دہشت گردی کی جڑ، بے گناہوں کا قتل عام

ملک کو کمزور کرنے میں صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی شعبہ ہائے کار سے تعلق رکھتا ہے اگر بد عنوانی اور بد نیتی سے کام کرے وہ بھی اس ملک کو کمزور کرنے میں برابر کا شریک ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن بہت بڑا مسئلہ ہے جو دن بہ بدن غریبوں کا استحصال کر رہا ہے مگر دنیا کی نظر میں قومیں جب اپنا وقار پیش کرتی ہیں تو اس وقت میڈیا بہت اہم کردار کرتا ہے۔آج کا یہ کالم کچھ میڈیا کی نظر کیا جاتا ہے۔

میڈیا حقیقت سے پردہ اٹھائے مگر شائستہ اور احسن طریقے سے کسی خبر کو آگ کی طرح پیش کرنا جو سننے والوں کے دلوں میں شعلے بھڑکا دے اگر میڈیا یہ اپنی آزادی سمجھے یہ آزادی نہیں بلکہ یہ ان کا غیر مہذب طریقہ کار ہے جو لوگوں کے اندر انتشار کا باعث بنتا ہے۔ چند روز قبل پروگرام ” کامران خان کے ساتھ“ دیکھنے کا اتفاق ہوا بہ عنوان” پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے، قوم فیصلہ کرے“ انھوں نے اپنے ماہرانہ انداز میں دل لبریز کر دینے والا پروگرام کیا اور دنیا کو اور پاکستانی قوم کو یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی ہر جگہ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے۔کسی حد تک ان کے پروگرام سے اتفاق کیا جا سکتا ہے انھوں نے بہت سی مثالیں دے کر اپنے موقف اور پروگرام کو دلیل بنا کر پیش کیا اور حتی الوسع اپنی بات باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے بات سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔میں انڈونیشیا ، تھائی لینڈ ، برطانیہ اور امریکہ میں پاکستانیوں کی طرف سے کی گئی دہشت گردی کی بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ممبئی ہوٹل میں ہونے والے دہشت گردی اور اجمل قصاب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں اس واقعہ میں اجمل قصاب تو پکڑا گیا اور حکومت پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت چلتی رہی گرمی بھی آئی، ٹھنڈک بھی آئی اور کچھ تلخ الفاظ کا تبادلہ بھی ہوتا رہامگر انڈین حکومت اور میڈیا نے کچھ یو ں موقف اختیار کر رکھا تھا جیسے اس واقعہ میں صرف ایک شخص ملوث تھا جس نے یہ سب کچھ کیا۔اجمل قصاب ۔۔اس کے بعد کیس عدالت میں پہنچ گیا کیا کچھ ہوا میں واقعات کی ترتیب کو بیان نہیں کرنا چاہتابلکہ ایک بات قارئین کو سمجھانے کی کوشش کروں گا وہ یہ کہ آخر اس واقعہ میں ہندو شدت پسند بھی تو ملوث تھے جو موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور ان کے نام اور کام سے پردہ کیوں نہ چاک کیا گیاساری شرمندگی اور جگ ہنسائی کا بوجھ آخر پاکستان کو ہی کیوں سہنا پڑا ساری ناامیدی مایوسی اور ناکامی آخر پاکستان کے حصے میں ہی کیوں ۔۔۔۔؟

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح قمیض کے بھی دو پلے ہوتے ہیں کسی بھی طرف سے کوئی پلہ اٹھایا جاتا ہے تو بدنامی آخر اپنی ہوا کرتی ہے۔گھر میں بھی تو لڑائیاں ہو اکرتی ہیں کیا ہم اسے باہر بتانا پسند کرتے ہیں ہرگز نہیں ! تو پھر ہمیں اپنے ملک کو بھی اپنا گھر سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی روز محشر کی طرح عیا ں ہے کہ ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنے ہم سے ناراض ہیں تو پھر ظاہر ہے ناراضگی سے تلخیاں بھی جنم لیتی ہیں اور اگر آج ان کو کوئی دہشت گرد کہتا ہے تو بات غلط ہے کیوں کہ اپنوں کو روٹھے ہوئے یا ناراض کہتے ہیں نہ کہ دہشت گرد۔۔بھائی کامران خان نے آخر میں کچھ یوں نتائج نکالے کہ ہمیں وزیرستان اور چند دوسرے علاقوں میں فوجی آپریشن کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کرے۔ایک واقعہ میں بھی دلیل کے طور پر بیان کروں گا کہ 19 جون کو ہونے والی شیلنگ میں میرا دوست جو اسلامک بینکیگ اینڈ فنانس میں پڑھتا تھا چھٹیاں ہونے پر گھر گیا اور ہمیشہ کے لیے ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا یہ وہ شخص تھا جو پاکستان کا ترانہ یا پاکستان کے جھنڈے کو دیکھتا تو سیلیوٹ کیے بغیر ایک قدم بھے آگے نہ بڑھتا کبھی کبھار ملکی صورت حال پر بحث و مباحثہ ہوتا تو وہ شخص اشکبار ہو جاتااور ایک بہت پیاری بات کیا کرتا تھا کہ آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے۔ہزاروں باپ اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ گئے سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو گئیں اور اگر ان لوگوں کی آہوں اور سسکیوں میں کوئی شریک نہ ہو اور غمگساری تو دور کی بات بلکہ مشترکہ آپریشن کا اعلان ہو اور ڈرونز رہی سہی کسر پوری کردیں تو شاید وہ لوگ دہشت گرد ہی بنیں گے اور بیرونی ایجنسیاں اور دشمن عناصر اس بات کا بھر پور فائدہ اٹھائیں گے اور اٹھا رہے ہیں۔ ان کی کیا مجال کہ وہ مہران ایئر بیس پر اس طرح ماہرانہ انداز میں حملہ کریں بلکہ ان لوگوں کے پیچھے وہ ناسور ہیں جو ہمارے درمیان موجود ہیں اور خبر تک نہیں وہ بھیڑیے بھیڑوں کا لباس اوڑھے دندنا رہے ہیں ۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاست دان روٹھے بلوچی اور قبائلی بھائیوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں کیونکہ طاقت دلیل نہیں ، دلیل دلیل ہوتی ہے ۔ ہمیں اب ان کے گلے شکوے اور اپنے تحفظات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی ایک چیز ہے جو ہم میں چھپے دشمن نہیں چاہتے اور ان دکھی لوگوں کے جذبات کی پشت پناہی ہر رہے ہیں اور ہمارے میڈیا کو مسائل کی ترتیب اور خود ساختہ دہشت گردوں کی طرف اشارہ کی نہیں بلکہ ان کے پیچھے چھپی ہو وجوہات کو بنانے کی ضرورت ہے اور ہماری قوم کو بھائی چارہ اور اخوت جیسے دو عنصر کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دنیا کو یہ بات باور کرا سکیں کہ ہم ٹوٹے نہیں روٹھے تھے اور ہمارے رشتوں میں جڑی زنجیروں کو توڑنا آساں نہیں ۔ خدا ہماری دھرتی کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین
Khalid Iqbal Asi
About the Author: Khalid Iqbal Asi Read More Articles by Khalid Iqbal Asi: 8 Articles with 5443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.