہی لگ جائے اور ٹائم پا س کرنے کا ذریعہ نکال لے - میرا بھی یہی کہنا ہے کہ اپنے مذہبی مسلک کے مطا بق ایسی کوئی راہ ہو تو ڈھونڈ لیں - کچھ نہیں تو طالب علموں کو پڑھانا ہی شروع کردیں
آج کل اللہ تعالیٰ نے ایک اور نعمت سے نوازا ہوا ہے - اگر انٹر نیٹ یا وٹس ایب ٹیلی فون کا استعمال نہیں آتا تو سیکھ لیں -- اپنے تجربات وغیرہ شیئر کرتے رہیں- -اکثر عمر رسیدہ افراد کو یہی شکایت ہوتی ہے کہ بات کرنے کو کوئی نہیں تو' اس انٹر نیٹ کی بدولت یہ کمی کافی حد تک دور ہو جائے گی-
ریٹائرمنٹ ہر سرکاری و غیر سرکاری ملازم و افسر کے حصہ میں ضرور آتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے والے افراد بھی آپ کا پیسہ بٹورنے چلے آ تے ہیں - ان سے بچنا چاہیئے - یہ آپ کے عزیز رشتے دار بھی ہو سکتے ہیں اور آپ کے واقف بھی --جب میں ریٹائر ہوا تو میرے شعبےکا ایک نچلے درجے کا ملازم مجھے ملا اور کسی زرعی زمین میں سرمایہ کاری کی فیوض سے آشنا کرنے لگا - میں اس کا لیکچر سن کرحیران ہو گیا - پہلے وہ بات ہی نہیں کر سکتا تھا لیکن اس روز ایسے لگ رہا تھا کہ اس سے بڑا مقرر کوئی ہو ہی نہیں سکتا -- ڈا ئیلا گ کچھ اس قسم کے تھے “ صاحب فیصلہ کر لیجئے -- کل نہیں آج --------آج نہیں ابھی ---- ابھی نہیں اسی وقت ----گیا وقت ہاتھ نہیں آتا " وغیرہ وغیرہ اس سلسلے میں مسرت جبیں سابق ایڈیٹر 'اخبار خواتین " اور سابق کالم نگار جنگ اخبار نے حکومتی ادارے "قومی بچت " کی تعریف کی تھی - وہ لکھتی ہیں کہ قومی بچت کے دفتروں میں اتنی بھیڑ اور رش دیکھتے ہوئے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی اور اطمینان بھی کہ لوگ اب بھی اپنے ملک اور حکومت کے اداروں پر اعتماد کرتے ہیں - ان مراکز کی کار کر دگی پر عدم اطمینان کا اظہار کر نے والے اپنی جگہ درست ہوں گے کہ بہر حال وقت کا بہت زیاں ہوتا ہے لیکن ان کے کام کرنے کے انداز پر کسی بھی صورت میں انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی - ہم نے کسی بھی کسٹمر کو شاکی نہیں پایا اور عملے کے جتنے لوگوں سے واسطہ پڑا جن میں ڈائرکٹر سے لیکر اسٹاف ممبران تک شامل تھے سب کو ہی ہم نے بے حد با اخلاق -- اپنے کام میں جی جان سے مصروف -- اور مدد گار پایا - ہماری ساری کی ساری ہمدردیاں دفتر میں موجود اسٹاف کے ساتھ ہوگئیں جو اتنی بھیڑ کے باوجود اتنے گھٹن والے ماحول میں - ماتھے پر بل ڈالے بغیر ہر فرد کو مطمئن کر نے میں کوشاں تھے - جنگ مڈ ویک میگزین -- 25 فروری 2009- سال 2022 کی اطلاع کے مطابق جلد ہی پیسہ اے ٹی ایم --ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ملنے لگے گا - اس سلسلے میں قومی بچت والوں نے اپنی مختلف شاخوں میں بڑے بڑے بینر لگا دئے ہیں - لمبی لائنوں میں لگنے کا جنجال ہی ختم ہو جائے گا -
خوشونت سنگھ بھارت کے ایک مایہ ناز ادیب اور دانشور گزرے ہیں - انہوں نے 99 برس عمر پائی تھی اور آخر تک تقریباً اچھے صحت مند ہی رہے - انہوں نے اپنی ایک کتاب میں اپنی طویل خوشگوار اور صحت مند زندگی گزارنے کے بارے میں لکھا ہے- ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب سو سال مکمل ہونے پر شائع کی جائے لیکن پھر ارادہ بدل دیا اور ایک دو سال قبل ہی اسے منظر عام پر لائے - اور ہوا بھی ایسے ہی وہ سو برس عمر تک نہیں پہنچ سکے تھے - آپنی آخری کتاب میں اپنی صحت مند و توانا رہنے کے اسرار و رموز سے پردے اٹھاتے ہیں - یہ باتیں پڑھنے کے لائق ہیں - یہ صحیح ہے کہ کچھ باتیں انہوں نے اپنے کلچر , ثقافت اور مذ ہب کے مطابق لکھی ہیں -- ان باتوں کو پاکستان میں اپنے مذہب و ثقافت کے روپ میں ڈھال کر اپنی زندگی خوشگوار بنا سکتے ہیں اور ریٹائر ہو جانے کے بعد صحت مند خوش و خرم زندگی کے مزے لوٹ سکتے ہیں - لیکن میں ایک بات کا ہمیشہ دھیان رکھتا ہوں اور وہ ہے جارج برنارڈ شاہ کا قول کہ جب کام کرنے لگو تو یوں سمجھو کہ میری کامیابی -- ناکامی سب میرے کام کے اوپر منحصر ہے لیکن اس کے بعد دعا مانگو تو اس جذ بے کے ساتھ کہ یہ سب کوششیں بے کار ہیں - یہ سب محنتیں رائیگاں ہیں - ان کی کوئی حیثیت نہیں جب تک اے اللہ تعالیٰ تیری مدد و رحمت نہ شامل ہو
ہمارے بڑے بوڑھوں نے بھی کچھ اصول بتائے ہیں جنہیں اپنا کر ایک اچھی صحت مند زندگی گزارنا سہل ہو جاتا ہے - ان باتوں میں کچھ تو ایسے امور ہیں جن کے اثرات نفسیاتی یا روحانی طور پر پڑتے ہیں اور زندگی میں غیر محسوس طریقے سے راحت و اطمینان لانے کا موجب بنتے ہیں - کچھ طب سے متعلق ہیں جو صحت کو صحیح خطوط پر چلانے اور تکالیف سے بچانےمیں براہ راست اپنا کردار ادا کرتے ہیں - کچھ معاشرے کی ناہمواریوں سے نبٹنے سے متعلق ہیں جو ذہنی صحت کے بناؤ اور بگاڑ میں اہم کلیدی کردار ادا کرتے ہیں -
...اپنی چادر دیک کر پاؤں پھلا ئیں - اپنی آمد نی کو اس طریقے سے خرچ کرنے کی کوشش کریں کہ کچھ نہ کچھ پس انداز ہوجائے تاکہ وقت ضرورت کام آئے - کچھ حصہ سیر و تفریح کے لئے رکھ لیجئے تاکہ ذہن کو تراوٹ ملتی رہے .. ہلکی پھلکی ورزش جسمانی صحت کے لئے اچھی رہتی ہے -- اپنی خوراک پر قابو پائیں - کھانے کے اوقات مقرر کریں - پیٹ بھر کے کھانا صحیح نہیں خصوصاً رات کے وقت - رات کا کھانا شروع کرنے سے پہلے دل میں اعلان کریں کہ میں نے کم کھانا ہے - ہمارے یہاں شادی بیاہ کی تقریبات رات کو سر انجام پاتی ہیں اور ان تقریبات میں یہ اصول بہت بے دردی سے پامال ہوتا ہے - کھانے کے دوران خاموشی رہے تو بہتر ہے - پیٹ کی بیماری سب امراض کی ماں ہے -اس میں قبض بھی شامل ہے اس سے نجات پانے کی حتی المقدور کوشش کی جائے -- غصہ سے پرہیز کیجئے -اس کے سبب ذ ہن پر اثر پڑتا ہے - خوں کی ماہیت میں تبدیلی آتی ہے اور دل کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے -- رحم دلی کے جذبے کے تحت لوگوں میں عطیات -خیرات - صدقات - بانٹتے رہا کریں - لوگوں میں مستحق ، محدود آمدنی والے - رشتے دار دوست احباب , ناواقف افراد سبھی شامل ہیں - -- ہمیشہ اللہ کا شکر گزار رہنا چاہیئے - انسان کو جو حاصل ہے اس کا شکر تو ادا نہیں کرتا لیکن جو نہیں حاصل اس کا گلہ شکوہ کرتا رہتا ہے -نتیجہ یہ ہے کہ پریشان ہی رہتا ہے جو صحت کے لئے صحیح نہیں ہے - خواہشات اور تمناؤں کی انتہا نہیںہے - -- رشتے داروں سے ملیں لیکن احتیاط کے ساتھ - یہاں پر جناب جاوید چودھری کی رائے بھی یاد آتی ہے جو انہوں نے اپنے ایک کالم میں دی تھی - وہ کہتے ہیں کہ کنجوس ،دھوکے باز ، جھوٹے لوگوں سے ملنے میں احتیاط کریں - اس قسم کے دکانداروں سے بھی ملنے میں پرہیز کریں - اگر دوست -رشتے دار خوش اخلاق نہ ہوں تو ان سے بھی دوری اختیار کریں تو بہتر ہے ورنہ ان کی عادتیں بھی چڑ چڑے پن کا باعث بنتی ہیں جو اچھی صحت کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے -- خوش رہنے کے لئے اچھے اور زندگی کو مثبت رنگ میں دیکھنے والے دوستوں کی صحبت اختیار کریں - -- کوشش کریں کہ وہی پیشہ اختیار کریں جو آپ کے طبعی رجحان کے مطابق ہو لیکن آج کل جب نوکریوں کا کال پڑا ہوا ہے اسے جان کا روگ نہ بنالیں - ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یہ تمنا پوری کر نے کی کوشش کریں- -- معا ف کر نے کی عادت ڈالیں اور اس کے علاوہ معافی مانگنا بھی سیکھیں- -- ایمان دار شخص عزت پاتا ہے -ایسی عزت دل کو ایک روحانی سکون پہنچاتی ہے
|